آسام کی چھوٹی سی بستی دبروگڑھ میں واقع سانچی (فرضی نام) کا گھر سادہ زندگی کا مظہر تھا۔ صبح کی چائے، اسکول جانے والے بچوں کی ہنسی، اور شام کو دیے کی مدھم روشنی — ایک عام ہندوستانی عورت کی زندگی، جسے سوشل میڈیا یا شہرت سے کوئی دلچسپی نہ تھی۔ لیکن اسے کیا معلوم تھا کہ اس کا چہرہ جلد ہی لاکھوں لوگوں کی اسکرین پر "Babydoll Archi” بن کر جھلکے گا۔
مقبول چہرہ یا ڈیجیٹل ہتھیار؟
چند ہفتے پہلے تک سوشل میڈیا پر ایک نئی شخصیت دھوم مچا رہی تھی: "Babydoll Archi”۔ لال ساڑھی میں رقص کرتی ہوئی ایک نوجوان عورت، جس کے انداز میں رومانیت اور معصومیت کا انوکھا امتزاج تھا۔ اس کے انسٹاگرام پر لاکھوں فالوورز تھے۔ اس کی تصاویر، ویڈیوز، اور حتیٰ کہ کینڈرا لسٹ جیسے فحش ستاروں کے ساتھ ایڈیٹ شدہ تصاویر بھی ٹرینڈ میں تھیں۔
لوگ دیوانے ہو رہے تھے۔ میمز، فین پیجز، اور ری ایکشن ویڈیوز کی بھرمار تھی۔ وہ راتوں رات شہرت حاصل کرنے والی آئیڈیل بن چکی تھی۔ مگر ایک دن پردہ ہٹا، اور دنیا کی سانسیں تھم گئیں جب حقیقت سامنے آئی۔
سچ جو سانچی کے ہوش اڑا گیا
سانچی کا بھائی حیرت سے نیوز چینل کی اسکرین پر نظریں گاڑے بیٹھا تھا، جہاں ایک مشہور بلاگر بتا رہا تھا کہ "Babydoll Archi” جلد امریکی فحش انڈسٹری میں شامل ہونے والی پہلی بھارتی خاتون بننے جا رہی ہے — اور اس کا تعلق آسام سے ہے!
’یہ… یہ تو… ہماری سانچی ہے!‘ وہ چلا اٹھا۔
سانچی سکتے میں تھی۔ اس کا چہرہ… اس کی شناخت… اس کا سب کچھ… ایک ایسی جعلی عورت کے جسم پر سجا دیا گیا تھا، جو حقیقت میں وجود ہی نہیں رکھتی تھی۔
پردے کے پیچھے چھپا ‘محبت کا انتقام‘
پولیس میں شکایت درج کروائی گئی۔ کیس کی تفتیش شروع ہوئی۔ اور پھر سچ ایک ایک کر کے کھلتا گیا۔
ملزم کا نام تھا پرتیم بورا — سانچی کا سابق بوائے فرینڈ، ایک مکینیکل انجینئر، اور خود کو "AI ماہر” کہنے والا شخص۔
پرتیم بورا نے کس بات کا انتقام لیا؟ دراصل ان کے درمیان تعلق ختم ہو چکا تھا، چنانچہ پرتیم نے انتقام کی آگ میں جلتے ہوئے ایک خطرناک منصوبہ بنایا۔ اس نے سانچی کی چند پرانی، نجی تصاویر استعمال کیں، ان پر ڈیپ فیک ٹیکنالوجی کے ذریعے نیا جسم اور نیا کردار تخلیق کیا، اور اسے Babydoll Archi کا نام دے کر دنیا کے سامنے لا کھڑا کیا۔
لاکھوں کی کمائی، 5 دنوں میں
انسٹاگرام پر Babydoll Archi کا اکاؤنٹ 14 لاکھ فالوورز تک جا پہنچا۔ Linktree پر 3,000 سے زیادہ سبسکرائبرز روزانہ ادائیگی کر رہے تھے۔ صرف 5 دنوں میں پرتیم نے 3 لاکھ روپے کمائے۔ جبکہ مجموعی طور پر وہ 10 لاکھ روپے سے زائد کی کمائی کر چکا تھا۔
لیکن یہ صرف پیسہ نہیں تھا — یہ کسی کی عزت کی قیمت تھی، ایک عورت کی خاموشی کا سودا تھا۔
قانون حرکت میں آیا
پولیس نے پرتیم بورا کو 12 جولائی کی شام گرفتار کر لیا۔ اس کے لیپ ٹاپ، موبائل فونز، ہارڈ ڈرائیوز اور بینک ریکارڈ قبضے میں لیے گئے۔ اس پر درج کی گئی دفعات میں شامل ہیں:
شناخت چرانا۔
فحش مواد کی اشاعت۔
جنسی ہراسانی۔
بدنامی۔
سائبر کرائم۔
اگر جرم ثابت ہوا تو پرتیم کو 10 سال قید کی سزا ہو سکتی ہے۔
سوشل میڈیا: خاموش تماشائی؟
انسٹاگرام نے "Babydoll Archi” کا اکاؤنٹ ڈیلیٹ تو کر دیا، مگر متعدد تصاویر اور ویڈیوز اب بھی گردش کر رہی ہیں۔ نیا اکاؤنٹ بن چکا ہے، اور لوگ اس کی حقیقت جاننے کے باوجود اسے شیئر کر رہے ہیں۔ البتہ
Meta نے اب تک کوئی باضابطہ بیان جاری نہیں کیا۔
🧠 قانونی ماہرین کا موقف: AI ایک کھلی تلوار ہے
مصنوعی ذہانت کی ماہر، وکیل میگھنا بال کہتی ہیں:
یہ استحصال اب جسمانی نہیں، بلکہ ڈیجیٹل ہو گیا ہے۔ AI نے انتقام اور بدنامی کو آسان بنا دیا ہے۔
یہ بھی پڑھیے
آن لائن کمائی اور سرمایہ کاری: پڑھے لکھے نوجوان آن لائن فراڈ کے شکار کیسے بنتے ہیں؟
مصنوعی ذہانت کروڑوں لوگوں کو روزگار سے محروم کردے گی؟
پاکستانی صارفین فیس بک اکائونٹس کو کیسے محفوظ بناسکتے ہیں؟
سانچی جیسے افراد عدالت جا کر "Right to be Forgotten” کی اپیل کر سکتے ہیں، مگر انٹرنیٹ سے نشانات مٹانا تقریباً ناممکن ہے۔
سانچی کی خاموشی، ایک آواز بن گئی
آج سانچی پردے کے پیچھے ہے، مگر اس کی کہانی اب لاکھوں کے لیے ایک انتباہ ہے۔ وہ سوچتی ہے کہ کاش! وہ پرتیم بورا سے کبھی نہ ملی ہوتی، اس پر اعتماد نہ کیا ہوتا، اسے اپنی تصاویر نہ دی ہوتیں، جن سے چہرہ لے کر پرتیم بورا نے تصاویر بھی بنائیں اور ویڈیوز بھی۔ سانچی سوچتی ہے کہ کاش پرتیم کو وائس میسجز نہ کیے ہوتے جن کی آواز کو اس نے ویڈیوز میں استعمال کیا۔ کتنی بڑی غلطی کی تھی اس نے!
اب وہ چاہتی ہے کہ کوئی اور خاتون اس کرب سے نہ گزرے، اور ہر وہ شخص جو عورت کی شناخت کو ‘مواد’ سمجھتا ہے، قانون کے شکنجے میں آئے۔
اب یہ حقیقت بار بار کھل کر سامنے آچکی ہے کہ مصنوعی ذہانت (AI) کی ترقی جہاں ایک طرف دنیا کو سہولتوں کی نئی جہتوں سے روشناس کروا رہی ہے، وہیں دوسری طرف یہ ٹیکنالوجی انسانوں کے لیے ان گنت خطرات بھی لے کر آئی ہے۔
بھارت کے شہر دبروگڑھ میں پیش آنے والا یہ واقعہ ہمیں اس بات پر مجبور کرتا ہے کہ ہم گہرائی سے سوچیں: خواتین کیوں ایسے ڈیپ فیک جرائم کا سب سے آسان نشانہ بنتی ہیں؟
خاتون کے ڈیپ فیک کا شکار ہونے کی ممکنہ وجوہات
1. 💔 ذاتی انتقام یا رنجش
اس کیس میں سب سے نمایاں وجہ ’ذاتی انتقام‘ ہے۔ خاتون کا سابق بوائے فرینڈ، جس کے پاس اس کی نجی تصاویر اور ویڈیوز تھیں، نے رشتے کی خرابی کے بعد اسے ذہنی اذیت دینے کے لیے اس ٹیکنالوجی کا استعمال کیا۔
ذاتی نوعیت کے ڈیجیٹل مواد کا افشا ہونا آج کے دور کا سب سے بڑا ہتھیار بن چکا ہے۔
2. 📷 ڈیجیٹل پرائیویسی کا فقدان
