14 اگست قافلہ پاکستان کے پرچم لیے سفر کر رہا ہے

پاکستان کا مطلب کیا؟

·

ساتویں صدی عیسوی میں برصغیر کے ساحلِ مالابار پر آباد عربوں نے جب وادیٔ فاران سے اٹھنے والی صدا ‘لا الہ الا اللہ’پر لبیک کہا، اور محسنِ انسانیت ﷺ کے بارے میں عرب سے آنے والے دوسرے تاجروں سے حالات معلوم کرنے کے بعد اس صدا کو ایک نظریے میں ڈھالا اور اس نظریے کو اسلامی اخلاق اور اصلاحی معاشرے کی شکل دی، تو شاید ان کے خواب و خیال میں بھی نہ تھا کہ ایک وقت ایسا بھی آئے گا جب یہ نظریہ اس خطے کے نقشے پر ایک عظیم الشان اسلامی مملکت کی صورت میں ابھرے گا۔

قائداعظم کے الفاظ میں:

’پاکستان کی بنیاد فی الحقیقت اسی وقت پڑ چکی تھی جب اس برصغیر کے پہلے غیر مسلم نے اسلام قبول کیا تھا۔‘

جس نظریے کا آغاز اتنی روشن بنیادوں پر ہوا ہو، دنیائے فکر و عمل میں اس کے تعارف اور اہمیت کا اندازہ لگانا مشکل نہیں۔

بعض لوگ یہ خیال کرتے ہیں کہ جن صوبوں میں مسلمانوں کی تعداد زیادہ تھی، انہیں ملا کر اپنی مرضی کے مطابق حکومت بنانے کا جو حق مانگا گیا تھا، اس کا نام ’نظریۂ پاکستان‘ ہے۔ وہ بھول جاتے ہیں کہ پاکستان کا مطلب ہی تھا لا الہ الا اللہ۔

سچ تو یہ ہے کہ اسلام کو ایک برتر فلسفۂ حیات مان کر اسے نافذ کرنے کے عزم کا نام ’نظریۂ پاکستان‘ ہے۔ قائداعظمؒ نے فرمایا:

’یہ کوئی 1930 یا 1940 کے زمانوں کے مسلمانوں کی دانائی اور ہوش مندی کا قصہ نہیں، بلکہ ان تمام زمانوں اور تمام مسلمانوں کی بیدار مغزی کی بات ہے جنہوں نے اپنی اپنی اہلیت اور ہمت کے مطابق دینِ حق اسلام کے تحفظ اور ترقی کے لیے کوشش کی۔‘

مسلمانوں کے تشخص اور دوسرے لفظوں میں ’نظریۂ پاکستان‘ کی بقا کی کوششیں ہر دور میں ہوتی رہی ہیں۔ اس نظریے سے اصولی اختلاف رکھنے والے اور دشمنی رکھنے والے بھی ہر دور میں موجود رہے ہیں۔ تحریکِ پاکستان کے صفِ اول کے رہنماؤں میں سے بھی اکثر کا یہ مسلک تھا کہ ہمیں محض انگریز کی غلامی سے آزادی اور الگ وطن کی بات کرنی چاہیے۔

بانیٔ پاکستان قائداعظم محمد علی جناحؒ کی نگاہوں سے یہ اعلیٰ نصب العین کبھی اوجھل نہیں ہوا۔ ’حیاتِ قائداعظم‘ کے مصنف نے کتاب کے حرفِ آغاز میں جو کچھ تحریر کیا، اس سے کانگرس کے متحدہ قومیت کے نعرے کے جواب میں قائد کے خیالات کی بھرپور عکاسی ہوتی ہے:

’دونوں قوموں کے لیڈروں، قائداعظم اور گاندھی، کے اندازِ فکر میں ایک زبردست تفاوت موجود تھا۔ گاندھی کا کہنا تھا کہ ہندوستان میں صرف ایک قوم آباد ہے؛ اگر کسی ہندو نے لالچ یا جبر سے اسلام قبول کر لیا ہے تو اس سے اس کی قومیت میں کوئی فرق نہیں پڑتا۔ ادھر اس مردِ مومن کا کہنا تھا کہ اس ملک کی دو قوموں کو ایک کہنا تاریخی حقائق کا خون کرنا ہے۔ اس ملک میں پاکستان اسی روز قائم ہو گیا تھا جب یہاں کی سرزمین پر ایک مسلمان نے قدم رکھا تھا۔ ان دونوں قوموں کی تاریخ، روایات، رسوم و رواج، نام، اور کیلنڈر—سب مختلف اور متضاد ہیں۔‘

13 اپریل 1944 کو اسلامیہ کالج پشاور میں خطاب کرتے ہوئے قائداعظمؒ نے فرمایا:

’ہم نے پاکستان کا مطالبہ زمین کا ایک ٹکڑا حاصل کرنے کے لیے نہیں کیا بلکہ ہم ایک ایسی تجربہ گاہ حاصل کرنا چاہتے ہیں جہاں ہم اسلام کے اصولوں کو آزما سکیں۔‘

مصورِ پاکستان علامہ اقبالؒ کا اندازِ فکر ملاحظہ کیجیے:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
جو پیرہن اس کا ہے وہ مذہب کا کفن ہے
یہ بت کہ تراشیدۂ تہذیبِ نوی ہے
غارت گرِ کاشانۂ دینِ نبوی ہے

دو قومی نظریہ اور نظریۂ پاکستان کی وضاحت، اس کے تسلسل اور بقا کے لیے اس وقت دنیائے صحافت میں ایک توانا آواز اپنی مضبوط دلیلوں اور معقول تجزیوں کے سبب نمایاں تھی—یہ آواز سید مودودیؒ کی تھی۔ وہ لکھتے ہیں:

’انگریز کے اقتدار کا خاتمہ کرنا یقیناً ضروری ہے بلکہ فرض ہے۔ کوئی سچا مسلمان غلامی پر ہرگز راضی نہیں رہ سکتا۔ جس شخص کے دل میں ایمان ہوگا وہ ایک لمحے کے لیے بھی یہ نہ چاہے گا کہ ہندوستان انگریز کے پنجۂ استبداد میں رہے۔ لیکن آزادی کے جوش میں یہ نہ بھول جائیے کہ انگریزی اقتدار کی مخالفت میں مسلمان کا نظریہ ایک وطن پرست کے نظریے سے بالکل مختلف ہے۔‘
(تحریکِ آزادیٔ ہند اور مسلمان، حصہ اوّل، صفحہ 61)

ایک اور جگہ لکھتے ہیں:

’ہمارے نزدیک پاکستان کی حیثیت بمنزلہ مسجد کی ہے۔ اس کی حفاظت اپنے اوپر اسی طرح فرض سمجھتے ہیں جس طرح مسلمان عقیدتاً مساجد کی حفاظت اور حرمت کا جذبہ رکھتے ہیں۔ اور یہی وجہ ہے کہ ہماری یہ خواہش ہے کہ مسجد کی امامت بھی ان لوگوں کو حاصل رہے جو تقویٰ اور نیکی کے لحاظ سے ہر طرح سے اس کے اہل ہوں۔‘
(اکتوبر 1963)

اب میں اور آپ اس مسجد (پاکستان) کے نگہبان ہیں۔ اور کون نہیں جانتا کہ مسجد کی صفائی، مسجد کے نظام کی تشکیل و تنظیم، اور مسجد کی حفاظت (چاہے وہ جغرافیائی ہو یا نظریاتی) اہم بھی ہے اور فرض بھی۔ اس مسجد کے لیے زمین کا ٹکڑا جب حاصل کیا گیا، تب ساری دنیا کو گواہ بنا کر ہم نے عہد کیا تھا:

آج—یومِ آزادی پر—ہمیں اس مسجد کے تحفظ کی قسم کھانی ہے اور سوچنا ہے کہ:

چلو یہ سوچیں ہم آج مل کر
جو اس زمیں سے کیا تھا ہم نے
وہ عہد کیا ہم نبھا رہے ہیں

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے