چند روز قبل مجھے نتھیا گلی اور اس کے گردونواح کے حسین مقامات کی سیر کا موقع ملا۔ یہ سیاحتی سفر میں نے اپنے اہلِ خانہ کے ساتھ کیا، جو نہایت پُرلطف اور یادگار ثابت ہوا۔
تین دنوں پر مشتمل اس سفر میں ہم نے تین مختلف مقامات کی سیر کی، ہر مقام کا اپنا الگ حسن اور دلکشی تھی۔ میں نے اس سفر کی یادوں اور تجربات کو قارئین کی سہولت کے پیش نظر تین علیحدہ حصوں کی صورت میں قلم بند کیا ہے، تاکہ ہر جگہ کا حسن اور اس کا مخصوص ماحول بھرپور طور پر قاری تک منتقل ہو سکے۔
چیڑوں کے سائے میں ایک ذائقہ
شانگلہ گلی کی بلندیوں پر، جہاں چیڑ کے بلند و بالا درخت اپنی سرسبز شاخیں آسمان کی وسعتوں تک پھیلائے ایستادہ ہیں، بادل زمین کو چومنے کو جھکے آتے ہیں، اور ہوا میں بسا خنک نمی کا لمس روح تک اترتا ہے—وہیں کسی پرانی داستان کے منظر کی مانند ایک پہاڑی ڈھلوان پر، ریستوراں کے ساتھ اترائی کی طرف، چیڑوں کے بیچوں بیچ لکڑی کی میز کے گرد کرسیاں لگا کر ہم بیٹھے تھے۔
بادلوں کی دھیمی دھیمی آمدورفت، جیسے کوئی گمشدہ قافلہ خاموشی سے گزر رہا ہو، اور چیڑوں پر گرتی بوندیں، جن کی ہر چھناچھن ایک پرانی یاد کو جھنجھوڑ دیتی تھی—اس لمحے میں، سامنے رکھے تانبے کے کڑاہی میں مرغ کے ٹکڑوں سے بھاپ اٹھ رہی تھی، خوشبو ایسی کہ جیسے گاؤں کے چولہے سے نکلی کوئی پرانی محبت۔
ہم نے پہلی بوٹی اٹھائی تو ایسا لگا جیسے اس ذائقے نے پورے منظر کو اور بھی دھندلا اور خوابناک بنا دیا ہو۔ بارش میں بھیگی فضا، ہنستی ہنستی رینگتی دھند، اور ہمارے سامنے رکھا وہ گرم مرغ کڑاہی—یہ کوئی سادہ طعام نہ تھا، بلکہ فطرت کی گود میں ایک روحانی ضیافت تھی، جہاں ذائقہ زبان سے زیادہ دل میں اترتا ہے۔
یہ وہ لمحہ تھا جب انسان کھانے کے ساتھ ساتھ فطرت کو بھی چکھتا ہے… اور محسوس کرتا ہے کہ شاید اصل زندگی تو وہی ہے جو چیڑوں، بارش اور کڑاہی کے بیچ بسر ہو۔
لالہ زار نیشنل پارک کی مہم جوئی
نتھیا گلی کے ہنستے مسکراتے پہاڑوں کے دامن میں ایک بنگلہ تھا… نام تھا اُس کا بیلا فلیش ولا، مگر ہمیں تو وہ جنت کا ابتدائی دروازہ لگا۔ وہ بھی ایسا جنتی دروازہ جس سے گزرنے کے لیے نہ بندہ صالح ہونا شرط ہے، نہ کسی مقرب فرشتے کی سفارش درکار۔ بس حماد شاہ بخاری جیسے سفر کے امیر کا ساتھ چاہیے، اور تین کلو دماغ کا بوجھ جو اکثر سیاحوں میں کم پایا جاتا ہے۔
اگلے دن ہم نے فیصلہ کیا کہ آج ہم لالہ زار نیشنل پارک کو جا لیں گے۔ ہاں، جا لیں گے، کہ جیسے کوئی عاشق اپنے محبوب کو جا لیتا ہے، نہ کہ بس جا کے دیکھ لیتا ہے۔ ہم نے بنگلے سے 500 میٹر کا سفر پیدل طے کیا، جسے سن کر لاہور کی ’گاڑی کے بغیر زندگی‘ والی مخلوق شاید چیخ پڑے۔ یہ پارک ایوبیہ جیسا ہموار بچہ نہیں، بلکہ ایک ضدی پہاڑی لڑکی کی مانند ہے جو ہر وقت بلندی پر چڑھی رہتی ہے۔
ٹکٹ خریدا، وہ بھی صرف بیس روپے کا۔ اتنے میں تو لاہور میں سگنل توڑنے کا چالان نہیں بھرتے۔ ٹریک کے آغاز پر غارِ حرا جیسی سیڑھیاں دکھائی دیں۔ چڑھائی ایسی کہ اگر بندہ گناہگار ہو تو توبہ بھی چڑھائی میں تحلیل ہو جائے۔ فاصلے فاصلے پر سائبان تھے، جیسے کوئی عقل مند منتظم جانتا ہو کہ انسان صرف جسم سے نہیں، سانس سے بھی تھکتا ہے۔
جنگل نے ہمیں لپیٹ میں لیا، جیسے صوفی کو وجد نے گھیر لیا ہو۔ درخت خاموش تھے، لیکن ان کی خامشی گونجیلی تھی۔ پرندے گنگنا رہے تھے اور ہمارے تھکے جسموں میں قدرتی آکسیجن ایسے گھس رہی تھی جیسے مریض کو وینٹی لیٹر لگا دیا گیا ہو۔ سانسیں خوشبوؤں سے معطر، اور دل رنگ برنگی تتلیوں کے ساتھ ساتھ اڑنے لگا۔
پھول، گڈوئے، لیڈی بگز، جیسے کسی ننھی بچی نے اپنی رنگین پینسلوں سے یہ جنگل سجایا ہو۔ اور وہ سفید گلِ داؤدی… جیسے کسی نے پوری وادی کو سفید شال اوڑھا دی ہو، کہ سردیوں کی ماں اپنے بچے کو تھپک رہی ہو۔
چراہ گاہ آئی، تو لگا جیسے زمین نے گھاس کا قالین بچھا کر ہمیں خوش آمدید کہا ہو۔ ہم اس قالین پر چلتے گئے اور گھاس نے ہماری ایڑیوں کا ایسا مساج کیا کہ تھکن شرمندہ ہو گئی۔
دو گھنٹے بعد ہم ایک عجیب دنیا میں داخل ہوئے، لالہ زار نیشنل پارک کا وہ حصہ جہاں انسان نے فطرت کو پنجروں میں قید کر کے نمائش بنا دی ہے۔ ہاں، قید، وہی قید جسے انسان نے بڑے فخر سے ’تحفظِ جنگلی حیات‘ کا نام دیا ہے۔ وہ جنگلی مرغ جو کبھی نکیال کی وادیوں میں اڑتا تھا، اب پنجروں میں بیٹھا زبانِ حال سے چیخ رہا تھا:
’ابنِ آدم! تو نے ہمیں ہمارے دیس سے نکالا، ہمارے دانے بکھیر دیے، اور پھر ہمیں یہاں لا کر کہا کہ ہم محفوظ ہو گئے!‘
ایک ننھا ریچھ بھی دکھ بھری آنکھوں سے ہماری طرف تک رہا تھا، اور شاید یہ سوال کر رہا تھا:
’کیا میری ماں کے بغیر بھی کوئی تحفظ ہوتا ہے؟‘
آہنی جنگلے کے اس پار ایک تندوا بھی تھا، جسے قید کر کے انسان نے ’دلچسپی‘ کا سامان بنایا تھا۔ وہ تندوا اگر بول سکتا تو شاید یہ کہتا:
’تمہاری وحشت کو تو سمجھا جا سکتا ہے، مگر تمہاری دلچسپیوں کا کیا علاج؟‘
یوں ہم نے ٹریک کے پہلے حصے کا اختتام کیا۔ جسم تھکے، دل زخمی، لیکن تجربہ ایسا جو روح کو جھنجھوڑ دے۔ ہم فطرت کے قریب گئے تھے، مگر انسان کی فطرت کو قریب سے دیکھ کر لوٹے تھے۔
مشک پوری کا قہرناک حسن
لالہ زار میں قیام کے دوران، جب روح تازہ ہو چکی تھی اور پٹھے سست ہو چلے تھے، تو ایک دیسی راہبر، جس کے چہرے پر مکر کی چمک اور جیب میں گھوڑوں کا کرایہ پلکیں جھپک رہا تھا، ہمیں ایک ‘آسمانی بشارت’ دے گیا۔ فرمایا: ’اگر زمین پر جنت دیکھنی ہو، تو مشک پوری ٹاپ چلے جاؤ۔ تین گھنٹے کا سیدھا سادہ سا سفر ہے، بس یوں سمجھو جیسے ناشتہ لاہور میں کرو اور لنچ پیرس میں۔‘
ہم نے پہلے تو اسے وہی سمجھا جو اکثر لوگ ہوتے ہیں—یعنی بلاوجہ بات کو شاعری بنا دینے والے۔ مگر جب اس نے اپنے موبائل پر وہ سفید گل داؤدیوں کی چادر دکھائی، جو یوں پھیلی ہوئی تھی جیسے قدرت نے قالین ساز سے معاہدہ کر لیا ہو، تو ہم پھسل گئے، وہ بھی بغیر کیچڑ کے۔ اس نے آخری تیر پھینکا: ’اگر آپ مشک پوری نہ گئے تو سمجھو زمین پر جنت کی جھلک دیکھے بغیر واپس جا رہے ہو!‘
یہ جملہ، جناب، وہی جادو رکھتا تھا جو ماں کی ڈانٹ میں محبت چھپی ہوتی ہے — لہٰذا ہم نے فوراً دو گھوڑیاں کرائے پر لے لیں۔ لڑکیاں ساتھ تھیں، ان کے پاؤں میں نہ زونگ کی سگنل، نہ نیپال کے یوگا — اس لیے پیدل سفر کا سوچنا بھی جرم تھا۔ گھوڑے تو جیسے فلم کے سین میں تھے — سبک خرام، لمبے بال، جیسے ابھی پس منظر میں موسیقی بجنے والی ہو۔
مگر ہم؟ ہم انسان تھے۔ اور انسان کو اگر ’مشک پوری‘ کی بلندیاں نصیب ہوں تو اس کی قیمت پسینے، کیچڑ اور ہڈیوں کی چیخوں سے چکانی پڑتی ہے۔ راستہ سانپ کی کمر کی طرح بل کھاتا، ہر موڑ پر امید کی کمر توڑ دیتا۔ بادل یوں گزر رہے تھے جیسے کوئی سفید چادر آنکھوں پر ڈال دے، اور ہم روحانی غسل سے شرابور ہو رہے تھے۔
اور جب ہم اس طلسمی ٹاپ پر پہنچے — تو وہاں جنگل نہیں، بلند و بالا ٹیلوں اور گل داؤدی سے ڈھکے نرم ڈھلانوں کا دلربا منظر تھا۔ مگر اس منظر پر انسانوں کا بے ہنگم ہجوم چھایا ہوا تھا۔ عورتیں، مرد، بچے، کھچاک کھچاک سیلفیاں، چیخیں، گانوں کی دھمک۔ سفید گل داؤدی جنہیں خدا نے زمین پر سفیدی کا فریضہ سونپا تھا، اب قدموں کے نیچے روندے جا چکے تھے۔ یوں لگتا تھا جیسے انسان نے پھر ایک جنت کو داغدار کر دیا ہو۔
بارش شروع ہوئی — وہی شاعرانہ، خفیف، نرم، دھیرے دھیرے جذبات بھگونے والی بارش۔ پھر وہ تیز ہو گئی — جی ہاں، وہی بارش جو فلموں میں عاشقوں کو بھیگاتی ہے، مگر ہمارے حصے میں عاشقی کم اور سردی کے بخار زیادہ آ رہے تھے۔
واپسی پر منظر نامہ یہ تھا کہ کیچڑ ہمارا لباس بن چکا تھا، سر سے جوتوں تک ہم زمین سے گتھم گتھا ہو چکے تھے۔ ایک کے بعد ایک پھسلے — پہلے ہمارے امیر سفر، پھر میں، پھر باقی سب۔ ہم سب اس مہم میں یوں لت پت تھے جیسے کوئی بچہ پہلی بار برفی کھانے کے بعد ہاتھ دھونا بھول جائے۔
درختوں نے ہمیں بارش سے بچایا — کچھ نے پناہ دی، کچھ نے مذاق اڑایا۔ رات کا سایہ پھیلنے کو تھا، دانت بج رہے تھے، ہڈیاں کہہ رہی تھیں ’کاش! ہم جوڑوں کی گڑیا ہوتیں۔‘ مگر اس سب کے باوجود، یہ سفر — جی ہاں، یہ مشک پوری کی مہم جوئی — ہمارے دل میں یوں نقش ہو گئی جیسے کسی خطاط نے سخت کاغذ پر پگھلی ہوئی سیاہی سے ‘یادگار ’ لکھ دی ہو۔
مشکل تھی، لیکن حسین۔
دردناک تھی، لیکن دلنشین۔
اور یادگار؟ ایسی کہ اگلی بار اگر کوئی گھوڑیاں پیش کرے گا، تو ہم پہلے گھوڑے کا شجرہ پوچھیں گے!
تبصرہ کریں