ظاہر ہے کہ متاثرہ خاتون نے شاید ماضی میں تصاویر اعتماد کے بل بوتے پر شیئر کیں، جن کا بعدازاں غلط استعمال کیا گیا۔ یہ بھی دیکھنے میں آیا ہے کہ اکثر خواتین سوشل میڈیا پر اپنی تصاویر بنا کسی پرائیویسی سیٹنگز کے اپلوڈ کرتی ہیں، جس سے ان کے چہروں کو کاپی کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ کیا اب بھی یہ کہنے کی ضرورت ہے کہ خواتین ایسا کام نہ کریں؟
3. 🧑💻 AI ٹیکنالوجی کی سہولت اور غلط ہاتھوں میں پہنچنا
آج ڈیپ فیک ویڈیوز بنانے کے لیے کوئی ہائی ٹیک لیب درکار نہیں۔ عام لیپ ٹاپ اور مفت AI ٹولز سے چند گھنٹوں میں نہایت حقیقت کے قریب ویڈیوز بنائی جا سکتی ہیں۔ پرتیم بورا نے خود کو "AI ماہر” بنا کر اسی سہولت کا غلط استعمال کیا۔
4. 🎯 خواتین کی شناخت کو بطور ’برانڈ‘ استعمال کرنا
خوبصورتی، نزاکت یا ثقافتی لباس میں پیش کی گئی خواتین کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر جلد وائرل ہوتی ہیں۔ ملزم نے اسی چیز کا فائدہ اٹھا کر خاتون کی شناخت کو "سیکسی آواتار” میں ڈھال کر لاکھوں روپے کمائے۔
5. 🧏♀️ قانونی کمزوری اور سوشل پلیٹ فارمز کی خاموشی
انسٹاگرام جیسے پلیٹ فارمز پر جعلی شناخت کے خلاف فوری ایکشن نہ لینا اور ڈیپ فیک مواد کو بروقت نہ ہٹانا ایسے مجرموں کے لیے ہری جھنڈی بن جاتا ہے۔
6. ⚖️ عوامی آگاہی کی کمی
زیادہ تر خواتین کو معلوم ہی نہیں ہوتا کہ ان کی تصویر یا ویڈیو کہاں، کیسے، اور کس مقصد کے لیے استعمال کی جا رہی ہے۔ نتیجتاً، جب تک معاملہ میڈیا یا پولیس تک پہنچتا ہے، تب تک بہت دیر ہو چکی ہوتی ہے۔
📍 خواتین خود کو ڈیپ فیک اور AI جرائم سے کیسے محفوظ رکھ سکتی ہیں؟
✅ 1. ڈیجیٹل شعور پیدا کریں
اپنی سوشل میڈیا پرائیویسی سیٹنگز مضبوط رکھیں۔
صرف قریبی اور قابلِ اعتماد افراد کے ساتھ نجی مواد شیئر کریں۔
AI اور سائبر کرائم سے متعلق بنیادی معلومات ضرور رکھیں۔
✅ 2. ڈیجیٹل واٹرمارک یا فیس بلر کا استعمال
اپنی تصاویر پر ڈیجیٹل واٹرمارک لگا کر ان کا غلط استعمال مشکل بنایا جا سکتا ہے۔
ایسے ایپس استعمال کریں جو تصاویر میں فیس بلر یا distortion دیتی ہیں
✅ 3. سائبر سیفٹی ٹولز کا استعمال کریں
Google Alerts پر اپنے نام کا الرٹ لگائیں تاکہ پتہ چلے کہ آپ کی تصاویر یا نام کب استعمال ہو رہا ہے
TinEye یا Google Image Search سے اپنی تصاویر کی reverse سرچ کریں
✅ 4. قانونی مدد حاصل کرنے سے نہ ہچکچائیں
اگر کسی بھی قسم کا غیر اخلاقی یا شناختی مواد نظر آئے، تو فوراً سائبر کرائم یونٹ (Cyber Cell) سے رابطہ کریں
FIR درج کروانا آپ کا حق ہے، اور ایسے کیسز میں فوری کارروائی بھی ممکن ہوتی ہے
✅ 5. خاندان اور سوشل سرکل کی سپورٹ
ایسے واقعات میں خاموشی اختیار کرنے کے بجائے اپنے گھر والوں، دوستوں، اور قانونی مشیروں سے بات کریں۔
خاموشی مجرم کی مدد کرتی ہے، جبکہ آواز اٹھانا مزید متاثرین کو بچاتا ہے۔
تبصرہ کریں