شاہدہ مجید، اردو شاعرہ ، کالم نگار، صحافی

پانی کے تند ریلوں کے سامنے بند کیسے باندھا جائے؟

·

آنے جانے والے حکمرانوں نے عوام کو یہ تو بتا دیا کہ بارش ہوتی ہے تو پانی آتا ہے، زیادہ بارش ہوتی ہے تو زیادہ پانی آتا ہے، اور ساتھ لاتا ہے سیلاب۔۔۔

اور یہ ہر سال ہوتا ہے۔۔۔ بارشیں، سیلاب اور اموات۔ لیکن ان سے نمٹنے کا کوئی مؤثر، عملی اور دیرپا انتظام کرنا کسی بھی حکمران نے ضروری نہیں سمجھا۔

ملک میں کہیں نہ کہیں ہر سال ایسے شدید موسمی حالات پیدا ہوتے ہیں جن سے گھر تباہ ہوتے ہیں، مویشی بہہ جاتے ہیں، فصلیں اجڑ جاتی ہیں، اور کئی قیمتی انسانی جانیں سیلابی ریلوں کی نذر ہو جاتی ہیں۔ ہر سال اربوں، کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔

اس کے بعد وہ ہی سوشل میڈیا پر ہنگامہ، شور شرابا ہوتا ہے ۔ پالیسیاں بنتی ہیں، بجٹ مختص ہوتے ہیں۔۔۔ مگر اگلے سال پھر وہی قصہ، وہی کہانی دہرائی جاتی ہے۔
وجہ؟ ایک تو امدادی مشینری آج تک مکمل نہیں ہو سکی، اور جو موجود ہے، وہ بھی بروقت حرکت میں نہیں آتی۔

پچھلے چند ہی دنوں میں بارشوں کے نتیجے میں ملک بھر میں تقریباً 60 افراد جاں بحق اور 100 زخمی ہوئے۔
سوات میں ایک ہی خاندان کے 13 افراد پانی کے تند ریلے میں بہہ گئے ۔۔۔ وہ ڈیڑھ گھنٹے تک مدد کے منتظر رہے، مگر کوئی نہ آیا۔
اگر بروقت امداد پہنچ جاتی، تو شاید وہ زندہ ہوتے۔
مقامی لوگ کہتے ہیں کہ وہ مسلسل متعلقہ اداروں کو کال کرتے رہے، لیکن نہ کوئی ٹیم پہنچی، نہ ہیلی کاپٹر اُڑا ، وسائل تھے نہیں، اور جو تھے وہ فعال نہ ہو سکے۔

اور پھر ایک اور پہلو ۔۔۔ سب جانتے ہیں کہ دریا کے کنارے ہوٹل بنانا اور وہاں سیاحوں کو بیچ دریا ناشتہ کرانا خطرناک ہے، مگر پیسہ کمانے کی ہوس ہوٹل مالکان کو یہ سوچنے نہیں دیتی کہ سیاح ان علاقوں کے موسمیاتی مزاج سے لاعلم ہوتے ہیں۔
کسی اچانک طغیانی یا ریلے کی صورت میں وہ اپنا بچاؤ نہیں کر سکتے۔
ایسے ڈھابے اور ہوٹل اب بند ہونے چاہئیں۔

رہ گئے باقی عوام تو وہ پیراک تو ہوتے نہیں،اور تو کیا کریں سیلاب آ جائے تو ویڈیو بنانے لگتے ہیں۔
لیکن کبھی سوچا کہ اگر یہ ویڈیوز نہ بنتیں تو کئی حادثوں کی اصل حقیقت کبھی سامنے نہ آتی۔

ہر طرف غیر ذمہ داری کا عالم ہے۔
اکثر لوگ خود بھی احتیاط نہیں کرتے۔ موسم کا الرٹ جاری ہوتا ہے، لیکن کوئی اس پر کان نہیں دھرتا۔
تاہم اگر انتظامیہ خود بھی الرٹ دے کر خاموش ہو جائے، ریسکیو ٹیمیں وقت پر نہ پہنچیں، تو یہ ناقابلِ قبول غیر ذمہ داری ہے۔

لیکن صرف حکومت ہی نہیں، ہم عوام کو بھی اپنی ذمہ داری کا احساس کرنا ہو گا۔
جب شدید بارشوں کی پیش گوئی ہو، سیلابی خطرات کی وارننگ ہو، تو ایسے علاقوں میں سیر و تفریح پر جانا دانشمندی نہیں۔
شہر سے باہر نکلنے سے پہلے موسم کا حال معلوم کرنا ہماری ذمہ داری ہے۔

قدرتی آفات اور موسمیاتی تبدیلیاں کوئی نئی بات نہیں ۔۔۔ یہ صدیوں سے ہو رہی ہیں۔
انہیں روکا نہیں جا سکتا، لیکن ان کے اثرات کو کم ضرور کیا جا سکتا ہے۔
اس کے لیے عالمی، حکومتی اور عوامی سطح پر سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہو گا۔

زیادہ سے زیادہ درخت لگانا وقت کی اہم ترین ضرورت ہے۔
سالوں سے اس پر بات ہو رہی ہے، آگاہی دی جا رہی ہے ۔۔ اور یہ کام کوئی مشکل نہیں۔
ہر فرد اپنے حصے کے کچھ درخت لگا سکتا ہے۔

درخت کاٹنے سے روکنا، ماحول دوست پالیسیاں بنانا، اور عوام میں شعور بیدار کرنا حکومت کی اولین ذمہ داری ہے۔
ناجائز تجاوزات، اور زرعی زمینوں پر ہاؤسنگ اسکیموں کی یلغار پر بھی قابو پانا ہو گا۔

قدرت کے سامنے بند نہیں باندھا جاسکتا لیکن اپنی غفلتوں کے سامنے بند تو باندھے جاسکتے ہیں ۔ اور یہ کام سب کو مل کر کرنا ہے ۔

اگر ہم خطرات کو سنجیدگی سے نہیں لیں گے، تو نقصان قدرتی نہیں، ہماری اپنی غفلت کا خمیازہ ہو گا۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے