موسم ابر آلود تھا۔ بابو سر ٹاپ کے قریب پہاڑوں کے بیچوں بیچ، بادلوں نے آسمان کو ڈھانپ رکھا تھا۔ ہلکی ہلکی ہوا کے جھونکوں میں نمی تھی ۔۔جیسے قدرت کسی بڑے منظر کی تیاری کر رہی ہو۔
پھر اچانک ایک بوند گری …
کسی سیاح نے خوش ہو کر کہا ، ‘واہ، موسم کتنا دلکش ہے!‘
پولیس چوکی کے پاس درجنوں گاڑیاں کھڑی تھیں۔ اہلکاروں نے سب کو احتیاطاً رکنے کو کہا:
’بارش بڑھ رہی ہے، تھوڑا رک جائیں…‘
گاڑیوں میں بیٹھے مسافر بارش کی موسیقی سن رہے تھے، کچھ باہر نکل کر مناظر کی تصویریں لے رہے تھے۔
ان میں لودھراں سے آئے 17افراد پر مشتمل ایک خاندان بھی شامل تھا ۔جو برسوں بعد ایک ساتھ وقت گزارنے، ہنسنے کھیلنے ، تصویریں بنانے اور یادیں جمع کرنے نکلا تھا۔
شاید انھوں نے سوچا ہو:’یہ لمحے ہمیشہ یاد رہیں گے…‘لیکن قدرت کو کچھ اور منظور تھا۔
اور پھر… آسمان پھٹ پڑا۔
خوشی سے چمکتی آنکھیں، اچانک خوف سے بھر گئیں۔ بوندا باندی نے موسلا دھار بارش کی شکل اختیار کر لی۔ چند لمحوں میں پہاڑوں سے اترتا پانی ایک تباہ کن ریلے میں بدل گیا۔
سیاح گھبرا کر گاڑیوں سے نکلنے لگے۔ ہر کوئی محفوظ مقام کی تلاش میں بھاگنے لگا۔
لودھراں کے خاندان کی کوسٹر سے سب نکل رہے تھے۔ ڈاکٹر شاہدہ کو ان کے بیٹے فہد نے مضبوطی سے تھاما ہوا تھا:
’امی، اِدھر چلیں… جلدی!‘
لیکن پیچھے سے ایک چیخ گونجی:
’رکیں… ہادی!‘
یہ فہد کی بھابھی، مشعل کی آواز تھی، جو اپنے 5سالہ بیٹے ہادی کے ساتھ پیچھے رہ گئی تھیں۔
فہد پلٹے۔ مشعل اور ہادی کی طرف دوڑے…لیکن ریلا بہت قریب تھا۔ اور پھر تینوں پانی کے بے رحم بہاؤ میں بہہ گئے۔
کوسٹر بھی ریلے کی نذر ہو گئی، کئی اور گاڑیاں بھی۔
ہوا میں اب خوشی کی ہنسی نہیں، صرف چیخیں باقی تھیں۔
اب تک 4سیاحوں اور ایک مقامی شخص کی اموات کی تصدیق ہو چکی ہے۔
ابھی چند دن پہلے ہی بھی تو ایک المیہ پیش آیا تھا،جب ایک ہی خاندان کے 13 افراد سوات کے دریا میں ڈوب گئے تھے۔
افف… یااللہ رحم۔
کیا ایک حادثہ ہمارے لیے کافی نہیں تھا ؟
کیا ایک کہانی، ایک تباہی، سبق نہیں دے سکی ۔۔26 جون سے جاری مون سون کے سلسلے میں اب تک 242 افراد جاں بحق اور 598 زخمی ہو چکے ہیں
موسمی حالات تیزی سے تغیر کا شکار ہیں ۔
ہم ہر سال کہتے ہیں ۔۔معمول سے زیادہ بارشیں ہوئیں ۔ ہر سال ہی اس طرح کی صورتحال پیدا ہو جاتی ہے ۔
لیکن حکمت عملی معمول سے بھی کم اختیار کی جاتی ہے ۔۔ نہ حکومت ہوش میں آتی ہے نہ ہی عوام ۔۔
بارشیں تو ہوتی ہیں ،،، یہ زحمت کیسے بن جاتی ہیں ۔۔ اس کے پیچھے ہماری کوتاہیاں اور غفلتیں کار فرما بھی ہیں ۔۔۔۔۔
قدرت تواللہ کے حکم پر ہے ،،،اپنے رستے اپنےاصول اور نظام پر ہے ۔۔یہ ہمارے رستے میں نہیں آتی ۔۔ہم۔ اس کے رستے میں آئے ہیں ۔۔
قدرت سفاک نہیں ہم ہیں ۔۔
،، ناعاقبت اندیش اور نالائق بھی ۔۔
یہ ریلے ہماری اجتماعی غفلت کا مکافات ہیں ۔
یہ قدرت کا انتقام نہیں ہے انسانوں کی اپنی ہاتھوں کھودی ہوئی قبریں ہیں ۔
ہم ان سے نمٹنے کی منصوبہ بندی کرنے کی بجائے منصوبہ بند لاپرواہی روا رکھے ہوئے ہیں۔۔۔۔
بارشیں تباہی کیوں مچا رہی ہیں ۔۔
پہاڑوں کے دامن میں برستی بارش جو انسان کو مسحور کرتی ہے، جب درخت اور جنگلات نہ ہوں، تو وہی سہانے موسم سے قاتل بن جاتی ہیں۔
دراصل موسمیاتی تبدیلوں کی اس شدت کے پیچھے قدرت نہیں انسانی کرپشن ہے ۔۔۔
جنگلات ماحول کے محافظ ہوتے ہیں ۔۔۔جب درخت کم ہو جائیں، تو بارش یا طوفان کا شدت سے آنا معمول بن جاتا ہے۔ ۔ درخت سیلاب اور بارش کی صورت میں پانی کے بہاؤ کی شدت کم کرتے ہیں ،،انکی جڑیں زمیں کو
سرکنے نہیں دیتی ۔۔
درخت کہاں گئے ،،
کہاں گئے وہ جھنڈ، وہ سبز دیواریں، جو بارش کو سنبھالتی تھیں؟
کس نے انھیں کاٹ کر بیچ ڈالا ؟
درخت خود نہیں کٹتے ۔۔۔ان کے پیچھے کاٹنے والے ۔۔ لکڑی چوروں کے ہاتھ اور ان چوروں کے پیچھے متعلقہ محکمے کی کچھ کالی بھیڑوں کی سر پرستی۔۔۔
ان سب نے مل کر اس قدرتی نظام کو نوچ کر بیچا ۔
جنگلات سے گھرے ان علاقوں کو مسلسل درختوں کی کٹائی سے جو نقصان پہنچایا گیا ، اس کے بھیانک نتائج آج سب کے سامنے آنا شروع ہوگئے ہیں۔۔
جنگلات کے محافظ جب درختوں کے سوداگر بن گئے تو دریاؤں کے دل بھی بے رحم ہوگئے ۔۔۔۔
یہ زمین کو سیراب کرنے کی بجائے برباد کرنے لگے ۔۔۔
موسم کے درجہ حرارت کو کنٹرول کرنے والے قدرتی پاسبان ہی جب ختم کردیے گئے تو گلیشئرز تو پگھلیں گے ، بادل پھٹے گا، زمین سرکے گی ۔۔ ندی نالوں کے کنارے جہاں درخت زمین کو باندھتے تھے، وہاں اب ریت کے ٹیلے ہیں۔
پہاڑوں پر ہوٹل، پلازے، پارکنگ ایریاز ہیں ۔۔ پھر پانی بہے کہاں؟۔
کہتے ہیں پانی اپنا رستہ بنا لیتا ہے ۔۔ جب ندی نالوں اور دریاؤں کے قدرتی بہاؤ کے راستے تجاوزات سے کاٹے گئے تو پانی نے اپنا رستہ سڑکوں اور رہائشی علاقوں سے بنا لیا ۔
پانی جو زندگی کی علامت ہے بارشوں کے موسم میں موت بن کر بہہ رہا ہے ،
سیاح کیا کریں ،،،،،
جب عوام لاپروا، اور ریاست بے حس ہو…
گزارش ہے کہ ایسے موسم میں خطرناک علاقوں کا رخ نہ کریں۔
یہ پاکستان ہے بھائی ۔۔ یہاں نہ وقت پر وارننگ ملتی ہے، نہ بروقت مدد۔
خود کو جان بوجھ کر سیر تفریح کی خاطر خطروں اور موت کے منہ میں نہ دھکیلیں۔
یہاں سیاحت سے پہلے، دعا اور احتیاط دونوں لازمی ہیں۔۔۔
ڈاکٹر فہد ایک بااثر ، متمول اور اہم خاندان سے تعلق رکھتے تھے، ان کی فیملی اب بھی وہیں پھنسی ہوئی ہے۔
اگر ان کے لیے فوری امداد نہیں پہنچی، تو ایک
عام انسان کی کیا امید۔۔۔
اب وقت ہے کہ ہم اجتماعی شعور کو جگائیں۔
حکومت اپنی ذمہ داریاں نبھائے:
– اربن پلاننگ میں ماحولیات کو شامل کرے
– نکاسیِ آب کے نظام کو اپڈیٹ کرے
– بارشوں کی پیشگی وارننگ کو عام فہم زبان میں ہر شہری تک پہنچائے۔۔
ہمیں کیا کرنا ہے ۔
ہمیں صرف حکومت پر تنقید کرکے نہیں بیٹھ جانا ۔۔ حکومتیں تو بدلتی رہتی ہیں لیکن زمینی حقائق وہی رہتے ہیں ۔۔
ہمیں یہ سوچنا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیوں میں ہمارا کیا کردار ہے ۔۔
ندی نالے دریاؤں ، سڑکوں پر کچرا نہ پھینکنا ان کو صاف رکھنا، درخت بچانا اور درخت لگانا، احتیاط برتنا اور ایسے حادثات کہیں بھی ہوں آواز اٹھانا متاثرین کے ساتھ کھڑے ہونا ۔۔اور سوشل میڈیا کے ذریعے حکومت سے جواب طلبی کرتے رہنا ۔۔یہ سب ہماری ذمہ داریاں ہیں ۔
آج ہم اپنے حصے کا چراغ جلائیں گے تو کل اندھیروں میں روشنی کی امید باقی رہے گی ۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں