غزہ میں خوراک کے متلاشی لوگ

یوں کرو اک کہانی لکھو

·

سمجھنے سے قاصر ہوں کہ ضدی کہوں، نا سمجھ کہوں، نادان کہوں کیا نام دوں تمہیں آخر کہ ایک ہی رٹ ہے تمہاری کہ تمہیں وہ کہانی سننی ہے جس میں کسی حسین وادی کا تذکرہ ہو، بہتے جھرنے، مست ہوا مخمور فضا کی باتیں ہوں۔۔

  تمھاری فرمائش ہے کہ تمھیں خیالوں ہی میں کسی جھیل کنارے پہنچنا ہے، دونوں طرف بلند و بالا پہاڑ تمہیں اپنے سحر میں جکڑ لیں۔۔۔۔۔ اڑتی تتلیاں،زلفوں کے بادل، حسن کے نظارے، عشق کی باتیں۔۔۔۔ پرندوں کے غول دور تک پھیلا سبزہ۔۔۔

ارے بھئی! یہ کہانیاں سنتے سنتے جوان ہو گئے۔ آؤ! آج وہ کہانیاں سنو جو تم سے دور بحیرہ روم کے کنارے پچھلے دو سالوں سے جنم لے رہی ہیں۔ کہانیوں کے ہر کردار نے روم کے پانی کا رنگ تبدیل کر دیا۔۔۔۔ کہانی لکھنے والا ہاتھ بڑا ظالم ہے، سفاک ہے، عالمی غنڈہ ہے۔ غزہ کے مردانِ خدا مست سے تو شکست کھاتا ہے ہر بار۔ اور پھر غصہ نکالتا ہے معصوم بچوں پہ، نہتے عوام پہ۔۔۔

 جانتے ہو ؟ تمھیں حسن و عشق کی داستانوں میں الجھائے رکھنے کی خواہش مند ساری قوتیں اس غنڈے کی پشت پر ہیں۔۔۔

 یہ پہلی کہانی ایک چھوٹی سی بچی کی ہے یوسف شرف(غزہ) نے سنائی ہے۔

آج جب میں شارع وحدت پر چل رہا تھا، ایک نوخیز لڑکی کو زمین پر گرتے’ دیکھا، ایسا لگا جیسے زندگی اس کے زرد چہرے کو چھوڑ چکی ہو، اس کی ماں بے قراری سے اس کے پاس دوڑی آئی، ٹوٹے ہوئے حوصلے کے ساتھ اس کے منہ پر پانی چھڑکنے لگی۔ ہجوم کے بیچ ایک عورت نے اپنی جیب سے ایک ٹافی نکالی۔ ٹافی کیا تھی، قحط کے دنوں میں چھپا ہوا بڑا خزانہ ۔

 ایک اور کہانی سنو! ننھی بچی مکہ الغرابلی کی بھوک اور غذائی قلت کا شکار ہو کر اس دنیا سے رخصت ہو جانے کی کہانی۔ سنو! اس کے بعد فاقہ کشی سے جان دینے والوں کی تعداد 154 ہو گئی تھی، جن میں 90 بچے شامل تھے۔۔۔۔۔آہ!

 یہ اگلی کہانی بھی ایک بچے کی ہے۔ غزہ کے ایک ہسپتال میں یہ زخمی بچہ بغیر بستر کے لوہے کے بیڈ پہ لیٹا ہے، تکلیف اور بے بسی اس کے چہرے سے عیاں ہے۔

اور کہانی ہو اگر ڈاکٹر غانم العطار جیسے انتہائی معزز فرد کی تو نگاہیں خود بخود عقیدت سے جھک جاتی ہیں۔ انھیں غزہ کی گلیوں میں پانی کی بوتلیں اٹھائے دوڑتا دیکھ کر دل کی عجیب کیفیت ہوئی ہو گی تمھاری بھی۔ تو سنو! یہ انتہائی قابل ، پختہ ایمان اور ثابت قدم شخص کیا کہتا ہے

‘ظلم اور مشکل حالات کے باوجود ہم اپنے پیارےوطن کی سر زمین پر ثابت قدم رہیں گے۔ خدا کی قسم! اگر پورا غزہ ختم بھی ہو جائے اور صرف ایک بچہ اور ایک بچی باقی رہ جائیں تو وہ بڑے ہوں گے، شادی کریں گے اور غزہ کو دوبارہ آباد کریں گے اور ہم صرف اللہ ہی کے سامنے سر جھکائیں گے۔۔۔‘

 تمہاری پیاری مسجد دنیا کی تیسری مقدس ترین مسجد، وہ مسجد کہ جہاں سے رہبر انسانیت ﷺ نے معراج کی شب اپنی فلائٹ لی تھی، اس مسجد میں بھی ہر دوسرے تیسرے دن بد تہذیبی اور بے شرمی ایک کہانی کا عنوان بنتی ہے۔۔۔

یہودی یہاں تلمودی رسومات ادا کرتے ہیں، گانے گاتےہیں، ناچتے ہیں، کودتے ہیں اور پتہ ہے؟ شرق تا غرب مسلمان حکمرانوں کی صحت پہ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ وہ اپنے اپنے محلوں میں، اپنی اپنی کرسی پہ اپنے اپنے ملک میں کسی ‘بڑے ‘ کی خوشنودی کی خاطر ان کہانیوں سے غافل ہیں۔ وہ نہیں سننا چاہتے یہ کہانیاں۔۔

 یہ کہانیاں تمہیں سننی ہیں۔۔۔

اور ۔۔۔۔۔

یہ کیا۔۔۔۔؟؟

اشکوں کی جھڑی لگ گئی تمھاری پلکوں کے نیچے۔۔۔۔

نہیں۔۔۔۔۔

ہمت ہے تو۔۔

تھام لو قلم ۔انھی اشکوں کو روشنائی بناؤ، جذبے کو لفظوں میں ڈھالو۔۔

اک کہانی تم بھی لکھو۔۔

غزہ کے ہر بچے تک خوراک پہنچا دینے کی کہانی۔۔۔

مسجد کو ناپاک قدموں سے پاک کردینے کی کہانی۔

معززین معاشرہ کو رسوائیوں سے بچا لینے کی کہانی۔۔

حاکم وقت کی بے حسی کو احساس میں بدل دینے کی کہانی۔۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے