امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی جانب سے بھارت پر 50 فیصد درآمدی ٹیرف عائد کیے جانے کے بعد دونوں ممالک کے تعلقات کئی برسوں میں اپنی کم ترین سطح پر پہنچ گئے ہیں۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ قدم امریکی پالیسی میں ’فرینڈ شورنگ‘ کے بجائے ’آن شورنگ‘ کی ترجیح کو ظاہر کرتا ہے۔
بدھ کے روز امریکا نے بھارت کی جانب سے روسی تیل کی درآمد پر ردعمل دیتے ہوئے اضافی 25 فیصد ٹیرف عائد کیا، جس سے مجموعی ٹیرف 50 فیصد تک پہنچ گیا۔
یہ فیصلہ اس وقت سامنے آیا جب دونوں ممالک کے درمیان تجارتی معاہدے کی بات چیت تعطل کا شکار ہو چکی ہے۔ بھارت اب دنیا کے ان چند ممالک میں شامل ہوچکا ہے جن کے ساتھ امریکا کا کوئی تجارتی معاہدہ موجود نہیں اور جو سب سے زیادہ ٹیرف کا سامنا کر رہے ہیں۔ صرف برازیل وہ دوسرا ملک ہے جسے بھارت کے برابر ٹیرف کا سامنا ہے۔
❝امریکا بھارت تعلقات کا ایک مشکل دور❞
ایشیا پیسفک فاؤنڈیشن کینیڈا کی نائب صدر وینا نجیب اللہ کے مطابق:
’یہ دونوں ممالک کے تعلقات میں ایک بہت مشکل لمحہ ہے۔ اس وقت بھارت ایک ایسے مقام پر کھڑا ہے جہاں اس کے پاس کوئی تجارتی معاہدہ نہیں اور وہ سب سے زیادہ ٹیرف کی زد میں ہے۔ اب ضرورت ہے کہ اعتماد کی بحالی کے لیے کوئی عملی راہ نکالی جائے۔‘
مذاکرات ناکام کیوں ہوئے؟
گزشتہ سال امریکا اور بھارت کے درمیان دو طرفہ تجارت 212 ارب ڈالر رہی، جس میں 46 ارب ڈالر کا تجارتی خسارہ امریکا کے خلاف تھا۔ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا ہدف ہے کہ اس تجارت کو اگلے پانچ سال میں 500 ارب ڈالر تک لے جایا جائے۔
خبر رساں ادارے ’رائٹرز‘ کے مطابق، بھارت نے صنعتی اشیاء پر محصولات میں کمی، دفاعی اور توانائی کی درآمدات میں اضافہ، اور گاڑیوں پر ٹیکس کم کرنے کی پیشکش کی تھی۔ تاہم، بھارت نے زرعی اور ڈیری مصنوعات پر امریکی مطالبات ماننے سے انکار کر دیا کیونکہ یہ دونوں شعبے ملکی سیاسی اور سماجی اعتبار سے انتہائی حساس سمجھے جاتے ہیں۔
جغرافیائی سیاسی کشیدگی بھی شامل
ماہرین کا کہنا ہے کہ معاملہ صرف تجارتی نہیں بلکہ اس میں جغرافیائی سیاست کا بھی عمل دخل ہے۔ حالیہ مہینوں میں بھارت اور پاکستان کے درمیان ایک تنازعہ کے خاتمے پر صدر ٹرمپ نے دعویٰ کیا کہ انہوں نے جنگ بندی کرائی۔ جبکہ بھارت نے واضح طور پر اس دعوے کو مسترد کر دیا اور کہا کہ مودی اور ٹرمپ کے درمیان کوئی بات نہیں ہوئی تھی۔
یہ بھی پڑھیے
یہ بات امریکی گھامڑوں کو کون سمجھائے!
پاکستان ، امریکہ ، روس تعلقات
خطے میں تبدیلی کی ہوائیں اور پاکستان
دوسری طرف پاکستان نے ٹرمپ کو نوبل انعام کے لیے نامزد کرنے کا اعلان کیا اور امریکا کے ساتھ معدنیات اور توانائی کے ذخائر کی تلاش کے معاہدے کیے، جو کہ بائیڈن کے دور میں غیر یقینی تعلقات کے بعد ایک نئی شروعات سمجھی جا رہی ہے۔
بھارت کی شدید تنقید
بھارت نے امریکی فیصلے کو ’غیر منصفانہ، بلاجواز اور ناقابل قبول‘ قرار دیا ہے اور کہا ہے کہ روسی تیل کی خریداری اس کے 1.4 ارب عوام کی توانائی کی ضروریات کو پورا کرنے کے لیے کی جا رہی ہے۔
فروا عامر، ایشیا سوسائٹی پالیسی انسٹیٹیوٹ نیویارک کی ڈائریکٹر کے مطابق بھارت کمزور نظر نہیں آنا چاہتا۔ بھارت اور مودی کی عالمی سطح پر ایک حیثیت ہے، اس لیے وہ اپنی خودمختاری کا مؤقف برقرار رکھے گا۔
معاشی اثرات اور خدشات
یہ فیصلہ ایسے وقت میں آیا ہے جب بھارت خود کو چین کے متبادل کے طور پر ایک عالمی مینوفیکچرنگ مرکز بنانے کی کوشش کر رہا ہے۔ ایپل نے حال ہی میں اعلان کیا کہ وہ امریکا میں فروخت ہونے والے تمام آئی فونز بھارت میں اسمبل کرے گا۔ اگرچہ الیکٹرانکس اس ٹیرف سے مستثنیٰ ہیں، مگر ایک ایسا ملک جس پر 50 فیصد ٹیرف عائد ہو، سرمایہ کاری کے لیے کشش کھو بیٹھتا ہے۔
روبرٹ روگوسکی، بین الاقوامی تجارتی امور کے ماہر کا کہنا ہے کہ
ٹرمپ جیسے رہنماؤں کی سخت پالیسیوں کے خلاف دوسرے رہنما بھی ردعمل دیں گے۔ آنے والے وقت میں دونوں ممالک کو تخلیقی سفارت کاری کی ضرورت ہوگی۔
بھارت کا ممکنہ ردعمل اور اگلے اقدامات
اب بھارت کی توجہ برطانیہ اور یورپی یونین کے ساتھ تجارتی معاہدوں پر مرکوز ہے، جب کہ چین کے ساتھ تعلقات کو بھی معمول پر لانے کی کوشش جاری ہے۔ مودی اس ماہ کے آخر میں شنگھائی تعاون تنظیم (SCO) اجلاس میں شرکت کے لیے چین جائیں گے۔ یہ ان کا چین کا پہلا دورہ ہوگا جب سے 2020 میں گالوان وادی میں جھڑپیں ہوئی تھیں۔
تبصرہ کریں