کرمان کا چھتہ بازار

خاکِ فارس کا مسافر(15)

·

مسافرخانے میں قدم رکھتے ہی ایک ایسی تھکن بدن پر آن گری جیسے میں صدیوں کا سفر طے کر کے یہاں پہنچا ہوں۔ بستر کی سفید چادر پر سر رکھا تو آنکھیں بوجھل ہونے لگیں، اور وہ مخصوص ایرانی سرف کی مہک جیسے کسی اور ہی دنیا میں لے جانے لگی۔ ایک گھنٹے کی مختصر نیند نے مساموں میں بسی گرد جھاڑ دی، بدن کچھ تازہ دم ہوا، اور سوچا کہ کرمان کی گلیوں میں قدم رکھا جائے، دیکھیں یہ شہر اپنے سینے میں کیا کچھ چھپائے بیٹھا ہے۔ 

لیکن ابھی میں باہر نکلنے ہی کو تھا کہ مسافرخانے کے بوڑھے مالک نے اچانک یوں گھورا جیسے میں کوئی مفرور قیدی ہوں، جس کے پاؤں میں بیڑیاں تو نہیں، مگر نیت میں بھگوڑا پن جھلکتا ہو۔ اس کی نظروں میں ایک ایسا تجربہ چھپا تھا جیسے درجنوں سیاحوں کو وہ پہلے بھی کبوتر کی طرح اڑتے دیکھ چکا ہو، اور اب کسی نئے پر پھڑپھڑانے سے پہلے پر کترنے کا عزم کیے بیٹھا ہو۔

اگلے ہی لمحے میرا پاسپورٹ ایک زنگ آلود دراز میں قید کر دیا گیا—جیسے وہ کوئی سفارتی دستاویز نہ ہو، بلکہ تاش کے پتوں کا وہ پتہ ہو جو جوکر ہونے کے شبہے میں ضبط کر لیا گیا ہو۔ اور شاید یہ بھی احتیاطاً کیا گیا ہو، کہ کہیں میں کسی رات کی تاریکی میں اپنی قوم کی بدنامی کا پرچم اٹھائے بغیر کرایہ دیے بھاگ نہ جاؤں!

یہاں کرایہ چیک آؤٹ کے وقت وصول کیا جاتا ہے، اور بظاہر مالک کا ایمان اس اصول پر ہے کہ انسان کی نیت جیب سے نہیں، چہرے سے پہچانی جاتی ہے—اور میرا چہرہ، غالباً، ایسا تھا جس پر ’ادھار کا امکان‘ واضح لکھا تھا۔

خیر، میں کندھے اچکاتے ہوئے باہر نکل آیا، جیسے کسی بے گناہ نے قیدِ ناحق سے رہائی پائی ہو۔ گلیوں میں چلتے چلتے اچانک ایک چھتہ دار بازار کے سامنے جا کھڑا ہوا۔ ایسا بازار جو اپنے اندر تہذیب، نظم و ضبط اور مصالحے کی ملی جلی خوشبو کو اس طرح سنبھالے کھڑا تھاجیسے کوئی عمر رسیدہ بیوہ اپنے ماضی کے صندوق کو۔

یہ بازار بھی بم کے تاریخی بازار کا ہمزاد تھا، بس فرق اتنا تھا کہ یہ کچھ زیادہ بہتر حالت میں تھا۔ تانبے کے برتنوں پر چمکتا سورج، رنگ برنگے قالینوں کی تہیں، اور پرانے معماروں کے تراشے ہوئے در و دیوار— یہ سب کچھ یوں لگ رہا تھا جیسے تاریخ نے یہاں قیام کر رکھا ہو۔ بازار کی پتلی پتلی اینٹیں، جو مہارت سے ٹائلوں کی صورت جمی ہوئی تھیں، گویا کسی قدیم دستکار کے ہاتھ کا نمونہ ہوں۔ میں حیرت سے سوچ رہا تھا کہ ایرانی حکومت نے کس باریک بینی سے اپنے آثار قدیمہ کو محفوظ رکھا ہے۔ 

یہ ’بازار وکیل‘ تھا، یا ’بازار بزرگ کرمان‘— ایران کے تاریخی ورثے کا ایک زندہ حوالہ۔ تبریز کے چھتہ دار بازار کے بعد یہ ایران کا دوسرا قدیم بازار تھا، اور اس کے در و دیوار میں آٹھویں صدی ہجری کی سرگوشیاں بسی تھیں۔ یہ بازار کسی بھول بھلیاں کی مانند پیچیدہ نہیں تھا، بلکہ ایک خط مستقیم میں یوں پھیلا ہوا تھا جیسے وقت کی کوئی لکیر ہو، جیسے کسی قدیم کارواں کے قدموں کے نشان اب تک یہاں ثبت ہوں۔ 

ڈیڑھ کلومیٹر لمبا یہ بازار، صرف اینٹوں اور دکانوں کی قطار نہ تھا بلکہ یہ ایک عہد، ایک تہذیب، ایک داستان تھی—ایسی داستان جسے ہاتھوں سے چھوا جا سکتا تھا، جس کی خوشبو سونگھی جا سکتی تھی، جس کی گلیوں میں بھٹک کر وقت کو پلٹایا جا سکتا تھا۔ میں اس بازار میں چل رہا تھا، لیکن ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ میں نہیں، کوئی صدیوں پرانا قافلہ مجھ میں سانس لے رہا ہے، اور اس بازار کی گلیاں مجھے اپنی کہانی سنا رہی ہیں۔

بازار کی چھتہ دار راہداریوں سے گزرتے ہوئے ایک کھلا احاطہ اچانک سامنے آتا ہے، جیسے کسی قدیم داستان میں یکایک نیا باب کھل جائے۔ یہاں کوئی چھت نہیں، صرف نیلا آسمان ہے، جیسے بازار کے کُنج و گوشے کسی لمحے کے لیے سانس لینے کو کھلے ہوں۔ سورج کی کرنیں پتھریلی اینٹوں پر بکھرتی ہیں، روشنی اور سایوں کی ایک عجب بازیگری، جہاں دیواروں پر وقت کے نقوش ثبت ہیں، اور ہوا میں گزرے وقت کی سرگوشیاں گونجتی ہیں۔ یہی ہے گنج علی خان اسکوائر، ایک ایسا چوک، جو سولہویں صدی کے صفوی حکمران گنج علی خان کے نام سے موسوم ہے، اور آج بھی تاریخ کے بوسیدہ کواڑوں سے جھانک کر آنے والے مسافروں کو دیکھتا ہے۔

یہاں اب بھی وقت رکا ہوا محسوس ہوتا ہے۔ سیاحوں کو روایتی ٹانگوں میں بٹھا کر اس احاطے کی سیر کرائی جاتی ہے، جیسے تاریخ کے کسی گھوڑے پر بٹھا کر ماضی کی گلیوں میں دوڑایا جا رہا ہو۔ آج اسے ’گنج علی خان کامپلیکس‘کہا جاتا ہے، مگر اس کے اندر اب بھی وہی پرانی سانسیں چلتی ہیں۔ عجائب گھر کے جھروکوں سے گزرتے ہوئے لگتا ہے جیسے صفوی دربار کی چاپ سنائی دے رہی ہو، کتب خانے کے بوسیدہ اوراق میں پرانے وقتوں کی روشنائیاں بسی ہوں، اور مسجد کی خاموشی میں گزرے زمانوں کی عبادات کی بازگشت باقی ہو۔

یہ احاطہ دو دروازوں کے درمیان پھیلا ہوا ہے— بابِ ارگ اور بابِ قلعہ۔ خریدار بابِ ارگ سے بازار کے شوروغل کو پیچھے چھوڑ کر اس کشادہ احاطے میں داخل ہوتے، لمحہ بھر کو اس کھلے آسمان کے نیچے رک کر تاریخ کو محسوس کرتے، اور پھر بابِ قلعہ سے گزرتے ہی دوبارہ چھتہ دار بازار کے گمشدہ راستوں میں گم ہو جاتے۔ یہ صرف دروازے نہیں، یہ ماضی کی وہ دہلیزیں ہیں جہاں سے گزر کر مسافر وقت کے دوسرے کنارے پر جا نکلتا ہے۔

لیکن اس بازار کی اصل شناخت صرف اس کے طاقچے، اس کے دروازے، یا اس کی پرانی اینٹیں نہیں، بلکہ وہ خوشبوئیں ہیں جو یہاں کی فضا میں بسی ہوئی ہیں۔ زیرے کی خوشبو، جو کرمان کے بازار کی پہچان ہے، ہر سمت اپنا جادو بکھیر رہی ہے۔ دکانوں میں لٹکتے مصالحوں کے تھیلے، زعفران کی ہلکی مدھم خوشبو، مرچوں کی تیز چبھن—یہ سب ایک ایسی فضا تشکیل دیتے ہیں جو وقت کے ساتھ ماند نہیں پڑتی۔

یہ صرف ایک چوک نہیں، یہ ایک داستان ہے۔ یہ بازار کی دھڑکن ہے، وقت کے ماتھے پر جمی ایک سنگی تحریر، جہاں ہر اینٹ کے نیچے ایک صدی دفن ہے، اور ہر در و دیوار پر گزرتے وقت کی مہر ثبت ہے۔ یہاں کھڑے ہو کر یوں لگتا ہے جیسے ماضی اپنی پوری عظمت کے ساتھ ہمارے آس پاس سانس لے رہا ہو، اور ہمیں اپنی سنگی انگلی سے چھو کر کہہ رہا ہو—

