تحریر: شاہنواز شریف عباسی
اگست کا مہینہ شروع ہوتے ہی یومِ آزادی کی رنگا رنگ تقریبات، جھنڈوں، جھنڈیوں، بیجز اور دیگر تیاریوں کا سوچ کر دل حب الوطنی سے سرشار ہو جاتا ہے۔ اور ایسا کسی خاص عمر یا طبقے کے لیے نہیں بلکہ ہر خاص و عام، بچے، بڑے، امیر، غریب، مرد اور عورت، ہر شعبۂ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اس خوشیوں اور مسرت کے دن کو اپنے اپنے انداز میں مناتے ہیں۔
بلاشبہ 14 اگست 1947 کا دن ہمارے لیے بے حد اہم ہے، کیونکہ اس دن دو قومی نظریے کی بنیاد پر وطنِ عزیز پاکستان معرضِ وجود میں آیا۔ یہ وہ دن تھا جب ’پاکستان کا مطلب کیا؟ لا الٰہ الا اللہ‘ کے نعرے کی گونج نہ صرف ہندوستان بلکہ تمام دنیا میں سنائی دی۔ ایک ایسا ملک جو خالصتاً اللہ کے لیے، دین کی بنیاد پر، اسلام کے لیے، اپنے اسلامی تشخص اور الگ مقام کی وجہ سے وجود میں آیا۔ لاکھوں لوگوں نے اپنا گھر بار، کاروبار، دوست احباب، کھیت کھلیان، دکانیں غرض سب کچھ چھوڑ کر ارضِ وطن پاکستان کی طرف ہجرت کی۔ دوسری طرف پاکستان میں موجود لوگوں نے ان آنے والے ہم وطنوں کو کھلے دل سے خوش آمدید کہا۔ یوں بے سروسامانی کے باوجود، بنیان مرصوص کی مانند، سب ایک دوسرے کے دکھ سکھ میں شریک ہوئے۔
اس وقت نہ کوئی پنجابی تھا، نہ مہاجر، نہ سندھی، نہ پٹھان، نہ بلوچی۔ بس سب ’وَاعْتَصِمُوا بِحَبْلِ اللَّهِ جَمِيعًا‘ کے مصداق وطنِ عزیز کے پرچم تلے متحد تھے۔ یہی پاکستانی اپنی جفاکشی، ہمت، جوان مردی اور دین کی محبت سے سرشار لوگ تھے جن کی وجہ سے یہ نوزائیدہ وطن آغاز ہی سے تمام عالم کے لیے نہ صرف ایک الگ مقام رکھتا تھا بلکہ اسلام کے دشمنوں کی آنکھوں میں کھٹکتا بھی تھا۔ یہی وجہ ہے کہ ابتدا سے ہی پاکستان کو ’اسلام کا قلعہ‘ کہا اور سمجھا جانے لگا۔
یہ ’اسلام کا قلعہ‘ اس وقت واقعی اسم با مسمیٰ بن گیا جب پاکستان کو عالمِ اسلام کی پہلی ایٹمی طاقت ہونے کا اعزاز حاصل ہوا۔ لیکن بدقسمتی سے، یہی وہ وقت تھا جب دشمنانِ اسلام، پاکستان کی دشمنی میں اس حد تک آگے نکل گئے کہ انہوں نے وطنِ عزیز کو اندر سے کھوکھلا کرنے کے لیے ہر ممکن اقدامات شروع کر دیے۔ ان گھناؤنے اقدامات کا اثر یہ ہوا کہ وہ پاکستانی مسلمان جو کبھی دنیا کے کسی بھی کونے میں مسلمانوں پر ظلم ہو تو نبی کریم ﷺ کے فرمان کے مطابق تڑپ اٹھتے تھے، اب صرف اپنے مفاد میں مگن ہو چکے تھے۔ اب وہ IMF کی زنجیروں میں جکڑے جا چکے تھے۔ اب انہیں اپنے اسلامی قلعہ ہونے کا ادراک نہ رہا تھا۔ اب وہ صرف اپنی روٹی، روزی، کپڑے اور مکان کی فکر میں الجھ کر رہ گئے تھے۔
وہ پاکستانی مسلمان، جو کبھی عالمِ اسلام کو ایک مضبوط عمارت سمجھتے تھے، جس کا آہنی دروازہ یہود و نصاریٰ کے شر سے امتِ مسلمہ کو محفوظ رکھتا تھا، آج اگر کوئی عالمِ اسلام کی بات کرے تو اسے یہ سننا پڑتا ہے کہ ’پہلے اپنی فکر کرو، ہمارے پاس کھانے کو نہیں، دوسروں کی فکر میں لگے ہو۔‘ اگر کشمیری بھائیوں کا ذکر کیا جائے تو کہا جاتا ہے: جو کچھ تمہارے پاس ہے، اسے تو سنبھالو پہلے۔
ہمیں اس نہج تک پہنچانے میں جہاں بیرونی سازشوں کا ہاتھ ہے، وہیں ہمارے اندرونی مسائل بھی برابر کے ذمہ دار ہیں۔ کہیں رشوت ستانی ہے، کہیں اقربا پروری، کہیں جھوٹ اور دھوکہ دہی کا بازار گرم ہے۔ کہیں بے راہ روی ہے، کہیں عریانی و فحاشی۔ غرض یہ کہ ہم نے اس ملک کو عظیم تر بنانے کی بجائے اپنی کوتاہیوں اور کمیوں سے اسے کمزور کیا ہے۔
لیکن کیا ہم نے کبھی سوچا کہ وہ ملک جو 1960 تک جرمنی کو قرضہ دیتا تھا، جو ایمریٹس ایئرلائن بنانے میں معاون تھا، جو جنوبی کوریا کی معیشت کو سنبھالنے کے لیے بجٹ دیتا تھا، جس کے کراچی میں حبیب بینک پلازہ کا ڈیزائن دیکھنے چینی ماہرین آتے تھے، وہ آج کیوں ان مشکلات کا شکار ہے؟
جی ہاں! اس کی بنیادی وجہ صرف اور صرف دین سے دوری اور اللہ کے حضور جواب دہی کے احساس کی کمی ہے۔ یہی وہ عوامل ہیں جن کی بنیاد پر آج ہم اس پستی کا شکار ہیں۔
اگر آج بھی ہم اپنے مرکز کو تھام لیں، اللہ اور رسول اللہ ﷺ کو اپنا شعار بنا لیں، اور قرآن و سنت کی دعوت کو لے کر اٹھ کھڑے ہوں، تو یقیناً ہم ایک نئی شروعات کر سکتے ہیں۔ ہم پھر سے بنیان مرصوص بن کر دنیا پر چھا سکتے ہیں، اور ہمیں دوبارہ اسلام کا قلعہ سمجھا جائے گا۔
اگر ہم آج یومِ آزادی کو تجدیدِ عہدِ وفا کا دن بنا لیں، اگر ہم اسے ’یومِ قلعۂ اسلام ‘ قرار دے دیں، تو ہم اقوامِ عالم کے نام نہاد ٹھیکے داروں کے جہازوں کو ہندو کے رافیل، روس کے S-400 اور دشمن کے ڈرونز کی طرح گرا سکتے ہیں۔ تب ہمارے شاہین اور غوری کی گرج سے کشمیری، فلسطینی اور سوڈانی بھائی اسلام دشمنوں کے ظلم سے محفوظ ہو سکیں گے، اور وطنِ عزیز پاکستان بھی اپنی قومی حمیت کو برقرار رکھ سکے گا۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ ہمارے سیاسی اور سماجی قائدین، حکومت اور اسٹیبلشمنٹ اس بات کو سمجھیں کہ جب ہم نواسۂ رسول ﷺ، حضرت حسینؓ کی طرح جرأت، بہادری اور شجاعت دکھائیں گے، تب ہی ہمیں دنیا میں عزت و وقار حاصل ہوگا۔ اور بطورِ قوم ہمیں وقتاً فوقتاً اپنے مقتدر طبقات کو دینی و قومی اہمیت کا احساس دلاتے رہنا ہوگا، تاکہ ہم نہ صرف دنیا میں اپنی قوم کے سامنے بلکہ عند اللہ بھی سرخرو ہوں، اور نبی کریم ﷺ کی شفاعت کے حقدار بن سکیں۔ ان شاء اللہ۔
تو بھائیو! آئیں، ہم عہد کریں کہ ہم آج پھر اس وطنِ عزیز پاکستان کو واقعی ’اسلام کا قلعہ‘ بنائیں گے۔ آج کے دن فضول خرچی سے بچیں گے، اور انہی پیسوں سے اپنے فلسطینی بھائیوں کی مدد کریں گے۔
میرے بھائیو اور دوستو! اگر یہی جذبہ رہا تو ان شاء اللہ ہم روزِ محشر اللہ تعالیٰ اور نبی کریم ﷺ کے سامنے سرخرو ہوں گے۔ ان شاء اللہ۔
پاکستان ہمیشہ زندہ باد
تبصرہ کریں