تحریر: ڈاکٹر محمد جاوید اصغر
یہ تحریر میرے ان تمام رفقائے کار کی ترجمان ہے جو 2 دسمبر2024 کے بعد ڈیپارٹمنٹ آف ہائر ایجوکیشن پنجاب سے ریٹائر ہوئے ہیں۔
واقعہ یہ ہے کہ میں نے 1995 میں پنجاب پبلک سروس کمیشن کے تحریری اور زبانی امتحان کے بعد تحصیل سطح کے انٹر کالج میں بطور اردو لیکچرر ملازمت کا آغاز کیا۔ یہ ادارہ سکول کی مستعار شدہ عمارت میں قائم تھا۔ طلبہ اور اسٹاف ممبران کے لیے بیٹھنےکو ڈھنگ سے فرنیچر بھی دستیاب نہ تھا۔
ہمارے محترم پرنسپل صاحب اور معزز رفقائے کار نے اپنی شبانہ روز محنت سے اس ادارے کو جلد ہی ڈویژن کا بہترین ادارہ بنا دیا۔ چند سال کی محنت سے اس ادارے سے بیسیوں بیوروکریٹس، جج، آرمی آفیسرز، ڈاکٹرز، انجینئرز، قانون دان، بنک کار، زرعی ماہرین، تجارت پیشہ لوگ، اسکول کالج اور یونیورسٹی کے اساتذہ پروان چڑھے۔۔۔۔۔۔
میں چوں کہ اردو کا استاد تھا اس لیے کالج میگزین کی اشاعت، تقاریب کا انعقاد میرے ذمے تھا۔
میں نے پرنسپل صاحب کی رہ نمائی میں کالج میگزین شائع کیا،کالج گزٹ نکالا، کئی بار کل پاکستان بین الکلیاتی تقریبات کا اہتمام کیا جس میں صوبے بھر کے بڑے کالجز کے طلبہ وطالبات نے حصہ لیا۔ اسلامک، سوشل، سائنس اور ادبی سوسائٹی کے زیر اہتمام مختلف موضوعات پر 20 سیمی نار منعقد ہوئے جن میں جنوبی پنجاب کی یونیورسٹیوں کے ڈین اور چئیرمین شعبہ جات نے خطاب کیا۔
ہمارے ادارے کے طلبہ نے مختلف تحریری، تقاریری، مقابلہ جات، قرات اور نعت خوانی میں انعامات حاصل کیے۔ میں نے اپنے ادارے کے بچوں کو بولنا، لکھنا اور سوچنا سکھایا۔اس ادارے کے طلبہ نے کھیلوں کے میدان میں بھی نمایاں کام یابی حاصل کی۔
میں نے اپنی تعلیمی قابلیت بڑھانے کے لیے پنجاب یونیورسٹی سے پی۔ایچ۔ڈی کی ڈگری حاصل کی۔ مجھے 2012 میں بطور اسسٹنٹ پروفیسر ترقی ملی۔ 2016 میں میرا پنجاب پبلک سروس کمیشن سے گریڈ 19 میں بطور ایسوسی ایٹ پروفیسر ڈائیریکٹ انتخاب ہوا۔ 2023 میں مجھے بطور پروفیسر گریڈ20 میں ترقی ملی۔۔ لطیفہ دیکھیے کہ ترقی ملتے ہی میری تنخواہ کم ہو گئی۔۔۔۔۔ میں نے اس ادارے میں 30 سال پڑھایا۔۔ اس دوران میں میرا نتیجہ اوسطاً 97 فیصد رہا۔ میں نے اس سارے عرصے میں اپنے کسی طالب علم کو ٹیوشن نہیں پڑھائی۔ میں نے ان 30 سال کے دوران میں کبھی 25 اتفاقیہ رخصت کی گنتی پوری نہیں کی۔ میں سالانہ ملنے والی 12 ارنڈ لیو کو سنبھال کر رکھتا رہا کہ ان سے مجھے مالی فائدہ ملے گا۔
میں اپنے کالج اساتذہ کا 3 بار تقریباً 8 سال منتخب نمائیندہ بھی رہا ہوں۔ موجودہ وزیر تعلیم کو بتانا چاہتا ہوں میں نے اس دوران میں کبھی اپنا ایک بھی پیریڈ مس نہیں کیا۔ ۔۔۔۔۔
ملازمت کے ابتدائی چند سال میں والد صاحب کے گھر سے کالج آتا رہا۔ بچے بڑے ہوئے تو شہر میں کرائے کا مکان لے کے رہنے لگا۔ اس دوران میں میرے بچے بڑے ہوگئے تھے، اور وہ خواب دیکھنے لگے تھے جنھیں میں بڑی ’فن کاری‘ سے بدل دیتا۔۔اور ریٹائرمنٹ کے بعد ان کی تکمیل کا وعدہ کرتا رہا۔۔۔۔۔
20 مارچ 2025 کو میں اپنی مدت ملازمت مکمل کرنے کے بعد 60 سال کی عمر میں ریٹائر ہو گیا ہوں۔ اب آئیے حکومت پنجاب کی سفاکیت کی طرف
02 دسمبر 2024 کا نوٹیفکیشن صرف پنجاب کے ملازمین کے لیے ہے جس کے تحت ان کی مراعات سلب کی گئی ہیں۔ یہ ناانصافی صرف پنجاب کے ملازمین کے ساتھ کیوں؟ کیا ملک میں بادشاہت قائم ہوگئی ہے کہ ایک ’شاہی فرمان‘ سے ملازمین کے حقوق سلب کر لیے جائیں اور وہ شرائط پس پشت ڈال دی جائیں جن کے تحت ان ملازمین کا تقرر ہوا ہے۔یہ عمل انسان کے بنیادی حقوق کے خلاف ہے۔
ملک میں بہرحال جمہوریت موجود ہے۔ آئین، دستور اور عدالتی نظام بھی قائم ہے۔ سول سرونٹ ایکٹ بھی اسٹینڈ کرتا ہے ۔۔ پھر یہ اندھیر نگری کیوں؟
مجھے میرے ایڈمن سٹاف کے دوستوں نے بتایا ہے کہ 1۔۔۔02 دسمبر2024 نوٹیفکیشن کے مطابق اب مجھے گریجویٹی 40 فیصد کم ملے گی۔۔۔۔۔
( اس نوٹی فکیشن کی ’کرامت‘ دیکھیے کہ یکم دسمبر کو ریٹائر ہونے والے کو گریجوایٹی اور پنشن مکمل ملے گی۔ اور بعد والوں کو 40 فیصد کم۔۔۔پھر دنیا میں یہ دستور ہے کہ اگر ’ اصلاحات‘ کرنا مقصود ہو بھی تو چند سال اس پہ مشاورت ہوتی ہے اور ملازمین کو اعتماد میں لیا جاتا ہے۔)
2.۔۔۔میری ماہانہ پنشن بھی پچاس ہزار روپے کم ہوگی 3.۔۔میں نے 30 سال جو ارنڈ لیو (earned leave) سنبھال کے رکھی تھیں جو 360 دن بنتی ہیں۔ اس کا کوئی معاوضہ نہیں ملے گا۔(جو کم از کم 20 لاکھ روپے بنتا ہے)۔ حالاں کہ ان مراعات کو ختم کرنے کے لیے لازم تھا کہ ملازمین کو 2 سال کا عرصہ دیا جاتا، تب اس کا اطلاق ممکن تھا۔
4۔ مجھے ریٹائرمنٹ پہ انشورنس کی رقم بھی نہیں ملے گی جو ہر ماہ سرکاری ملازم کی تنخواہ سے کاٹی جاتی ہے۔ انشورنس کی رقم کے لیے میرا مرنا ضروری ہے(جو ظاہر ہے کہ میرے اختیار میں نہیں)۔ دنیا کی تمام انشورنس کمپنیاں، انشورنس میچور ہونے پہ صارف کو مکمل رقم دیتی ہیں۔ پنجاب حکومت اب تک یہ رقم ہڑپ کر رہی ہے۔
5. وزیراعلی پنجاب چودھری پرویز الٰہی نے سرکاری ملازمین کے لیے پی۔جی۔ایچ ایس ایف ادارہ بنایا تھا اور صوبائی اسمبلی سے اسے منظور بھی کرایا تھا جس کا کام ریٹائرڈ ملازمین کو گھر الاٹ کرنا تھا۔ اس کی کارکردگی صفر ہے۔ اب تک 72000 ریٹائر شدہ لوگوں کو گھر تو ایک طرف، پلاٹ نہیں مل رہے۔۔ حالانکہ اس سوسائٹی کے اراکین سے ماہانہ ان کی تنخواہوں سے مقرر معاوضہ کاٹ لیا جاتا ہے۔
30 سال بعد میرے بچوں نے اپنی آنکھوں سے ہاتھ اٹھا کر اپنے خوابوں کی تعبیر کے لیے مجھ سے پوچھا کہ ’ کتنے پیسے ملے ہیں‘؟ تو میری آنکھوں سے آنسو رواں ہوگئے اور میرے لب انھیں یہ بھی نہ بتا سکے کہ میں شرمندہ ہوں، ایک استاد اور باپ ہونے کے باوجود مسلسل آپ سے جھوٹ بولتا رہا ہوں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پاکستان کے ’خوش حال’ صوبے کا ایک سرکاری ملازم، پروفیسر، ڈاکٹر گریڈ 20 ۔۔۔۔۔۔
تبصرہ کریں