ایرانی چِلو کباب

خاکِ فارس کا مسافر(16)

·

(کرمان، ایران — جولائی 2001)

کرمان کے اس چھتہ دار بازار میں چلتے چلتے دوپہر کی وہ گھڑی آ گئی تھی جب انسان اپنے اندر کی بھوک سے زیادہ، دوسروں کی ہانڈی کی خوشبو سے بےبس ہو جاتا ہے۔ اور میں بھی کوئی فقیر درویش نہیں تھا کہ نفس پر قابو پاتا۔ جب ایک دکان سے تازہ کبابوں کی مہک یوں سانس میں اُتری جیسے کسی نے کوئلوں پر فقط گوشت نہیں، کوئی خواب رکھ دیا ہو، تو میں اپنی ساری اصول پرستی بھول گیا۔

بھوک ویسے بھی کچھ دیر سے معدے میں کھنکار رہی تھی۔اس سے قبل ، بم میں نانِ خانگی اور زمزم کولا پر گزارا کرتے کرتے زبان وہی زبان رہ گئی تھی، لیکن ذائقہ قائل نہیں ہو رہا تھا۔ ڈیڑھ دن ہو چکا تھا، اور اب کچھ ڈھنگ کا کھانا ملنے کا موقع ملا تھا۔ وہ بھی کرمان جیسے شہر کے اس تاریخی بازار میں، جس کی اینٹوں پر بھی وقت نے سفر کی گرد جمائی ہے۔

دل نے حسبِ معمول شعر پڑھ کر فیصلہ سنایا:

کشاں کشاں لیے جاتا ہے کوئی یار مجھے

میں کیا کروں، نہیں دل پر جو اختیار مجھے

خوشبو کا تعاقب کرتے ہوئے اُس دکان پر پہنچا جہاں ایک شخص کوئلوں پر کباب رکھ رہا تھا جیسے وقت کو تل رہا ہو۔ میں نے اپنی طرف سے روانی سے پوچھا:

’آغا، یک کباب چند اے؟‘

اُس نے سر اٹھا کر ایسے دیکھا جیسے سوچ رہا ہو: یہ فارسی بولتا ہے یا فارسی سے کھیل رہا ہے؟

پھر نہایت سادگی سے جواب دیا:

’دو سے تومن۔‘

اب میرے لیے یہ ’دو سے‘کسی ریاضی کے پہاڑے سے کم نہ تھا۔ میری فارسی اس وقت یوں تھی جیسے کسی اسکول کی کاپی—قرطاس خالی، تحریر ندارد۔ فارسی کی جو بھی ’سود بود‘ بعد میں لاہور میں اس واقعے کے آٹھ سال بعد  خانہ فرہنگِ ایران کے فاصلاتی کورس سے حاصل ہوئی، وہ اس وقت میرے ساتھ نہ تھی۔

میں نے کباب فروش کی طرف دیکھا، اور وہ میری الجھن کو شاید پڑھ چکا تھا۔ بغیر کسی طنز، بغیر کسی تفسیر کے اُس نے دو انگلیاں فضا میں بلند کیں—فتح کا نشان یا فہم کا۔ میں سمجھ گیا، ’دو سے‘یعنی ’دو صد‘، یعنی دو سو تومن۔

یوں بات طے ہوئی: پانچ سو تومن دے کر میں نے دو عدد کباب اور ایک چھوٹی زمزم فانٹا کی بوتل کا آرڈر کر دیا۔

اب جب کھانا آیا تو وہ صرف کھانا نہ تھا—وہ ایرانی تہذیب کی خوشبو تھی، اس کی سادہ مگر شاندار مہمان نوازی کا ثبوت تھا۔

یہ چِلو کباب تھا۔ ایران میں جو چاول کباب کی صورت میں ملتا ہے، اسے چِلو کباب کہتے ہیں۔ یہ نام اتنا مشہور ہے جتنا لاہور میں نان چنے  یا کراچی میں نہاری۔

دو عدد کباب، سلیقے سے رکھے گئے، جیسے پلیٹ میں نہیں کسی سفید دسترخوان پر ہوں۔ ان کے ساتھ خشک چاول، جن پر مکھن یوں ڈالا گیا تھا جیسے کسی شفیق ماں نے بچے کے ہاتھ پر چپکے سے کچھ اضافی محبت رکھ دی ہو۔

چاول الگ الگ، خوشبو دار، اور کباب—نہایت نرم، گوشت کی وہ حالت جب اسے زبان سے بحث کرنے کی حاجت نہیں رہتی۔

سلاد بھی پلیٹ میں موجود تھی۔ کچھ نہیں تو کھیرا، پیاز اور ٹماٹر۔ سادہ، مگر تازہ، جیسے کسی کسان کے دل سے سیدھا پلیٹ میں اتر آیا ہو۔

اتنے میں کباب فروش نے پوچھا،

’نان بھی لا دوں؟‘

میں نے ایک نظر چاولوں پر ڈالی، اور کہا،

’فی الحال تو ان ہی چاولوں میں ایران چھپا ہوا ہے، نان پھر کبھی۔‘

کھانا ختم کیا تو محسوس ہوا کہ میں صرف پیٹ نہیں، ایک تہذیب سے سیر ہو کر اٹھا ہوں۔

اور یہ سب فقط پینتالیس(45) روپے میں۔

یہ ایران کے میرے اس سفر کی وہ دوپہر تھی، جو آج بھی ذائقے کی ایک سادہ، خوشبودار یاد کی طرح دل کے کسی گوشے میں محفوظ ہے۔ (جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے