آج کی نوجوان نسل میں ذوقِ لطافت کی کمی دیکھ دیکھ کے میرا دل کڑھتا ہے۔ جذبات کے اظہار کا صحیح رخ، دل کی دنیا کے معاملات، زندگی میں احساسات کی اہمیت و قدر۔۔۔ یہ سب سیکھنے کی ضرورت ہے آج کے نوجوان کو۔لیکن سکھائے کون؟ کالج، یونیورسٹی، اسکول آف آرٹس۔۔۔۔
یہ ادارے بھی نہیں سکھائیں گے۔جب سارا نظام معاشی مفادات کی بنیاد پہ کھڑا ہو تو کون تربیت پہ مغز ماری کرے اور کیوں کرے۔
آج شو بز نے نوجوان نسل کو جو بے شمار، تحفے دیے ہیں ان میں ایک نزاکتِ جذبات، لطافتِ ذوق اور شوخئیِ مزاج کی موت بھی ہے ۔
ہر چیز حتیٰ کہ جذبات اور تعلقات بھی کمرشلائز ہو چکے ہیں۔۔۔۔
آج لڑکیاں سجتی سنورتی ہیں لیکن صرف فوٹو سیشن کے لیے، ڈرامے میں رول ادا کرنے کے لیے، یونیورسٹی کے فنکشن کے لیے، جاب پلیس میں باس یا دیگر مردوں کو ’متاثر‘ کرنے کے لیے اور۔۔۔ اور۔۔۔۔ بوائے فرینڈ کے ساتھ کچھ وقت گزارنے کے لیے۔۔۔۔
کوئی یہ نہ سمجھے کہ میں لڑکیوں کو ترغیب دلا رہی ہوں کہ وہ ہر وقت سجنے سنورنے میں لگی رہیں، بھڑکیلے کپڑے پہنیں، آئینے کے آگے گھنٹوں گزار دیں، ہر وقت شوخ و چنچل نظر آئیں، قہقہے لگائیں۔۔۔۔ نہیں ہرگز نہیں، ایک مسلمان لڑکی کی زندگی کا اعلیٰ مقصد جو ہے اس کا تقاضا ہے کہ ایسی بیکار مشغولیات کے لیے وقت نہ بچنے پائے ۔۔۔
میں جس نکتے کی طرف توجہ دلانا چاہ رہی ہوں وہ یہ ہے کہ ان بے چاریوں کو صرف ایک نعرہ دے دیا گیا ہے، خود مختاری کا نعرہ، ویمن ایمپاورمنٹ کا نعرہ۔۔۔۔
شوبز سے جڑے لوگ اپنے مادی مفادات کے پیش نظر اس نعرے کو اس قدر پُرکشش بنا کے پیش کر رہے ہیں کہ لڑکیاں خواہ مخواہ متاثر ہوتی چلی جاتی ہیں۔ اپنی شخصیت کی گرومنگ، اخلاق و کردار کی مضبوط بنیادوں پہ تشکیل، جذبات و احساسات کو درست سمت دینے اور ان کے درست اظہار کے لیے وقت ہی نہیں ان کے پاس۔ میری جاب میرا پیسہ میری زندگی میری پرائیویسی۔ یہ ’میری، میری‘ ہی بظاہر پُرکشش نعرہ ہے لیکن حقیقتاً بڑا خطرناک ہے۔ مغربی تہذیب کا تخلیق کردہ یہ نعرہ کتنی ہی زندگیاں نگل گیا، کتنی ہی جوانیاں اس کی بھینٹ چڑھ گئیں۔
چاہیے تو یہ تھا کہ صنف نازک کے ہاتھ پھولوں کی آبیاری کرتے کہ کل یہ تناور درخت بن کے انسانیت کے لیے سائے کا ذریعہ بنیں گے۔ آنکھیں مستقبل کے معماروں کی تربیت کے لیے رَت جگے برداشت کرتیں۔ ذہن اور بدن کی قوتیں ملت کے ان ہونہاروں کی پرورش کرتیں کہ جو ستاروں پہ کمند ڈالیں گے۔
ہونا تو یہ چاہیے تھا کہ وفا، محبت، ایثار۔۔۔۔۔ اور ذوقِ زیبائش کے فطری میلان کو درست مقام پہ، درست موقع پہ ابھرنے کا موقعہ دیا جاتا۔ اور کون نہیں جانتا ان فطری میلانات کے ابھرنے کا بہترین ذریعہ شادی ہے۔۔۔۔بروقت شادی۔ عنفوان شباب ہی میں شادی۔۔۔۔
ہاں مگر ہو کیا رہا ہے کہ یہ آنکھیں یہ ہاتھ، ذہن اور بدن کی قوتیں اور صلاحیتیں کہیں تو کسی فیکٹری میں مصروف کار ہیں، کہیں کسی آفس میں یا شوبز کی چمکتی دمکتی دنیا میں ’اپنا آپ منوانے‘ کے لیے دن رات ایک کیا جا رہا ہے۔
عصرِ حاضر مَلک الموت ہے تیرا، جس نے
قبض کی رُوح تری دے کے تجھے فکرِ معاش
زندگی کا یہ انداز اور یہ طرزِ فکر ہم نے جس مغرب سے لیا وہاں اس نے جو نتائج دکھائے ہیں وہ ساری خبریں ہم تک پہنچنے نہیں دی جاتیں۔ وہاں یہ معمول کی بات ہے کہ پولیس کو کسی فلیٹ سے کسی کی ڈیڈ باڈی ملی جس کو قتل ہوئے مہینوں گزر چکے تھے۔۔۔ کبھی کوئی لاش سیڑھیوں پہ مل گئی، یا سڑک کنارے ۔۔۔۔
پھر خودکشیوں کا رجحان اور نوجوان نسل میں مایوسی اور تنہائی پسندی کا بڑھتا ہوارجحان، یہ سب ان کی روز مرہ زندگی کا حصہ ہے اور اب بدقسمتی سے ہم بھی عادی ہوتے جا رہے ہیں ایسے واقعات کے۔ عبرت کا مقام ہے کہ ہم جو زندگی کا بہترین نظریہ دنیا کی کامیاب ترین تہذیب اور خوبصورت ترین نظام زندگی رکھتے ہیں ہمارے معاشرے میں یہ واقعات رونما ہو رہے ہیں۔۔۔
یہ واقعات چیخ چیخ کر ہمارے عقیدے اور عمل میں تضاد کی خبر دے رہے ہیں۔
حالات و واقعات بتا رہے ہیں کہ ہمارا ایمان اللہ کے حاکم اور رازق ہونے سے اٹھ گیا ہے۔ہم بھول گئے کہ اس نے ہمیں محدود اختیار اور آزادی دی ہے مگر ہماری زندگی کی اصل ڈور اسی کے ہاتھ میں ہے۔ وہ اور بس وہی بہتر جانتا ہے کہ ہمارے لیے کیسا لائف اسٹائل مفید ہے اور کون سا طرز زندگی تباہ کن ہے۔ تاریخ گواہ ہے جب اور جہاں انسان نے اسے حاکم اور رازق مانا انسان کے لیے زمین و آسمان سے نعمتوں کا نزول ہوا۔
وہ ہم سے پہلے لوگوں کو بھی رزق عطا فرماتا رہا ہے ہماری مائیں، نانیاں، دادیاں، خالائیں، پھوپیاں، ہمارے دادا، چچا فلاں فلاں کوئی بھی فاقوں سے نہیں مرا۔ سب کھاتے پیتے اور زندگی سے لطف اندوز ہوتے تھے۔ یہ آج کیا ہو گیا کہ ایک دوڑ لگی ہے، کمانے کی دوڑ۔۔۔۔ معیار زندگی بہتر کرنے کی دوڑ۔۔۔۔۔
نوجوان لڑکیوں کو سر پٹ دوڑا دیا گیا ہے مادہ پرستی کی شاہراہ پہ۔ ایک لڑکی کہ جسے آنے والی نسل تیار کرنی تھی اس کے کندھوں پہ معاش کا بوجھ ڈال دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ لڑکے بے روزگار ہو گئے، مایوس ہو گئے، ذہنی تناؤ کا شکار ہو گئے۔۔ مادہ پرست معاشروں سے انسانیت رخصت ہو جاتی ہے اور جرائم میں اضافہ ہونے لگتا ہے۔
آپ نے کبھی سوچا کہ جرائم پیشہ افراد کی تعداد میں پریشان کن اضافہ کیوں ہو رہا ہے؟غور کریں گے تو ایک بڑی وجہ یہ نظر آئے گی کہ ان لوگوں کو بچپن میں وہ گود نہ ملی جو ان کے اندر انسانیت اتارتی، جو ان کی تربیت کتابِ ہدایت کے مطابق کرتی۔ ان کو گھر میں وہ والدین نہ ملے جو ایک دوسرے کاآئینہ ہوتے۔ ان کو گھروں میں ’میری، میری‘ ۔۔۔۔میرا گھر، میرا کمرہ، میرا مال۔۔ میری زندگی، میری مرضی جیسے خود غرضانہ نعرے ملے۔
یہ ترس گئے ماں کی گود کی ٹھنڈک کو۔۔۔۔ یہ منتظر رہے کب ماں فیکٹری/ دفتر/ کلچرل شو/ بزنس میٹنگز سے واپس آئے گی اور ان کو اپنی قربت کا احساس بخشے گی۔ پیار اور تربیت سے محروم بچے جب بڑے ہوئے تو لگے دوسروں کا گلا کاٹنے۔ ماں کے لمس سے محروم یہ بچے محبتیں کیونکر بانٹتے؟یہ نفرتوں کے سوداگر بن گئے۔
آج دنیا پہ حکمرانی کرنے والوں میں بھی آپ کو یہی اوصاف دکھائی نہیں دے رہے کیا؟؟ سوچیں نا! کس کوکھ میں پلے یہ اسپتالوں، پناہ گاہوں، آٹے کے لیے لائن میں لگے بچوں پہ بمباری کرنے والے؟ یہ نسل کشیاں کرنے والے۔ یہ سب آپ کے معاشرے کو بھی اپنے رنگ میں رنگ دینا چاہتے ہیں۔ شو بز بھی ان کا ایک ہتھیار ہے۔۔۔۔
کیا شوبز نے ’محبت‘ کا گھٹیا مفہوم نوجوانوں کے رگ و پے میں نہیں اتار دیا؟ کہ جس فرد سے ’محبت‘ کرتے ہیں اس کے انکار پر اسی کو اس کے گھر/ فلیٹ میں گھس کے قتل کر آتے ہیں۔ یہی ثمرات ٹک ٹاک کے بھی ہیں۔۔۔
اور ہاں۔۔۔۔بری الذمہ تم بھی نہیں اے لوگو! مت مصنوعی بیان بازی کرو، عائشہ خان قتل پہ۔۔۔ مت ہمدردیاں جتاؤ حمیرا اصغر کی مہینوں پرانی لاش کے ساتھ۔۔۔
قاتل تم ہی ہو اس لیے کہ تم معاشرے میں سچی محبت، ایثار، سادگی، قناعت، بے غرضی کی چلتی پھرتی تصویر نہیں بنے۔۔۔۔
لاشیں گھروں میں مہینوں اس لیے گل سڑ جاتی ہیں کہ تم نے بھلائیوں کے ان مول پھول بانٹنے کے لیے دروازوں پہ دستک ہی نہیں دی۔۔۔۔۔ہاں زیادہ سے زیادہ ایک لبادہ اوڑھ لیا۔۔۔۔پوسٹس اِدھر سے اُدھر لڑھکا دیں تاکہ معاشرے میں نیکی اور بھلائی کا عنصر جو ہلکی ہلکی سانسیں لے رہا ہے اس کے سامنے تمھارا بھرم قائم رہے۔۔
اور۔۔۔۔
اور تشویشناک پہلو یہ ہے کہ تمھی میں سے کچھ لوگ سوشل میڈیا (ویب سائٹس، فیس بک، انسٹاگرام۔۔) پہ مقتول خواتین کے غم کو جب غلط کر رہے ہیں تو انھی خواتین کے میک اپ، زلفوں، برہنہ بازو ، میک اپ کی کئی تہیں لیے چہروں کے ذریعے اپنی پوسٹس/ سٹوریز کی ریٹنگ بھی بڑھارہے ہیں۔۔۔۔۔۔۔
حالات کی تصویر کا روشن رخ کسی بھی ذمے دار تجزیہ کار کی نظروں سے اوجھل نہیں رہتا۔۔۔
راقم کا بھی مشاہدہ اور تجزیہ ہے کہ اس گئے گزرے دور میں بھی ایسے لوگ موجود ہیں جو حیا، حسن اخلاق، قناعت بے لوث تعلق داری کی چلتی پھرتی تصویر ہیں۔اشک سحر گاہی سے اپنی غلطیاں خود ہی دھوتے ہیں۔ ہر روز باد صبا ان سے دوستی کرتی ہے، تازہ مہک ان کے نام کرتی ہے۔ انسانیت سے پیار کی مہک، اخلاص کی مہک، بھلائی کی مہک۔۔۔
اور یہ دن ڈھلے اپنے دائیں بائیں، آگے پیچھے، ہر دروازے پہ دستک دیتے ہیں۔ کہیں کوئی بیمار پڑا ہو، توجہ کے دو بول ہی لٹا دیے جائیں اس کی شفا کی خاطر۔۔۔
کہیں کوئی احساسِ تنہائی کا مارا پتھریلی آنکھوں سے خالی خولی چھت کو گھور رہا ہو۔ اسے اپنائیت کا احساس بخش دیا جائے۔۔۔
کہیں ’جدید تہذیب‘ کا ڈسا اپنی بیٹی کی ردا و حیا کے کھو جانے پہ غم سے نڈھال بیٹھا ہو اسے اور کیا چاہیے؟ بس اس کے دروازے پہ ایک ایسے ہاتھ کی دستک جو بیٹی کے سر پہ حیا وتقدس کا آنچل اوڑھا دے۔۔۔
کہیں کسی کے آنگن کے پھول اور کلیوں کو’اسکول آف آرٹس‘ کی چکا چوند نے مسخ کر ڈالا۔ اسے کیا چاہیے؟ زندگی کی تصویر کو سچائی اور حقیقت کے کینوس پہ اس انداز سے تخلیق کیا جائے کہ انسان کی انسانیت شفاف دِکھائی دینے لگے۔۔۔۔
پھول اور کانٹے کا فرق واضح ہو جائے، اندھیرے اور اجالے کا فرق عیاں ہو جائے۔۔۔
ہاں ایسے باذوق، باہمت، باصلاحیت لوگ ہی تو ہیں معاشرے کا حُسن، زمیں کا نمک، پہاڑی کے چراغ ہیں۔ لطافتِ ذوق سے مالا مال یہ لوگ دکھی لوگوں کو مسکرانا سکھاتے ہیں۔ دوسروں کے غموں کا بوجھ خود پہ لے لیتے ہیں۔
آپ ہی اپنے تڑپنے کا مزہ لیتے ہیں
ہنس کے ہر غم کو سینے سے لگا لیتے ہیں
یہ جوان ہوں یا بوڑھے مرد یا عورت۔۔۔
ایسے لوگ معاشرے کا حسن ہوتے ہیں۔انسانیت کا عنواں اور آدمیت کی جان ہوتے ہیں۔
تبصرہ کریں