کچھ دن پہلے میرپور جانا ہوا، آزاد جموں و کشمیر کی ایک پُرامن آغوش میں چھپا ہوا خوبصورت شہر۔ وہاں ایک پرانے دوست عامر بھائی سے ملاقات کا وعدہ تھا، مگر اصل تحفہ وہ لمحہ ثابت ہوا جب اُن کے ساتھ منگلا ڈیم کی طرف نکل گیا۔ دسمبر کی ٹھنڈی دھوپ میں، جب سورج تھکن سے بوجھل ہوتا ہے اور وقت کچھ سست چلتا ہے، ہم اس جھیل کے کنارے جا کھڑے ہوئے جہاں پانی کی سطح خاصی نیچے جاچکی تھی۔
مجھے کیا معلوم تھا کہ اس جھیل کے اندر ایک مکمل شہر سویا ہوا ہے… کہ جیسے سمندر کی تہہ میں کوئی دیومالائی مخلوق خموشی سے کروٹیں بدلتی ہو، ویسے ہی کچھ عمارات پانی سے باہر جھانکنے لگی تھیں— وہیل مچھلی کی طرح خاموش، پر اسرار۔ میں حیران۔ یہ شہر کا حصہ یہاں کیسے؟ عامر بھائی نے خموشی کو توڑا، ‘یہ پرانا میرپور ہے… پانی کے نیچے دبا ہوا شہر…‘
پانی کی سیاست، ایک ڈوبی ہوئی حقیقت
جب برصغیر کی تقسیم ہوئی تو صرف زمینیں نہیں بانٹی گئیں، پانی بھی بانٹا گیا، وہ بھی ایک کڑوے سچ کی طرح۔ 1960 میں، عالمی بینک کی وساطت سے طے پانے والے ’انڈس واٹر ٹریٹی‘ نے 3 دریا ہمیں دیے، 3 اُن کو۔ پھر طے ہوا کہ 2 بڑے ڈیم تعمیر کیے جائیں— تربیلا اور منگلا۔ منگلا ڈیم کی تعمیر کے لیے جگہ چنی گئی… اور اُس جگہ پر کھڑا تھا پورا میرپور شہر، اپنی تاریخ، گلیوں، بازاروں اور قبرستانوں سمیت۔
1962 سے 1967 تک، یہ شہر رفتہ رفتہ خالی ہوتا رہا۔ مکین کہیں اور منتقل کیے گئے۔ اور جب ڈیم مکمل ہوا، تو 16 جولائی 1967 کو دریائے جہلم کو کھولا گیا۔ اور دیکھتے ہی دیکھتے… میرپور اپنے 260 نواحی دیہاتوں سمیت پانی کی تہہ میں اتر گیا۔
وہ لمحہ، جب ایک تہذیب پانی میں اتری
میں اُس لمحے کی صرف جھلک محسوس کرسکتا ہوں… جب لوگ اپنے گھروں، مسجدوں، مندروں، گردواروں، قبرستانوں، اور بزرگوں کے مزارات کو پیچھے چھوڑ کر نئے شہر کی طرف کوچ کر رہے تھے۔ عامر بھائی کے دادا، پرانے میرپور کے تحصیلدار، خود اپنی آنکھوں سے دیکھ رہے تھے کہ کیسے ان کا ماضی، ان کی یادیں، ان کا وجود پانی کی لپیٹ میں آ رہا ہے۔
یہ کوئی عام نقل مکانی نہ تھی، یہ اپنے ماضی کو دفن کرنے کا عمل تھا۔ وہ بھی ایک جھیل کے نیچے، جو آج ہماری روشنی کا ذریعہ ہے۔ لیکن اُس روشنی کی قیمت… شاید ہم نے کبھی سوچی نہیں۔
جب شہر کی دیواریں سانس لینے لگیں
اگلے سال، جب سردیاں آئیں اور پانی پیچھے ہٹنے لگا تو جیسے وقت نے پلٹا کھایا ہو۔ جنوری، فروری، مارچ… جیسے ہر مہینے کے ساتھ ایک ایک یاد واپس ابھرنے لگی۔ پرانے گلی کوچے، نیم ڈوبے ہوئے دروازے، جھکے ہوئے ستون، چھتیں جو اُوندھی پڑی تھیں۔ جیسے کوئی خواب ادھورا رہ گیا ہو، مگر اب بھی سانس لے رہا ہو۔لوگ جھیل میں اترنے لگے، نئی نسل کو دکھانے لگے کہ یہ وہ گلی ہے جہاں تمہارے دادا کا گھر تھا، یہ وہ قبر ہے جہاں تمہاری نانی آرام کر رہی ہیں۔ آنکھوں میں آنسو، دل میں سکون اور ایک عجیب سا فخر… کہ ہم نے قربانی دی، مگر تاریخ کو نہ چھوڑا۔
زائرین کا موسم
اب یہ ایک رسم بن چکی ہے، ایک تہذیبی زیارت۔ ہر سال، موسم بہار میں، جب پانی کم ہوتا ہے، لوگ جھیل کی طرف رخ کرتے ہیں۔ کچھ پیدل، کچھ کشتیوں میں، اور پہنچتے ہیں اُن مزارات تک جو پھر سے ظاہر ہو چکے ہوتے ہیں۔ سید عبد الکریم اور میران شاہ غازی کے مزارات آج بھی سلامت ہیں۔ اُن کی عمارات نے پانی کا مقابلہ کیا ہے، جیسے کوئی درویش طوفان میں بھی سجدے سے نہ اٹھے۔ان مزارات کی تزئین کی جاتی ہے، قبروں پر پھول چڑھائے جاتے ہیں، اور لوگ کچھ دیر کو اپنے ماضی سے جڑ جاتے ہیں۔
اور پھر خاموشی لوٹ آتی ہے
لیکن یہ رونق عارضی ہے۔ جون، جولائی آتے ہیں اور پھر سے برف پگھلتی ہے، پانی چڑھتا ہے، اور تاریخ دوبارہ سے غرق ہو جاتی ہے۔ پرانا میرپور ایک بار پھر نیند کی آغوش میں چلا جاتا ہے۔ اور لوگ… وہ نئی نسل جو اب نیو میرپور کے پلازوں، اسکولوں، کاروباروں میں گم ہے… یا سات سمندر پار برمنگہم میں آباد ہے، شاید اُس شہر کو اب صرف ایک قصہ سمجھتی ہے۔
کچھ لوگ اب بھی جاتے ہیں، مگر چارہ کاٹنے۔ گندم، خود رو سبزیاں، اور خاموشی لے کر لوٹ آتے ہیں۔
’جو چیز یاد میں زندہ ہو، وہ کبھی نہیں مرتی‘
ایک وقت آئے گا، جب شاید یہ شہر صرف تصویروں میں رہ جائے، کتابوں میں دفن ہو جائے۔ لیکن جب تک کوئی ایک آنکھ اشکبار ہے، کوئی ایک دل دھڑکتا ہے جس میں پرانا میرپور آباد ہے… یہ شہر کبھی مرے گا نہیں۔
"Nothing is ever really lost to us as long as we remember it.”
(L.M. Montgomery)
تبصرہ کریں