روضہ رسول ﷺ

عشقِ رسول ﷺ: دعوے اور حقیقت

·

ربیع الاوّل کا مہینہ آتے ہی گلی کوچوں میں چراغاں، محفلِ میلاد، جلوس، نعت خوانی اور عشقِ رسول ﷺ کے نعرے بلند ہو جاتے ہیں۔ مسلمان گھروں کو جھنڈیوں سے سجاتے ہیں، سڑکوں پر برقی قمقمے لگائے جاتے ہیں، اور ہر زبان پر یہ الفاظ جاری ہوتے ہیں کہ ہم عاشقِ رسول ہیں۔

یقیناً حضور ﷺ سے محبت ایمان کا تقاضا ہے۔ مگر سوال یہ ہے کہ کیا یہ محبت محض چراغاں اور نعروں سے ثابت ہوتی ہے یا پھر سیرتِ رسول ﷺ پر عمل سے؟

حقیقت یہ ہے کہ آج ہماری قوم عشقِ رسول کے دعوے تو بلند کرتی ہے لیکن عملی زندگی میں اُس تعلیم سے اتنی ہی دور ہے جتنا مشرق مغرب سے۔ ہمارا کردار، ہمارا اجتماعی نظام، اور ہمارے قومی ادارے سب اس تضاد کی گواہی دیتے ہیں۔ آئیے! مختلف پہلوؤں سے اس حقیقت پر نظر ڈالیں۔

رسول اللہ ﷺ کی تعلیما ت میں ہے کہ ’ صفائی نصف ایمان ہے‘ ۔ مگر عملی حالت یہ ہے کہ ہمارے شہروں کی گلیاں، نالے اور سڑکیں کچرے کے ڈھیر سے اَٹی رہتی ہیں۔

Global Cleanliness Index 2024 کے مطابق پاکستان دنیا کے 180 ممالک میں 178 ویں نمبر پر ہے۔

Environmental Performance Index (EPI 2024) میں بھی پاکستان جنوبی ایشیا میں سب سے نچلے درجے پر ہے۔

یہ ہماری اجتماعی حالت کی اصل تصویر ہے۔  اور یہ ظاہری صفائی کی بات ہے جبکہ باطنی صفائی تو اس کے بعد کی بات ہے۔ اور اگر دیکھا جائے تو یہ ہمارے باطن کا ہی عکس ہے جو ہم اپنے ارد گرد بکھیر رہے ہوتے ہیں۔

ہم جلسوں میں پرجوش نعرے بازی کرتے ہیں کہ ’حرمت رسول پر جان بھی قربان ہے ‘  مگر ہم تعلیمات رسولﷺ  کے مطابق زندگی گزارنے پر تیا ر نہیں۔  مگر حضور ﷺ نے فرمایا:’جس شخص میں امانت نہیں اس کا ایمان ہی نہیں، اور جس شخص کا عہد نہیں اس کا کوئی دین ہی نہیں‘۔ مگرہماری حقیقت حال بہت ہی افسوسناک ہے۔

حقیقت دیکھیے:: Corruption Perceptions Index (CPI 2024)کے مطابق پاکستان 180 ممالک میں 135 ویں نمبر پر ہے۔پاکستان کا اسکور صرف 27/100 ہے، جو دنیا کے بدترین ممالک میں شمار ہوتا ہے۔

یہ ہے وہ تضاد جہاں ہم عشقِ رسول کا دعویٰ کرتے ہیں لیکن کرپشن میں ہمارا عمل اُمت کے دامن پر داغ بن چکا ہے۔

رسول اکرم ﷺ کی سیرت عدل و انصاف کا اعلیٰ ترین نمونہ ہے۔ آپ نے فرمایا: تم سے پہلی قومیں اس لیے تباہ ہوئیں کہ وہاں طاقتور کو معاف کر دیا جاتا تھا اور کمزور کو سزا دی جاتی تھی۔

World Justice Project Rule of Law Index 2024 کے مطابق پاکستان 142 ممالک میں سے 129 ویں نمبر پر ہے۔Order & Security کے شعبے میں ہم 140 ویں نمبر پر ہیں، یعنی دنیا کے سب سے بدتر ممالک میں۔

کیا یہ عدالتی نظام اس امت کے شایانِ شان ہے جو ’امام العادل‘ کو جنت کے سب سے اونچے درجے کا حقدار سمجھتی ہے؟ جس معاشرے میں عدل انصاف ناپید ہو وہ  انتشار اور بد امنی کا شکا ر ہو جاتا ہے۔ اور پاکستان میں انصاف کے لیے تو کہا جا تا ہے کہ عمرِ نوح اور قارون کا خزانہ چاہیے۔

حضور ﷺ نے فرمایا: علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد و عورت پر فرض ہے۔ مگر ہم تعلیم کے میدان میں کہاں کھڑے ہیں؟ اور وہ امت جس  کے لیے وحی کا آغاز ہی  ’اقرا‘ سے ہوا، اس امت میں علم او ر اس کی تڑپ کا حال یوں ہے کہ پاکستان کی مجموعی خواندگی کی شرح صرف 60–62٪ ہے۔

یونیسکو کے مطابق پاکستان دنیا میں اسکول سے باہر بچوں کی دوسری بلند ترین شرح رکھتا ہے: تقریباً 44٪ بچے اسکول سے باہر ہیں۔پڑوسی ممالک میں خواندگی کی شرح دیکھیے: انڈونیشیا 90٪، ملیشیا 89٪، جبکہ ہم محض 60٪ پر رکے ہوئے ہیں۔

کیا یہ امتِ ’اقْرَأْ‘کے شایانِ شان ہے؟

رسول ﷺ نے صحت کو سب سے بڑی نعمت قرار دیا: دو نعمتیں ایسی ہیں جن میں اکثر لوگ خسارہ کرتے ہیں: صحت اور فرصت۔ مگر ہمارے نظامِ صحت کا حال یہ ہے:

WHO Health System Performance Report کے مطابق پاکستان 190 ممالک میں سے 122 ویں نمبر پر ہے۔Healthcare Access & Quality Index میں پاکستان کا مقام 154/194 ہے۔ہمارے ہاں صرف 2.9٪ جی ڈی پی صحت پر خرچ ہوتا ہے، جو عالمی معیار سے بہت کم ہے۔

یہ اعدادوشمار بتاتے ہیں کہ ہم دعوے تو عشقِ رسول کے کرتے ہیں لیکن اپنے عوام کو بنیادی علاج جیسی سہولت بھی نہیں دیتے۔

یہ تمام حقائق ہمیں ایک ہی نکتہ سمجھاتے ہیں: عشقِ رسول کے دعوے جلوس اور چراغاں سے نہیں بلکہ عمل اور کردار سے ثابت ہوتے ہیں۔

 اگر ہم واقعی رسول اللہ ﷺ سے محبت کا دعویٰ کرتے ہیں تو ہمیں اپنی گلیوں کو صاف ستھرا رکھنا ہوگا تاکہ ’صفائی نصف ایمان‘ کا عملی ثبوت پیش کیا جا سکے۔ اسی طرح کرپشن کے خلاف جہاد کرنا ہوگا تاکہ دیانت و امانت کا بول بالا ہو اور ایک شفاف معاشرہ تشکیل پائے۔ عدل و انصاف کا قیام بھی ناگزیر ہے تاکہ ہمارے نظام میں حضور ﷺ کی سیرت جھلک سکے اور ہر فرد اپنے حق تک بآسانی پہنچ سکے۔ تعلیم کو عام کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے تاکہ ہر بچہ ’اقرأ‘ کی روشنی میں زندگی بسر کرے اور جہالت کے اندھیروں سے نکل سکے۔ اسی کے ساتھ صحت کی سہولتوں کو بہتر بنانا ہوگا تاکہ حضور ﷺ کی تعلیمات کے مطابق انسانوں کو راحت اور سہولت میسر ہو اور ایک متوازن و خوشحال معاشرہ وجود میں آئے۔

کیا صفائی  کی عادت اپنانے میں کوئی ’بیرونی مداخلت ‘ مانع ہے ۔ یا ’یہود  و نصاری  کی سازش‘؟  کیا سچ بولنے اور  جھوٹ سے پرہیز میں ’امریکی ہاتھ‘ ہے  جو  ہمیں ان سادہ سادہ عادات کو اپنانے سے روکتا ہے۔ کیا کرپشن کرنے پر ہمیں ’بیرون ملک کی خفیہ ایجنسیاں‘ اکساتی ہیں؟ کیا حفظان صحت کے سادہ سے اصول اپنانے میں ہمیں  کوئی ’عالمی ایجنڈا‘ روکتا ہے؟ 
حقیقت یہ ہے کہ آج ہمارے گرد گھٹا ٹوپ اندھیروں کا راج ہے اور ہر طرف جہالت نے اپنے ڈیرے ڈال رکھے ہیں۔ ہم زبانی دعووں اور محض باتوں سے حالات کو بہتر نہیں بنا سکتے، کیونکہ اندھیروں کو دور کرنے کے لیے چراغ جلانا پڑتا ہے۔ اگر ہمیں حقیقی روشنی اور ہدایت چاہیے تو ہمیں سیرتِ نبی ﷺ کو صرف بیان کرنے یا سننے تک محدود نہیں رکھنا چاہیے بلکہ اس پر عمل پیرا ہونا ہوگا۔

حضور ﷺ کی سیرت دراصل ایک عملی نمونہ ہے جو انسان کو اخلاق، عدل، محبت، اخوت اور خدمتِ خلق کے راستے پر لے جاتی ہے۔ جب تک ہم اپنی زندگیوں میں اس سیرت کو نافذ نہیں کرتے، ہمارے معاشرے سے اندھیروں کا خاتمہ ممکن نہیں۔

ربیع الاول کا پیغا م صرف جشن اور نعرے نہیں بلکہ ایک عملی دعوت ہے۔ حضور ﷺ نے ہمیں دکھایا کہ محبت کا اصل ثبوت اتباع ہے۔ آج ضرورت ہے کہ ہم نعرے بازی اور جلوسوں سے آگے بڑھ کر اپنے کردار اور اجتماعی نظام کو رسول اللہ ﷺ کی تعلیمات کے مطابق ڈھالیں۔

محبتِ رسول کا اصل امتحان یہ ہے کہ ہم اپنے اعمال کو حضور ﷺ کی سنت سے قریب کریں، ورنہ محض نعرے اور چراغاں ہمیں رب کے ہاں سرخرو نہیں کر سکتے۔آج اس بات پر لڑنے کی بجائے  میلاد منانا چاہیے یا نہیں  ہمیں سیرت النبی ﷺکو اپنانے کی بات کرنی چاہیے جس میں ہم سب  بہت پیچھے ہیں۔

بقول شاعر:   
تیرے حسنِ خلق کی اک نظر میری زندگی میں نہ مل سکی
میں اسی میں خوش ہوں کہ شہر کے در وبام کو تو سجا دیا

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے