شاہدہ مجید، اردو شاعرہ ، کالم نگار، صحافی

ویمن ایمپاورمنٹ: منصوبے کافی نہیں، اصل تبدیلی ذہن سازی سے ممکن

·

سولہ اگست کی بات ہے ملتان شیر شاہ روڈ گارڈن ٹاؤن میں ایک لڑکی سکوٹی پر جارہی تھی۔ قریب سے گاڑی میں گزرتے لڑکے نے مبینہ طور پر سکوٹی کو ٹکر ماری ۔ لڑکی سڑک پر جا گری۔ لڑکی کے ردعمل پر جھگڑا شروع ہوا۔ لڑکے کی ماں اپنے ملازمین کے ہمراہ فوری موقع پر پہنچ گئی، اس لڑکی کو ایسے پیٹنے لگیں جیسے کوئی ذاتی دشمنی ہو۔ ساتھ میں گالیاں، تھپڑ، شورشرابا ۔۔ اور مزید تشدد کے لیے لڑکی کو  ڈیرے پر لے جانے کی کوشش بھی کی گئی ۔

ویڈیو وائرل ہوئی ہنگامہ مچا ۔۔تفصیلات کے مطابق لڑکا ایک سیاسی رہنما سلمان قریشی کا بیٹا ہے ۔ تھوڑی ہی دیر بعد لڑکی کو بری طرح زود و کوب کرنے والی  ملزم خواتین  کو ضمانت پر چھوڑ دیا گیا۔

 یہ ہیں ہماری وہ خواتین، جو خود عورت  ہوتے ہوئے بھی دوسری عورت کا احترام نہیں جانتیں۔  عورت کی ترقی اور خود مختاری کی سب سے بڑی دشمن اسی قسم کی عورتیں ہیں ۔

 ان حالات میں ہم کیسے عورت کو خود مختار کریں گے؟

وزیرِاعلیٰ پنجاب صاحبہ!

آپ نے بچیوں کو سکوٹیاں دیں، تعلیمی منصوبے بنائے، سہولتیں فراہم کیں، یہ سب قابلِ تعریف ہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے عورت کی ذہن سازی پر بھی کبھی غور کیا؟

منصوبے تو بن گئے مگر ذہنیت وہی پرانی ہے۔ عورت کی بااختیاری کی اصل رکاوٹ ہمیشہ مرد نہیں رہا، اکثر اوقات عورت ہی دوسری عورت کی دشمن بن جاتی ہے۔

 میں تمام عورتوں کی بات نہیں کررہی، رول ماڈلز کو چھوڑ کر ، خواتین کے کچھ عمومی رویے ایسے ہیں جو رکاوٹ بنتے ہیں۔ یہ رکاوٹیں مرد سے زیادہ عورت کی اپنی تربیت اور سوچ سے جڑی ہیں۔

 وہ عورت جو اپنی بیٹی کو پڑھنے سے روکتی ہے۔

 وہ عورت جو بہو کو غلام سمجھتی ہے۔

 وہ عورت جو سڑک پر ایک لڑکی کو مار مار کر حشر کر دیتی ہے۔

یہ وہ خواتین ہیں جو کسی عورت کو آگے بڑھنے نہیں دیتیں ۔

 ان کی تربیت اور ذہن سازی کی ضرورت ہے ۔

کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ عورتوں کی ذہن سازی کا مطلب آزادی مارچ کے نعرے اور مظاہرے ہیں۔  لیکن حقیقت یہ ہے کہ چند عورتوں کے نامناسب نعروں نے خواتین کے حقوق کے لیے کام  کرنے والی عورتوں اور تنظیموں کی برسوں کی محنت کو نقصان پہنچایا۔

 ذہن سازی نعرے بازی سے نہیں، رویے بدلنے سے ہوتی ہے۔

تاریخ گواہ ہے کہ عورتوں کے مفادات کو سب سے زیادہ نقصان عورتوں نے پہنچایا۔

   پہلا نقصان: مرد کی غلط تربیت کرکے کیاکیونکہ مرد کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے ۔

 دوسرا نقصان: عورت نے خود عورت کے ساتھ امتیازی رویہ رکھ کر۔

امتیازی سلوک گھر سے شروع ہوتا ہے۔ بچہ ابھی  ماں کی کوکھ میں ہوتا ہےاور بیٹے کی خواہش ماں کے دل میں ۔  باپ کو وارث چاہیے، دادا کو خاندان کا نام آگے بڑھانا ہے، دادی کو گود میں پوتا کھلانا ہے ۔

بیٹی کی پیدائش پر پہلا تاثر مایوسی کا ہوتا ہے۔ دوسرا تاثر تسلی کا کہ ’چلو، کوئی نہیں۔ بیٹیاں تو اللہ کی رحمت ہوتی ہیں۔ ماں باپ کی ہمدرد ہوتی ہیں ۔ ‘

 بالکل ایسے ہی جیسے کہا جائے ’داغ تو اچھے ہوتے ہیں۔‘

تعلیم کی باری آتی ہے تو پہلا حق بیٹے کا ۔۔

 اگر وہ پڑھنے میں نالائق نکلے تو چلو، بیٹی پڑھ لے۔ ورنہ بیٹے کے بعد بیٹی کی باری۔

 بیٹی کو اعلیٰ تعلیم سے روکا جاتا ہے۔ اپنی پسند کے شعبے سے  ۔ پسند ‘۔کی شادی سے بھی ۔۔کہ ’ لوگ کیا کہیں گے

یہ فکر اکثر ماں ہی کرتی ہے۔

بیٹی کو لاڈ پیار کیا بھی جاتا ہے تو یہ کہہ کر کہ ’پرایا دھن ہے۔‘

 یعنی لاڈ بھی اضافی احسان کی طرح اور انجام میں بیٹی کو حقیقت میں پرایا ہی کر دینا۔

سختی زیادہ  ماں ہی کرتی ہے۔ یہ کہہ کر کہ ’کل کو ساس کی سختی سہنی ہے۔‘

جائیداد کی تقسیم میں بھی ماں بیٹی کا ساتھ نہیں دیتی۔ بیٹوں سے تعلق بگڑنے کے ڈر یا بڑھاپے کا سہارا کھو جانے کے خوف میں بیٹی کو حق لینے سے  روک دیتی ہے۔  یوں ایک ماں اپنی بیٹی کا حق مارنے میں معاون بن جاتی ہے ۔ اور کل کو یہ بیٹی اپنی بیٹی کے ساتھ یہی رویہ دہراتی ہے۔

 ابھی  حال ہی میں حمیرا اصغر کا کیس سامنے آیا  ۔  سوچیں۔ اگر اس کی ماں اُس کے ساتھ رہتی، اسے تنہا نہ چھوڑتی تو شاید وہ اتنے اندھیروں میں نہ ڈوبتی۔ نہ ہی اس کا انجام یوں ہوتا۔

دوسرا گھر سسرال ہے۔

 جہاں جاتے وقت بیٹی کو کہا جاتا ہے ’وہی اب تمہارا گھر ہے۔‘

سسرال پہنچتے ہی اسے ایک ساس ملتی ہے  جس نے بیٹے سے تمام عمر یہ کہا تھا ’ جب بہو آئے گی تو میں آرام کروں گی ۔‘

 بہو آتے ہی نوکرانی بن جاتی ہے ۔ بیٹیاں سسرال میں سسک سسک  کر جیتی رہتی ہیں مگر میکے کو نہیں بتاتیں۔ پھر یہی بہو ایک دن ساس بنتی ہے۔ اوراپنی بہو کے ساتھ وہی سلوک دہراتی ہے۔

 شوہر کے ظلم پر ڈھارس دینے کے بجائے اکثر عورتیں کہتی ہیں ’ہم نے بھی سہا ہے، تم بھی سہو۔‘

پہلے  تو بہوؤں کو ساسیں جلا بھی دیا کرتی تھیں، یہ کہہ کرکہ چولہا پھٹ گیا۔ اب چولہے پھٹتے نہیں تو نئے طریقے ایجاد کر لیے گئے۔ یاد ہی ہوگی  سیا لکوٹ کی زارا جسے ساس نے قتل کرکے چہرہ جلا دیا اور جسم کے ٹکڑے کر کے نالی میں پھینک دیے ۔ کیسی عجیب بات ہے کہ وہ ساس محض ایک عورت ہی نہیں تھی، محض ایک ساس ہی نہیں تھی بلکہ سگی خالہ بھی تھی۔ ‘

میڈیا ہو یا گھر، ہر جگہ عورت کو عورت کا دشمن دکھایا گیا۔ ڈراموں میں ساس بہو کی لڑائی، نند بھاوج کی سازشیں۔ یہ سب ہمارے ذہنوں میں زہر کی طرح گھل چکا ہے۔ محفلوں میں بھی عورت عورت کو نیچا دکھاتی ہے۔ اداروں میں اکثر عورت ہی عورت کا اسکینڈل بناتی ہیں ، ٹانگیں کھینچنا اور کردار کشی کرنے میں پیش پیش رہتی ہے ۔ سوشل میڈیا پر بھی دیکھ لیں، عورتیں عورتوں کے خلاف محاذ کھولے بیٹھی ہیں۔

یہی حال ادب میں بھی ہے، ادب میں جگہ پانے کے لیے عورتیں ایک دوسرے کو گرانے میں جُٹی رہتی ہے ۔

اور اس ساری صورتحال کا فائدہ اٹھاتے ہیں مرد۔ وہ ان چیزوں کو پکڑتے ہیں اور عورتوں کے خلاف استعمال کرتے ہیں۔ اور عورتیں خود کو ہتھیار بننے پر آمادہ کر لیتی ہیں۔ اس طرح مرد  کا تسلط اور اجارہ داری  قائم رہتی ہے ۔

اصل بااختیاری تب آئے گی جب خود عورت عورت کے لیے ڈھال بنے، جب وہ ایک دوسرے کا ہاتھ تھامے، راستہ ہموار کرے اور حوصلہ دے۔

 اس کے لیے سہولتوں کے ساتھ تربیت اور ذہن سازی کی بھی ضرورت ہے۔

 معاشرے کے ساتھ، عورتوں کی بھی ذہن سازی حکومت کے منصوبوں کا حصہ ہونی چاہیے کیونکہ یہ صرف عورتوں کے رویوں کو بدلنے کا نہیں، بلکہ پورے معاشرے کی اصلاح کا معاملہ ہے، جہاں مرد و عورت کے حقوق مساوی ہوں ۔ یہ تبھی ہوگا جب عورت معاشرے کی کردار سازی میں اپنے کردار کو پہچانے گی۔۔۔مرد کی اجارہ داری اسی صورت  ختم ہوسکتی ہے جب خواتین گھر، خاندان اور سماج کی سطح پر ایک دوسرے کی معاون بنیں گی ۔ 

وزیرِاعلیٰ صاحبہ! اگر خواتین کو واقعی با اختیار بنانا چاہتی ہیں تو نئے منصوبوں کے ساتھ ساتھ ذہنی اور سماجی تربیتی پروگرام بھی شروع کیجیے۔ خاص طور پر خواتین کے لیے  تاکہ وہ ایک دوسرے کے لیے سہارا بننا سیکھیں ۔ تعلیمی اداروں میں ایسے مضامین شامل ہوں جو باہمی احترام اور ہمدردی کو فروغ دیں۔ میڈیا پر ایسے ڈرامے دکھائے جائیں جن میں عورت عورت کی طاقت بنے، زیبا النسا جیسے پرانے ڈراموں کی طرز پر  تربیتی کہانیاں ہوں، نہ کہ ساس بہو کی دشمنیاں۔

 اسی طرح خواتین رہنماؤں کے لیے تربیتی سیمینارز ہوں تاکہ ان کی اولین ترجیح عورتوں کو مضبوط کرنا ہو۔ اور یہ بھی ضروری ہے کہ ساسوں اور ماؤں کے لیے کورسز ہوں تاکہ وہ دوسروں کی بیٹی کا احساس کریں اور مردوں کو اچھا بھائی، اچھا شوہر اور ہر جگہ خواتین کی عزت کرنے والا انسان بننے کی تربیت دے سکیں۔ کیونکہ اگر یہ ذہن سازی نہ ہوئی تو پھر چاہے سکوٹیاں بانٹیں یا ترقی کے سو منصوبے، عورت گھروں میں ہو یا سڑکوں پر، یہاں تک کہ ڈراموں کی اسکرین پر بھی، تھپڑ ہی کھاتی رہے گی۔

اور ہم ویمن ایمپاورمنٹ کی اصل تصویر نہیں دیکھ سکیں گے۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے