چند روز پہلے ایک ادبی نشست میں، چائے کی بھاپ اور گفتگو کی مہک کے بیچ، ایک بزرگ سامع نے نہایت سنجیدہ چہرے اور نصیحت آمیز لہجے میں فرمایا:
’بیٹا، آپ نے اس مضمون میں لفظ ‘خدا’ استعمال نہیں کرنا… بلکہ اس کے بجائے ‘اللہ’ لکھنا ہے۔‘
میں نے ادباً عرض کیا: ’قبلہ! کیوں؟‘
انہوں نے نظریں اس انداز میں اٹھا کر پڑھیں جیسے میں کسی لغتِ مجوس کے خفیہ باب سے آیا ہوں، اور کہنے لگے: ’اس سے ایرانی مجوسیت کی بو آتی ہے!‘
میں نے عاجزی سے سر ہلا کر کہا: ’قبلہ! یہ جو آپ ہر روز ‘نماز’ پڑھتے ہیں، اس سے کوئی زرتشتی خوشبو نہیں آتی؟‘
یہ سن کر وہ لمحہ بھر کو ٹھہرے… جیسے دماغ کی فائل پر اچانک 404 Error آ گیا ہو۔ پھر ہلکی سی مسکراہٹ کے ساتھ بولے: ’چائے پیو گے؟‘
اس لمحے مجھے احساس ہوا کہ ہمارے ہاں زبان کا تھرمامیٹر جذباتی کہانیوں سے زیادہ چلتا ہے، زبان کی اصل جڑوں سے کم۔
زبان اور الفاظ کی ہجرت
لسانیات ہمیں بتاتی ہے کہ الفاظ بھی انسانوں کی طرح ہجرت کرتے ہیں۔ ایک زبان سے دوسری میں جاتے ہوئے وہ اپنا لباس (یعنی ہجے) بدل سکتے ہیں، کبھی لہجہ (یعنی صوتیات) بدل لیتے ہیں، اور اکثر اپنا مزاج (یعنی معنی) بھی نیا اختیار کر لیتے ہیں۔ ’خدا‘ فارسی سے آیا، مگر اردو میں داخل ہو کر مذہبی تقدیس کا حامل ہو گیا۔ اسی طرح ’نماز‘ زرتشتی تہذیب میں ایک مذہبی عمل کے لیے بولا جاتا تھا، مگر اردو اور فارسی میں یہ اسلامی عبادت کا مترادف بن گیا۔
زبان کی ملکہ: ارتقاء
لسانی ارتقاء کا اصول ہے کہ زبانیں خالص نہیں رہتیں، بلکہ مسلسل قرض لیتی اور دیتی رہتی ہیں۔ اردو خود ایک ’لسانی سنگم‘ ہے، جس میں عربی، فارسی، ترکی، سنسکرت، پرتگیزی، انگریزی—سب کی گونج سنائی دیتی ہے۔ کسی لفظ کے ماضی کی شناخت اس کے موجودہ مفہوم کی اصل کو ختم نہیں کرتی۔
لفظوں کی شہریت
ایسا لگتا ہے جیسے زبان کو اقوامِ متحدہ کی نشست پر بٹھا دیا ہو، جہاں ہر لفظ اپنے وطن کی شناخت کے مطابق ووٹ دیتا ہے، چاہے برسوں سے کسی اور ریاست میں پناہ لیے کیوں نہ ہو۔ لسانیات میں اس کو "semantic naturalization” کہا جاتا ہے—یعنی ایک لفظ جب نئی زبان میں آ کر اس ماحول کا شہری بن جاتا ہے۔ ’خدا‘ بھی اردو میں آ کر semantic naturalization کا مکمل عمل گزار چکا ہے۔
علمی روایت اور ’خدا‘
اگر شک باقی ہو تو اپنی علمی میراث پر نظر ڈالیے۔ علامہ اقبالؒ جیسے مفکر نے بھی جہاں شعر نے غنائیت بخشی، وہاں لفظ ’خدا‘ کو اللہ تعالیٰ کے مترادف کے طور پر برتنے میں کوئی جھجک محسوس نہیں کی:
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے، بتا تیری رضا کیا ہے
یہ اشعار بخوبی ثابت کرتے ہیں کہ ’خدا‘ شاید فارسی میں آیا تھا، لیکن مسلمانوں کے دل و زبان میں یہ نیا رنگ و معنی پا گیا۔
کتابوں کے عنوانات پر بھی نظر ڈال لیجیے جن میں ’خدا‘ ہے:
1. خدا کی بستی – شوکت صدیقی
2. خدا کی تلاش – سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
3. خدا اور انسان – سید ابوالاعلیٰ مودودیؒ
4. خدا کا تصور – ڈاکٹر خالد علوی
5. خدا اور فلسفہ – سید سبط حسن
قیامت کا منظر اور فارسی شعر
اور قیامت کے دن کے مناظرات میں نماز کی اہمیت سے بہتر مثال شاید کوئی اور نہ ہو:
روزِ محشر کہ جان گداز بود
اولیں پرسشِ نماز بود
— ذکی عثمانیؔ
خلاصہ کلام
لہٰذا، محترم سامع! اگر آپ کو ’خدا‘ سے واقعی مجوسیت کی بو آتی ہو، تو بے شک ’نماز‘ کو ’صلاۃ‘ کہہ لیجیے، ’بہشت‘ کو ’جنّۃ‘ اور ’دوزخ‘ کو ’جہنم‘…
لیکن لسانیات ہمیں یہ بھی سکھاتی ہے کہ زبان کا حسن اسی آمیزش میں ہے، جہاں لفظ اپنے ماضی کی گٹھڑی ساتھ لاتے ہیں مگر موجودہ ثقافت کے رنگ میں رنگ جاتے ہیں۔ احتیاط کہیں یوں نہ ہو کہ ہم اس چاشنی سے بھی محروم ہو جائیں جو صدیوں کے ارتقاء نے ہمارے جملوں میں گھول دی ہے۔
تبصرہ کریں