معروف اسرائیلی سیاسی تجزیہ کار اوری گولڈبرگ نے کہا ہے کہ وزیر اعظم بن یامین نیتن یاہو کے پاس جنگ بندی تسلیم کرنے کے سوا کوئی اور راستہ باقی نہیں بچا تھا، کیونکہ ایران کے جوابی حملوں سے اسرائیل کو شدید نقصان ہوا اور ساتھ ہی امریکا، خصوصاً ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے دباؤ بھی بڑھتا گیا۔
’اسرائیلی اہداف مضحکہ خیز ہیں‘
اوری گولڈبرگ نے عرب ٹی وی چینل ’الجزیرہ‘ کو دیے گئے انٹرویو میں کہا، یہ دعویٰ کہ اسرائیل نے ایران کے خلاف تمام اہداف حاصل کر لیے، سراسر مضحکہ خیز ہے۔
انہوں نے مزید کہا ’پچھلے ہفتے اسرائیل کی جانب سے مقاصد میں جوہری پروگرام کو ‘ختم کرنا’ اور یہاں تک کہ ‘نظامِ حکومت تبدیل کرنا’ جیسے بلند دعوے کیے گئے، لیکن کسی ایک بھی ہدف کی واضح تکمیل نہیں ہوئی۔‘
ایران کا جوہری پروگرام محفوظ؟
گولڈبرگ کے مطابق ایران کے جوہری تنصیبات کو کچھ حد تک نقصان پہنچا ہے، لیکن یہ واضح نہیں ہے کہ ایران کا افزودہ شدہ یورینیم کا ذخیرہ متاثر ہوا یا نہیں۔
یہ بھی پڑھیے
ایران کس طرح اسرائیلی فضائی دفاعی نظام کو چکمہ دے رہا ہے؟
اسرائیلی سیاست دان کی گواہی
اسرائیل پہلی بار جنگ ہار گیا، ٹائمز آف اسرائیل کی رپورٹ
انہوں نے کہا ایران سے اسرائیل کو فوری یا ناگزیر جوہری خطرہ کبھی تھا ہی نہیں، تو اس تنازع کے بعد بھی اصل صورتحال میں کوئی بنیادی تبدیلی نہیں آئی۔
ٹرمپ فیکٹر اور جنگ بندی
گولڈبرگ کا کہنا تھا کہ نیتن یاہو نے یہ جنگ ٹرمپ کی حمایت پر انحصار کرتے ہوئے شروع کی۔
’جب آپ اسرائیل کی گاڑی کو ٹرمپ کے رتھ کے ساتھ جوڑ دیتے ہیں، تو پھر اس راستے پر چلنا ہی پڑتا ہے۔‘
اوری گولڈبرگ نے کہا کہ ٹرمپ نے واقعی نیتن یاہو کو سفارتی سطح پر سہارا دیا، اور اس کے بدلے میں نیتن یاہو کو ٹرمپ کے علاقائی امن منصوبے میں ساتھ دینا پڑا۔
ان کا کہنا ہے کہ جوہری پروگرام کو تباہ کرنے اور حکومت کی تبدیلی جیسے اسرائیلی اہداف حاصل نہیں ہوسکے۔ ایرانی کے جوابی میزائل حملوں سے اسرائیل میں غیر معمولی جانی و مالی نقصان ہوا۔ اس کے بعد ٹرمپ انتظامیہ کی طرف سے جنگ بندی پر زور دیا گیا۔
تبصرہ کریں