‘یہاں رک جاؤ، یہاں وقت رکا ہوا ہے، یہاں تاریخ تم سے ہم کلام ہے!‘

کرمان کے اس قدیم چھتہ دار بازار میں قدم رکھتے ہی یوں محسوس ہوا جیسے وقت کی گھڑی الٹی چل پڑی ہو، جیسے میں کسی اور زمانے میں داخل ہو گیا ہوں— وہ زمانہ جب ان گلیوں میں اونٹوں کے قافلے آتے، سوداگروں کی صدائیں گونجتیں اور ہوا میں زعفران، خشک میوے اور چمڑے کی ملی جلی خوشبو تیرتی۔ میں انہی خوشبوؤں میں سانس لیتا، بازار کی پرپیچ راہداریوں میں بھٹک رہا تھا کہ اچانک ایک مانوس سی آواز، ایک شناسا سی ہنسی میرے کانوں سے ٹکرائی۔ 

وہ نیکٹر تھا—بلجیم کا وہ سیاح جس سے میری آخری ملاقات تفتان کی بے آب و گیاہ سرزمین پر واقع کسٹم چیک پوسٹ پر ہوئی تھی۔ وہی مقام جہاں پاکستانی فوجیوں نے مجھے تین گھنٹے تک سوالوں کی بھٹی میں تپایا، جبکہ نیکٹر اور لینا کو محض آدھے گھنٹے میں رخصت کر دیا گیا۔یہی وہ لمحہ تھا جہاں ہماری راہیں جدا ہوئیں—میں رسمی شک کی زنجیروں میں الجھا رہا، اور وہ غیرملکی ہونے کے ناتے  بڑی آسانی سے سرحد پار کر گیا۔ نیکٹر کے پہلو میں لینا کھڑی تھی، سنہری بالوں والی، جھیل کے منجمد پانی جیسی خاموش اور گہری آنکھوں والی لینا، جو اس لمحے نیکٹر کے الفاظ سے زیادہ بازار کے رنگوں اور اجنبی مناظر کی دھیمی گرفت میں کھوئی ہوئی معلوم ہوتی تھی۔

نیکٹر کے گرد لوگوں کا ہجوم تھا، بچے حیرت سے اسے تک رہے تھے، دکاندار مسکراتے ہوئے اس کی چمکتی آنکھوں میں جھانک رہے تھے، اور سب سے آگے، ایک نوجوان ایرانی دوشیزہ، جو پامسٹ تھی— یا شاید قسمت کی لکیروں سے زیادہ گردشِ دوراں کی کھچڑی پکانے میں دلچسپی رکھتی تھی۔ وہ نیکٹر کا ہاتھ پکڑنے پر مصر تھی، کہ وہ اس کی ہتھیلی میں بکھری قسمت کی کہانی پڑھے اور اسے بتائے کہ آنے والے دنوں میں اس پر کون سی روشنی برسے گی اور کون سا اندھیرا چھا جائے گا۔ نیکٹر قدرے بے چین تھا، جیسے کوئی نادیدہ طاقت اسے کسی جال میں جکڑنے والی ہو، مگر لینا محض ایک پراسرار مسکراہٹ کے ساتھ سب دیکھ رہی تھی—جیسے اسے معلوم ہو کہ نیکٹر کی قسمت کی سب سے نمایاں لکیر وہ خود ہے۔ 

پھر جیسے ہی اس کی نظر مجھ پر پڑی، وہ ایک جھٹکے سے سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر میری طرف بڑھا۔ 

’ہیلو، میرے دوست! تم کیسے ہو؟‘ اس کی آواز میں خوشی کا ایک سنسناتا ہوا جھونکا تھا۔ 

میں نے مسکراتے ہوئے کہا، ’ کیا قسمت ہے کہ تفتان کی خاک کے بعد، ہم کرمان کی گلیوں میں مل رہے ہیں!‘

ہم نے بازار کے بیچوں بیچ کھڑے ہو کر پرانی یادیں تازہ کیں۔ معلوم ہوا کہ نیکٹر اور لینا بھی بم کے کھنڈرات کی ویرانی میں گھوم کر کرمان آئے تھے۔ نیکٹر نے مجھے ناشتے پر اپنے ہوٹل آنے کی دعوت دی، جو میں نے قبول کر لی۔ 

وقت ہمیشہ دو سمتوں میں بہتا ہے، ایک جو ہمیں آگے لے جاتی ہے، اور ایک جو ہمیں پیچھے دھکیلتی ہے۔ میں بازار کے اندر کی طرف بڑھ رہا تھا، جہاں ہر دکان، ہر محراب، ہر چراغ کی لو میں صدیوں کے قصے قید تھے، اور وہ باہر کی طرف جا رہے تھے— شاید کسی نئی منزل، کسی اور کہانی کی تلاش میں۔ 

جب وہ بازار کے دروازے سے نکلنے ہی والے تھے تو ایک لمحے کے لیے لینا رک گئی، پیچھے مڑی، اور مسکرا کر میری طرف دیکھا۔ وہ وہی مسکراہٹ تھی جو شاید فارس کے پرانے کتبوں پر کندہ ہے، وہی جو کسی گزرے ہوئے لمحے کو ہمیشہ کے لیے امر کر دیتی ہے۔ میں نے ہاتھ اٹھا کر الوداع کہا، اور کرمان کی قدیم فضا میں اس کی  مسکراہٹ کی بازگشت دیر تک گونجتی رہی۔(جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے