آج کل سوشل میڈیا کی گلیوں میں ایک نیا لسانی تھانیدار آ نکلا ہے—ہاتھ میں املاء کی چھڑی، زبان پر ’یہ غلط ہے‘ کا وظیفہ، اور ہر دوسرے تیسرے بندے کو پکڑ پکڑ کر کہہ رہا ہے: ’صاحب! آپ نے انشاء اللہ ملا کر لکھ دیا؟ یہ تو دینی قباحت ہے!‘
اب بیچارے عام لوگ بھی اتنے ڈر گئے ہیں کہ جیسے کسی نے کہا ہو کہ ’چائے میں چینی ڈالنا بھی گناہ ہے!‘ اور مزے کی بات یہ ہے کہ اس تحریک کا جھنڈا سب سے پہلے سوشل میڈیا پر ڈاکٹر ذاکر نائک نے اٹھایا—اور پھر یہ پوسٹیں، کلپس اور فتوے اس رفتار سے وائرل ہوئے کہ جیسے شادی میں بریانی کی دیگ کھل گئی ہو۔
لیکن آؤ! ذرا اس داستان کو تاریخ اور لسانیات کی گلیوں میں لے چلتے ہیں—وہاں جہاں ابھی فیس بُک اور واٹس ایپ کا سایہ تک نہ تھا، مگر خطاطوں کی دواتیں چمکتی تھیں، نستعلیق کی قوسیں لہراتی تھیں، اور الفاظ کے جوڑ ایسے بنتے تھے کہ خود جمالیات بھی خوش ہو جاتی تھی۔
فارسی رسمالخط کا جادو
اردو کا خط نستعلیق براہِ راست فارسی کی گود میں پلا بڑھا۔ فارسی والوں کا قاعدہ یہ تھا کہ جمالیات (aesthetic) حاکمِ اعلیٰ ہوتی تھی، اور قواعد کا باریش ماموں اکثر دروازے کے باہر کھڑا رہ جاتا تھا۔
وہ جملوں اور ناموں کو ایسے جوڑ دیتے کہ بہاؤ بنے، روانی آئے، اور کاغذ پر نظر بھی بہل جائے۔
مثالیں دیکھو:
* "علی رضا” → "علیرضا”
* "گنج علی” → "گنجعلی”
* "ان شاء اللہ” → "انشاء اللہ”
بس! فارسی میں یہ ملا کر لکھنا خطاطی کا ذوق تھا، نحوی یا لغوی عدالت کا حکم نامہ نہیں۔ اور چونکہ اردو فارسی کی شاگردی میں بڑی ہوئی، تو اس نے بھی یہی عادت اپنا لی۔
اردو کا عربی املاء سے فاصلہ
جب عربی الفاظ اردو میں آئے، تو ان پر فارسی کا لحاف چڑھا دیا گیا۔ اسپیس (space) کا تصور بھی اتنا سخت نہ تھا۔ کتابت کرنے والے اکثر دو یا تین الفاظ کو ایسے جوڑ دیتے جیسے کوئی کباب اور نان کو ایک ہی پلیٹ میں رکھ دے—سب خوش!
خطاطی اور طباعت کے دَور کے قصے
پرانے زمانے میں، جب کاتبوں کے ہاتھ میں قلم اور دوات ہوتی تھی اور مطابع میں دھات کے حروف جمائے جاتے تھے، اُس وقت املاء کا جادو ’خوبصورتی‘کہلاتا تھا، ’سخت قاعدہ‘نہیں۔
کاتب چاہتا تھا کہ صفحہ دیکھنے والے کی آنکھ کو راحت ملے۔ تو وہ ’انشاءاللہ‘ کو ایک خوشنما اکائی بنا دیتا—بہاؤ میں، قوسوں میں، اور کبھی کبھی کاتب کی ذاتی شان میں بھی اضافہ ہو جاتا۔
یہ جمالیاتی compactness اتنی پسند کی جاتی تھی کہ بڑے بڑے علماء اور ادیب—مولانا اشرف علی تھانوی، مولانا مودودی، مولانا داؤد غزنوی—سب اس اسلوب میں لکھتے۔ اگر یہ واقعی گناہ ہوتا تو کیا آپ سوچ سکتے ہیں کہ ان پر سب سے پہلے فتویٰ نہ لگتا؟
اصل عربی قاعدہ اور معنی کا فرق
اب ذرا عربی رسمالخط کا اصول سنو:
* «إنشاء» کا مطلب "پیدا کرنا، تخلیق کرنا”
* «إن شاء» کا مطلب "اگر اللہ نے چاہا”
یعنی عربی میں اسپیس کا یہ فرق معنی بدل دیتا ہے۔ اس لیے جب قرآنِ مجید یا خالص عربی متن لکھا جاتا ہے تو جدا لکھنا لازم ہے۔ اور یہ قاعدہ ہمیشہ سے قرآنِ پاک کی کتابت (رسمِ عثمانی) میں قائم رہا۔
لیکن… یہی اصول اردو اور فارسی کی عام تحریر میں صدیوں تک سختی سے نافذ نہ تھا، کیونکہ وہاں یہ محض ایک رسمالخط کی روایت تھی، اعتقادی یا شرعی نہیں۔
سوشل میڈیا کا شور
آج کا قاعدہ یہ ہے کہ اگر آپ نے انشاء اللہ ملا کر لکھ دیا تو فیس بُک کے مفتی حضرات فوراً حاضر ہو جائیں گے:
’یہ گناہ ہے!‘
حالانکہ اگر یہ واقعی گناہ ہوتا تو برصغیر کے تمام بڑے علماء—جو عربی کے شہسوار اور دین کے امام تھے—اپنی تحریروں میں اسے کیوں لکھتے؟
یہ حضرات عربی کے قواعد پر بھی عبور رکھتے تھے، اور اپنی زبان کی جمالیات سے بھی محبت کرتے تھے۔ ان کے لیے یہ صرف ایک کتابتی اسلوب تھا، بس۔
خلاصہ کلام:
* ’انشاءاللہ‘ملا کر لکھنا فارسی/اردو خطاطی اور املاء کی پرانی روایت ہے۔
* یہ پرانے زمانے میں “غلط” نہیں سمجھا جاتا تھا۔
* عربی قاعدے کے مطابق “إن شاء اللہ” لکھنا خاص طور پر قرآنی و دینی متون میں درست ہے۔
* اردو و فارسی میں ملا کر لکھنے پر گناہ یا ثواب کا حکم لگانا علمی اور تاریخی انصاف کے خلاف ہے۔
تبصرہ کریں