14 اگست قافلہ پاکستان کے پرچم لیے سفر کر رہا ہے

مدینہ سے پاکستان تک — ہجرت، قربانی اور اسلامی فلاحی ریاست کا خواب

·

حق کی خاطر، خدا کی خوشنودی کے لیے
جینا مرنا ہمارا، اسی کے لیے

ہم تاریخ کے اوراق کو دیکھیں تو اس کے صفحات ہمارے اسلاف کے کارناموں سے بھرے پڑے ہیں، لیکن یہ کارنامے تعریف کا حصہ کیسے بنے؟ اس پہلو کو سمجھنا بہت ضروری ہے۔

یاد کیجیے! نبی کریم ﷺ جب اپنے عزیز و اقارب، رشتہ داروں اور دوست احباب—یعنی وہ لوگ جو آپ ﷺ کو ’صادق‘ اور ’امین‘ کہنے سے نہ تھکتے تھے، جو آپ ﷺ کی شرافت، اعلیٰ ظرفی، فرض شناسی، صداقت اور امانت کے معترف تھے۔ انہی لوگوں نے جب دینِ حق کی دعوت کو قبول کرنے سے انکار کیا، تو داعیِ اعظم ﷺ نے مکہ سے طائف کا سفر کیا۔

ایک لمحے کو آنکھیں بند کیجیے اور تصور کیجیے: آپ ﷺ جنہیں اپنی آنکھوں کی ٹھنڈک اور دل کا سکون سمجھتے تھے، وہی آپ کو لہولہان کر دیتے ہیں۔ مگر آپ ﷺ کے عزم میں ذرہ برابر بھی لرزش نہیں آتی۔

آگے بڑھتے ہیں تو مکہ کی وادی میں دینِ حق کی ایک چھوٹی سی جماعت پر اہلِ قریش ظلم کے پہاڑ توڑتے ہیں۔ ایسے میں محسنِ انسانیت ﷺ ان کو حبشہ کی طرف ہجرت کا حکم دیتے ہیں۔ یہ حکم کیوں دیا گیا؟ تاکہ اہلِ حق دارالکفر سے نکل کر اپنی جانیں بچا سکیں۔ چونکہ اس وقت تک کوئی دارالاسلام موجود نہ تھا اور حبشہ کا حکمران اہلِ کتاب میں سے تھا، اس لیے وہاں ہجرت کی گئی۔

اسلام کی پہلی باقاعدہ ہجرت مکہ سے مدینہ کی طرف ہوئی۔ اس ہجرت میں اہلِ بیت کے علاوہ مرد، خواتین اور بچے شامل تھے۔ مکہ—جہاں بیت اللہ موجود تھا، مگر کفر کی حکومت قائم تھی—کو چھوڑ کر مدینہ کی طرف ہجرت کی گئی، جو یثرب سے مدینۃ النبی میں بدل چکا تھا۔ یہی وہ مدینہ تھا جہاں قبا کی تعمیر ہوئی، مواخات کا عظیم الشان عمل ہوا اور مسجدِ نبوی ﷺ میں پہلی اسلامی ریاست کی بنیاد رکھی گئی۔

یہاں یہ بات واضح کر لینی چاہیے کہ ہجرت کی اصل وجہ دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف جانا تھا۔ مکہ والے اپنے تھے، رشتہ دار تھے، دوست تھے، مگر ایمان اور کفر نے انہیں دو الگ قومیں بنا دیا تھا۔

مدینہ میں اسلامی فلاحی ریاست کا قیام دینِ حق کو دنیا پر غالب کرنے کا پہلا قدم تھا۔ جیسا کہ کہا گیا:

اتر کر حرا سے سوئے قوم آیا
اور ایک نسخۂ کیمیا ساتھ لایا

یہی سے اسلامی فتوحات کا آغاز ہوا اور جب تک مسلمان اللہ کی رسی کو مضبوطی سے تھامے رہے، دنیا میں سرخرو رہے۔ مگر جب قرآن و سنت کی روش سے ہٹ گئے تو سلطنتِ عثمانیہ جیسی عظیم ریاست کا بھی سورج غروب ہو گیا۔

اللہ تعالیٰ نے ایک بار پھر اپنے بندوں کو موقع دیا کہ وہ دارالکفر سے دارالاسلام کی طرف ہجرت کریں۔ متحدہ ہندوستان میں انگریزوں کے ظلم کے ساتھ ساتھ ہندو اکثریت کے عزائم واضح ہو چکے تھے کہ آزادی کے بعد ہندوستان پر ان کی حکومت ہوگی۔ یہ حقیقت سامنے آئی کہ باوجود یکساں رہن سہن اور معاشرت کے، مسلمان اور ہندو دو الگ قومیں ہیں۔

یہی وہ نظریہ تھا جس نے دنیا کی سب سے بڑی ہجرت کو حقیقت بنایا۔ تقریباً پچیس لاکھ مسلمان ہجرت کر کے پاکستان آئے۔ یہ ہجرت بھی مدینہ کی ہجرت کی مانند تھی—جہاں اپنا گھر، رشتے، کاروبار اور زمینیں چھوڑ کر اسلامی فلاحی ریاست کے قیام کے لیے نکلے۔ پاکستان میں مہاجرین کا اسی طرح استقبال کیا گیا جیسے مدینہ میں انصار نے مہاجرین کو گلے لگایا تھا۔ اُس وقت کوئی پنجابی، پٹھان، بلوچی یا مہاجر نہ تھا—سب پاکستانی تھے۔

مگر غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی نااتفاقیوں نے رفتہ رفتہ اس ریاست کو، جو ’لا الہ الا اللہ‘ کے نام پر بنی تھی، کمزور کر دیا۔ نتیجہ یہ نکلا کہ 1971 میں یہ عظیم ریاست دو لخت ہو گئی۔

یومِ آزادی کے موقع پر جب سوال اٹھتے ہیں اور افواجِ پاکستان پر انگلیاں اٹھتی ہیں تو علامہ اقبال کا یہ شعر یاد آتا ہے:

ان تازہ خداؤں میں بڑا سب سے وطن ہے
اس کا جو پیرہن ہے، وہ مذہب کا کفن ہے

قائداعظمؒ کے مطابق اگر ہم اس وطن کو صحیح معنوں میں اسلامی فلاحی ریاست بناتے تو آج یہ حالات نہ ہوتے۔ جیسا کہ علامہ نے کہا:

اپنی ملت پر قیاس اقوامِ مغرب سے نہ کر
خاص ہے ترکیب میں قومِ رسولِ ہاشمی ﷺ

اگر ہم قرآن و سنت کی دعوت لے کر اٹھیں تو دنیا پر چھا سکتے ہیں۔

آج اگر دنیا کے نقشے میں پاکستان کی جگہ متحدہ ہندوستان ہوتا تو اس کی بحری طاقت خلیجِ عمان اور متحدہ عرب امارات تک پھیلی ہوتی، اور ہمارا ذکر شاید نہ ہوتا۔ یہ ملک، جو مدینہ طیبہ سے اپنی وجہِ وجود میں مماثلت رکھتا تھا، دشمنانِ دین کی نظر میں ہمیشہ کھٹکتا رہا۔ وہ نہیں چاہتے کہ کوئی مسلم ملک بڑی آبادی، بڑے رقبے، بڑی فوج یا مضبوط معیشت کے ساتھ قائم رہے—چاہے وہ سیکولر ہی کیوں نہ ہو۔

مگر ابھی بھی وقت ہے۔ اگر ہم یہ پانچ کام کر لیں تو کامیابی ممکن ہے:

1.خود شناسی پیدا کریں۔

خاندان کو مضبوط کریں۔2.

3.اتحاد و اتفاق سے رہیں۔

4.علم اور ریسرچ اینڈ ڈیولپمنٹ پر توجہ دیں۔

4.عدل و انصاف قائم کریں۔

پھر، اللہ کے حکم سے، یہاں بھی شریعت کا نفاذ ممکن ہوگا اور پاکستان امن و رحمت کا گہوارہ بن سکے گا۔

اللہ ہمارے پاکستان کو اسلام کا قلعہ بنائے۔
خدا کرے میری ارضِ پاک پر اترے وہ فصلِ گل جسے اندیشۂ زوال نہ ہو۔
خدا کرے کہ میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے حیات جرم نہ ہو، زندگی وبال نہ ہو۔ آمین۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے