بریگیڈیئر صولت رضا (ریٹائرڈ)
بریگیڈیئر تفضل حسین صدیقی کی باعزت ریٹائرمنٹ کے بعد بریگیڈیئر صدیق سالک نے ڈائریکٹر آئی ایس پی آر کا عہدہ سنبھالا تو پورے دفتر میں خوف وہراس کی لہر دوڑ گئی۔ یہ کیفیت غیر متوقع نہیں تھی۔ اسٹاف کو معلوم تھا کہ مزاج یار بچپن سے ’عاشقانہ ‘ ہے۔
میں آئی ایس پی آر لاہور میں تعینات تھا۔ میرے ایک رفیق کار نے راولپنڈی سے کانپتی ہوئی آواز میں اطلاع دی کہ بریگیڈیئر سالک نے آئی ایس پی آر کی کمان سنبھال لی ہے اور آج انہوں نے بڑے سخت احکامات صادر کیے ہیں۔
‘اچھا ٹھیک ہے۔ ابھی یہ احکامات لاہور نہیں پہنچے ۔‘ میرا جواب سن کر موصوف بولے: ’ آپ خوش نہ ہوں، عنقریب ریجنل دفاتر کی شامت آنے والی ہے۔‘
میں نے جواب دیا کہ بھائی! ہمارا کیا ہے، پہلے ایک گگلی بالر کا سامنا کرتے رہے۔ اب فاسٹ بالر آ گیا ہے۔ تو سر پر ہلمٹ پہن لیتے ہیں اور باہر جاتی ہوئی تیز گیند سے فاصلہ رکھیں گے۔ دو چار روز کی بات ہے سب ٹھیک ہو جائے گا ۔ ‘
اگلے روز ٹھیک ساڑھے آٹھ بجے صبح ڈائر یکٹر کے پی اے کی فون پر آواز سنائی دی۔ ’سالک صاحب آپ سے بات کریں گے۔‘
پی اے نے لائن تھرو کی تو سالک صاحب فون پر تھے۔ میں نے تقریباً نعرہ لگاتے ہوئے کہا ’السلام علیکم سر ! بہت بہت مبارک ہو۔ !!!‘
دوسری جانب سے آواز آئی:’ وعلیکم السلام ، شکریہ۔ میجر صولت رضا آپ نے ہلمٹ خرید لیا ہے؟‘ ایک لمحے کے لیے میں سناٹے میں آگیا ۔
’جی سر۔۔۔ میں سر ….. ساڑھے سات بجے سے پہن کر بیٹھا ہوں۔۔سر‘
میرا جواب سن کر ادیب صدیق سالک ڈائریکٹر آئی ایس پی آر پر حاوی آگیا۔ فون پر ہلکا سا قہقہ سنائی دیا تو میرے اوسان بحال ہوئے۔ میں نے خوشامدانہ لہجے میں ایک اور فقرہ آگے بڑھایا۔ ’سر! آپ کی کمان میں آغاز سے ہی مخبری کا نظام بہت اعلیٰ دکھائی دیتا ہے۔‘
سالک صاحب کب چوکنے والے تھے۔ فوراً بولے: ’فی الحال اس شعبے میں پہلے سے تعینات سٹاف سے استفادہ کر رہا ہوں، لہذا آپ زیادہ محتاط رہیں ۔ ‘
صدیق سالک نے فوج میں کمیشن سے شہادت تک مثالی محنت جذبے اور جوانمردی کے ساتھ اپنے فرائض ادا کیے ۔ انہوں نے زندگی کا ہر لمحہ بھر پور انداز میں بسر کیا۔ میں نے انھیں سب سے پہلے واہگہ کی سرحد پر ایک جنگی قیدی کے روپ میں دیکھا۔ انہوں نے چند لمحے پہلے سرحد عبور کر کے طویل قید سے رہائی حاصل کی تھی اور آئی ایس پی آر کا نو آموز لیفٹیننٹ پی آر او ڈھاکہ میجر صدیق سالک کا استقبال کرنے میں مصروف تھا ۔
وہ اپنے ہمراہ سقوط ڈھاکہ اور بھارتی قید کا آنکھوں دیکھا حال لائے جسے انہوں نے ’ہمہ یاراں دوزخ ‘ ’وٹنس ٹو سرنڈر ‘ اور ’میں نے ڈھاکہ ڈوبتے دیکھا‘ سمیت دیگر کتابوں میں براہ راست یا بالواسطہ انداز میں رقم کیا۔ ان کے نزدیک ابھی مشرقی پاکستان کی کہانی ختم نہیں ہوئی۔ وہ اسے دوٹوک انداز میں لکھ رہے تھے Pakistan Needs Politics اسی سلسلے کی ایک کڑی تھی۔
انگریزی کتاب کا مسودہ مبینہ طور پر لاپتہ ہو گیا۔ اس کے علاوہ سالک صاحب ایک سیاسی ناولٹ ’وار ننگ ‘ بھی لکھ رہے تھے۔ ان کی شہادت کے بعد یہ مسودہ بھی مفقود الخبر ہو گیا ۔ سالک صاحب کی مطبوعہ اور غیر مطبوعہ تحریریں قومی اثاثہ ہیں، انہیں یوں ضائع نہیں ہونا چاہیے تھا۔
بریگیڈیئر صدیق سالک بنیادی طور پر ایک دیانتدار قلم کار تھے ۔ سرکاری ملازمت کے مخصوص تقاضوں کے باوجود انہوں نے اپنے قاری سے کبھی بے وفائی نہیں کی ۔ وہ فوج میں ترقی کی منازل طے کرتے رہے۔ کیپٹن، میجر، لیفٹیننٹ کرنل، فل کرنل اور بریگیڈیئر اس کے بعد بھی مزید ترقی ان کی راہ میں تھی لیکن قدرت کو کچھ اور ہی منظور تھا۔
جون 88ء میں سال چھ ماہ بعد با عزت ریٹائرمنٹ کی آرزو کرنے والا صدیق سالک 17 اگست 88ء کو عسکریوں کی اس تابندہ صف میں شامل ہو گیا جو کبھی ریٹائر نہیں ہوتے ۔ روزانہ اپنی ڈیوٹی سرانجام دیتے ہیں لیکن وہ ہمیں نظر نہیں آتے کیونکہ ہم اس کا شعور نہیں رکھتے۔
سقوط مشرقی پاکستان نے صدیق سالک کی سرکاری، ادبی اور کسی حد تک ذاتی زندگی پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ۔ وہ مزاح نگار کم اور تلخ نگار زیادہ ہو گئے تھے۔ لیکن کبھی کبھار ان کے روز مرہ مزاج کا حصہ بھی بن جاتی تھی۔ وہ فرائض کی انجام دہی کے دوران انتہا تک پہنچنے کی تمنا کرتے تھے جو ظاہر ہے ہر انسان کے بس کا روگ نہیں ۔
بریگیڈیئر صدیق سالک ایک سخت گیر کپتان، مشفق کوچ اور بے تکلف دوست کی حیثیت رکھتے تھے۔ سخت گیر کپتان کا روپ انھوں نے دفتر کے نظام کو درست کرنے کے لیے دھارا تھا اور اس ’ ادا کاری ‘ کا اعتراف انہوں نے اپنی کتاب ’سلیوٹ ‘ میں کیا ہے جو ان کی شہادت کے بعد شائع ہوئی وہ لکھتے ہیں
’ میں نے یہ خوفناک امیج بڑی محنت سے بنایا ہے اور اس سے آئی ایس پی آر کا گراف اور اوپر چلا گیا اور میری ذاتی مقبولیت کا گراف خاصا گر گیا۔‘
صدیق سالک کی پوری سروس ایک ڈٹ جانے والے پروفیشنل کی رہی۔ مسلح افواج کی پبلسٹی اور میڈیا کے ساتھ تعلقات سے متعلق امور کے بارے میں ان کی رائے کو ویٹو کا درجہ حاصل تھا۔ سینئرز اور جونیئرز یکساں طور پر اس مرتبے سے آگاہ تھے لہذا ہم جیسے ’کو تاہ اندیش‘ اکثر سالک صاحب کے نام سے اپنی ناچیز رائے پیش کر کے روزمرہ کے کام نکال لیا کرتے تھے۔ پیشہ ورانہ لحاظ سے یہ رعب ودبدبہ اور کسی حد تک احترام صدیق سالک کے بعد آئی ایس پی آر کے کسی اور سربراہ کے حصے میں نہیں آیا۔ انہوں نے انتہائی مختصر وقت میں آئی ایس پی آر ڈائریکٹوریٹ کو وقار اور بلندی کی جانب گامزن کیا۔ زیر کمان افسردن رات مصروف عمل دکھائی دینے لگے۔ ایک دور اندیش سربراہ کی حیثیت سے انہوں نے ادارے کے بہتر مستقبل کے لیے پلاننگ کی اور پاک افواج کی ہائی کمان سے اسے منظور بھی کرایا۔ انہیں آئی ایس پی آر سے اپنے گھر کی محبت اور لگاؤ تھا بلکہ اگر یہ کہا جائے کہ دفتر سے زیادہ مانوس تھے تو بے جانہ نہ ہوگا۔ روزانہ سترہ، اٹھارہ گھنٹے دفتر میں ہی بسر ہو جاتے تھے۔ اس کے باوجود بعض ’ شاہ سواروں ‘ کو اُن سے شکوہ رہتا تھا کہ ’ ہم وفادار نہیں ہیں۔‘
ادبیوں اور صحافیوں سے صدیق سالک کے تعلقات کی بنیاد نظریاتی ، جغرافیائی یا لسانی دائرے نہیں تھے البتہ ذاتی دوستی کے معاملے میں وہ بے حد محتاط اور کسی حد تک پسند اور ناپسند کے قائل تھے۔ شاید اسی وجہ سے کچھ قلمی حوریں اور غلمان ان سے نالاں رہتے تھے۔
بریگیڈیئر صدیق سالک آئی ایس پی آر کے پہلے سربراہ تھے جو پیشہ ورانہ فرائض کی ادائیگی کے دوران باور دی جاں بحق ہوئے۔ ان کے بعد آئی ایس پی آر ایک ’ بے بس یتیم ‘ کی مانند تھا۔ سب کی نظریں صدیق سالک کی کرسی پر تھیں لیکن محض کرسی پر بیٹھنے سے صدیق سالک بن جانا ممکن نہیں تھا۔
عبوری دور میں چند ایک نے کوشش کی مگر منہ کے بل جا گرے۔ کچھ عرصے بعد بریگیڈیئر ریاض اللہ ڈائریکٹر آئی ایس پی آر تعینات کیے گئے۔ ان کا بنیادی تعلق فوج کی ایک پیادہ رجمنٹ سے تھا اور عہدہ سنبھالنے کے لیے پوری سروس میں پہلی مرتبہ آئی ایس پی آر کے دفاتر میں تشریف فرما ہوئے۔ ظاہری قد کاٹھ صدیق سالک کی مانند تھا جس سے دنیا کی نظروں میں آئی ایس پی آر کی یتیمی دور ہو گئی البتہ پیشہ ورانہ بے بسی کا دورانیہ طویل سے طویل تر ہوتا چلا گیا اور میڈیا کی نظروں میں آئی ایس پی آر باوردی مزاح (Humour in Uniform) کا سب سے اہم منبع بن گیا۔
اس بیش قیمت مزاح کے شہ پاروں کو عام کرنے میں ذرائع ابلاغ کے دوستوں نے اہم کردار ادا کیا۔ ان حالات میں صدیق سالک کی کمی بے حد محسوس کی گئی۔ کاش! انھیں چند برس مزید میسر آجاتے تو ابلاغی محاذ پر پاک فوج کو ایک جامع منفرد اور پیشہ ورانہ بنیاد رکھنے والا ادارہ جلد میسر آجاتا اور ساتھ ہی اردو اور انگریزی ادب میں مزید چند شاہکار کتب کا اضافہ ہوتا۔ بیک وقت یہ دونوں کارنامے صدیق سالک ہی انجام دے سکتے تھے ۔ بہر حال مختصر عرصے میں بھی انہوں نے قابل تقلید مثال قائم کی اور ان کی کاوشیں ہمیشہ مشعل راہ رہیں گی۔
اللہ تعالٰی شہید کے درجات مزید بلند فرمائے، آمین۔
تبصرہ کریں