کچھ دن پہلے میں نے جرمنی سے تعلق رکھنے والے ہرمن ہیسے کا ناول ’سدھارتھ‘ پڑھا۔
میں نے یہ ناول بچپن میں بھی پڑھا تھا، لیکن اس بار اس کا مطالعہ مجھے میرے اندر لے گیا۔
مجھے لگا جیسے میں خود سدھارتھ کا ایک ’ساشے پیک‘ ہوں۔
ایک چھوٹا سا نمونہ، اس بے چینی اور تلاش کا جو اس کے اندر تھی۔
چھوٹا سا عکس، اس بڑے سوال کا… جو ہر باشعور دل میں کہیں نہ کہیں سلگ رہا ہے۔
اور میں ہی نہیں بلکہ اس معاشرے کا ہر پڑھا لکھاحساس، باشعور شخص اپنے اندر ایک سدھارتھ ہے۔
جس کے دل میں ان گنت، ان کہے سوال ہیں، جن کے جواب جاننے کے لیے وہ سرگرداں،بے چین اور مضطرب بھٹکتا پھر رہا ہے۔
اسے تلاش ہے ایسی آگہی، فہم و دانش اور سکون کی ، جو اسے اس دنیا کے دکھوں سے نجات دلا دے۔
اس ناول کا مرکزی کردار ایک قابل، اعلیٰ تعلیم یا فتہ براہمن زادہ ہے، جس کی زندگی پُر آسائش ہے، جو معاشرے میں انتہائی باعزت مقام رکھتا ہے۔
لیکن اس کا دل مضطرب ہے۔
اسے لگتا ہے روایتی تعلیم و تربیت کا خالی پن اُس دانش تک رسائی نہیں دے سکتا جس سے نروان ملتا ہے۔
وہ نروان جس کا وہ متلاشی ہے۔
نروان یعنی ایسا قلبی و روحانی سکون جو نفسانی خواہشات اور دنیا کے دکھوں سے نجات پانے کے بعد ملتا ہے۔
اسے یقین ہو جاتا ہے کہ اس کے اردگرد کے مذہبی ماحول اور معاشرتی نظام میں اس کا قلبی سکون موجود نہیں ہے۔
ایک دن اسے دنیاوی زندگی تیاگ کیے ہوئے کچھ سادھو ملے۔
وہ برہمن زادہ اپنے ماں باپ چھوڑ کر، آسائشوں سے منہ موڑ کر ان کے ساتھ چل دیا۔۔
اس نےآبادی سے دور جنگلوں میں
نفس کشی، تحلیل جسم کی پرمشقت ریاضتیں کیں۔
مراقبہ اور فاقہ کشی کی سختیاں جھیلیں۔
لیکن ایک دن اس نتیجے پر پہنچا کہ یہ سب بھی فریب ہے۔ یہ رستہ بھی اسے مکتی (نجات ) نہیں دے گا۔
اور پھر اس کی ملاقات گوتم بدھ سےہوئی۔
ایک مکالمے میں گوتم بدھ سے سدھارتھ نے کہا:
سادھو خود کو دھوکہ دے رہے ہیں۔
نجات، ذات سے فرار میں نہیں بلکہ اپنی ذات میں اترنے میں ہے۔
یہ معلم، مذہبی عقیدے، نظریات نجات نہیں دلا سکتے۔
’آتما کو پرم آتما سے واصل نہیں کرسکتے ۔۔‘
’ ‘ قدرت اور فطرت سے رجوع کرنا ہی اصل سچائی کی طرف راہنمائی کرسکتا ہے ۔۔
کہانی کے اس مقام پر پہنچ کر مجھے ۔۔۔
دور حاضر کے کچھ نوجوان یاد آئے جو اپنے مذہبی شدت پسندی، روایتی ماحول کی سخت گیری سے بھاگ کر ، آج کل سوشل میڈیا پر لبرل دانشور بنے نظر آتے ہیں۔۔
وہ بھی شاید اپنے رستے پر ہیں ۔۔۔۔۔
سدھارتھ کی طرح نروان کی تلاش میں ۔۔۔
جیسے سدھارتھ نے کہا تھا کہ
وہ کسی دوسرے عقیدے کی تلاش میں نہیں بلکہ تمام عقائد ترک کر کے
تنہا اپنی ذات تک پہنچنے کے رستے پر ہے ۔
تب سدھارتھ کو احساس ہوا کہ ذات کی تلاش میں آج تک وہ اپنی ذات سے فرار میں رہا۔ اور نتیجہ یہ نکلا کہ آج وہ دنیا میں کسی چیز کے بارے میں اتنا کم نہیں جانتا جتنا خود اپنے بارے میں۔
اور یہیں سے شروع ہوتا ہے۔
خود آگہی کا سفر، اندر کا سفر ، اپنی ذات کا سفر۔
جسے علامہ اقبال نے خودی کہا ہے
فرماتے ہیں ۔۔۔
اپنے من میں ڈوب کر پا جا سراغ زندگی
تو اگر میرا نہیں بنتا نہ بن اپنا تو بن
بات تو سوچنے کی ہے نا ۔۔
جس شے کو انسان نے اپنایا ہی نہیں اسے ترک کیسے کرے
جس نفس کوجانا ہی نہیں اس کا تزکیہ کیسے ہو۔
یہاں رک کر ذرا سوچیے۔۔
اسلام کتنا خوبصورت، سادہ اور آسان راستہ ہے۔
ذات کے سفر کا ۔۔۔
عبادات، ذکر، حقوق العباد ، صبر و قناعت ، توکل ، وجود کو رد کیے بنا روح تک پہنچا دیتے ہیں،
راستہ کٹھن نہیں
لیکن اتنا آسان بھی نہیں
سوائے اس کے جو چلنا چاہے ۔۔۔
اسلام میں عبادت اتنی مشکل نہیں کہ نیندیں حرام ہوں، دنیا کی ہوش نہ رہے۔
روزے اتنے لمبے بھی نہیں کہ انسان سوکھ کر لکڑی ہوجائے۔
اعتکاف اتنا طویل نہیں کہ دنیا سے کٹ جائے۔
عبادت میں سکون ہے۔
ذکر و عبادت صرف نماز روزے، حج زکوۃ کا نام نہیں، تسبیح گھمانے کا عمل نہیں بلکہ اللہ کی رضا کے لیے جیتے رہنے اور اس کی رضا میں راضی رہنے کا نام ہے۔
ہمارے دور کے ایک گوتم نے کیا خوب فرمایا ہے
خوش نصیب وہ ہے جو اپنے نصیب سے خوش ہے۔
پھر فرماتے ہیں
اپنے فیصلے اور اللہ کے فیصلے میں فرق کا نام غم ہے ۔۔
گوتم بدھ نے کہا تھا تمام دکھ ہے۔
لیکن سچ تو یہ ہے جو اللہ کی رضا میں راضی ہوجائے وہ دکھ پر بھی راضی ہوجاتا ہے، اسے سکون مل جاتا ہے ۔۔ دکھ میں بھی سکون ۔۔
جیسے کسی صوفی شاعر نے کہا تھا ۔۔
جے سوہنا مرے دکھ وچ راضی
تے میں سکھ نوں چولہے ڈھانواں
ایسے ہی لوگوں کو اللہ نے اپنا دوست کہا ہے۔ اللہ تعالیٰ فرماتا ہے
اللہ کے دوستوں پر نہ کوئی خوف ہے نہ وہ غمگین ہوتے ہیں۔
میرے استاد محترم جاوید اقبال چشتی فرماتے ہیں
انسان کے تمام کے تمام مسائل کی جڑ
اپنے آپ سے دوری، اپنے آپ سے جدائی ہے ۔۔۔
اپنے اندر اتر جا ۔۔
’ عرفان _ ذات‘ کا چشمہ
صرف اور صرف
تیرے اندر سے پھوٹ سکتا ہے ۔۔
سدھارتھ بھی آخرکار جان لیتا ہے ۔۔
اپنے آپ سے فرار سے کچھ نہیں ملتا ۔۔
نہ نجات، نہ سکون ۔۔
نروان کا اصل رستہ اپنے اندر سے گزر کر ملتا ہے ۔۔
یہی پیغام ہے ۔۔
ہر اس شخص کے لیے جو سکون کا متلاشی ہے ۔۔
سکون باہر کہیں نہیں
اپنے اندر ہے ۔۔
اور یہ خود سے خود تک
اور خود سے خدا تک کا سفر ہے ۔۔
اگر آپ بھی اس رستے کے مسافر ہیں۔۔
تو آپ کو یہ سفر مبارک ہو ۔۔
کہ یہ سفر بذات خود منزل ہے۔
تبصرہ کریں