تحریر: نواب علی مرتضیٰ خانجی، نواب آف جوناگڑھ اسٹیٹ
2025 جنوبی ایشیا اور خصوصاً پاکستان کے لیے ایک فیصلہ کن سال کے طور پر سامنے آیا ہے۔ یہ خطہ ایک بار پھر عالمی سیاست کے بڑے دھارے کا حصہ بن چکا ہے اوردنیا کی بدلتی طاقتوں کی کشمکش نے اسے مزید اہم بنا دیا ہے۔ امریکا اور بھارت کے تعلقات میں پہلگام واقعے کے بعد واضح تناؤ پیدا ہوا ہے جبکہ اس صورتحال میں امریکا کا پاکستان پہ اعتماد پیدا ہوا ہے اور دونوں ممالک ایک دوسرے کے قریب آئے ہیں۔
یہی نہیں گزشتہ کچھ سال سے کینیڈا اور امریکا میں بھارت کے خفیہ آپریشن بے نقاب ہونے پہ بھی مغربی ممالک کے سامنے بھارت کا شدت پسندانہ چہرہ واضح ہوا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ واشنگٹن کی تجارتی پالیسیوں اور سخت ٹیرف نے نئی دہلی کے لیے مشکلات پیدا کیں، جبکہ عسکری تعاون میں بھی رکاوٹیں سامنے آئیں۔
اس تناظر میں بھارت اپنی خارجہ پالیسی کو نئے سرے سے ترتیب دینے پر مجبور ہے، لیکن آج داخلی سیاسی دباؤ اور بیرونی محاذ پہ بڑھتی ہوئی تنہائی اس کے لیے ایک بڑا چیلنج بن چکی ہے۔
دوسری طرف چین اور روس نے باہمی تعلقات کو نئی جہت دی ہے۔ جس کا اندازہ ہم حال ہی میں چین کے شہر تیانجن میں شنگھائی تعاون تنظیم کے 25 ویں سربراہی اجلاس کے موقع پر ہونے والی گفتگو سے لگا سکتے ہیں۔
چین اور روس سمیت ہم خیال ممالک کے مابین معاشی شراکت داری کے ساتھ ساتھ دفاعی تعاون اور توانائی کے منصوبے اس شراکت داری کو مزید مضبوط کر رہے ہیں۔ یہ قربت نہ صرف وسطی ایشیا بلکہ جنوبی ایشیا کے تزویراتی ماحول پر بھی اثر انداز ہو رہی ہے۔ بیجنگ اور ماسکو کی ہم خطے میں ایک بڑے بلاک کی شکل اختیار کر رہی ہے، جو مغربی اثر و رسوخ کو محدود کرنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔
ایسے حالات میں پاکستان کے لیے موقع بھی پیدا ہوا ہے جس کی وجہ سے وہ مغربی اور مشرقی طاقتوں کے ساتھ اپنی سفارت کاری کو متوازن رکھنے میں کامیاب ہو رہا ہے اور نتیجتاً خطے میں استحکام کا ضامن بن رہا ہے ۔
پہلگام واقعے کے بعد خطے میں پیدا ہونے والی کشیدگی نے ایک بار پھر دنیا کی توجہ اس حصے پر مرکوز کر دی۔ تاہم اس بار پاکستان نے نہ صرف اپنی سرزمین کا کامیاب دفاع کیا بلکہ عالمی برادری میں ایک بار پھر اپنی حیثیت منوائی۔
پاکستانی افواج نے آپریشن بنیان مرصوص اور بعد ازاں آپریشن معرکہ حق میں جس مہارت، نظم و ضبط اور حکمتِ عملی کا مظاہرہ کیا، اس نے یہ واضح کر دیا کہ پاکستان اب محض ایک دفاعی قوت نہیں بلکہ خطے میں طاقت کا توازن بھی قائم کر رہا ہے۔ یہ آپریشنز کم سے کم وقت اور کم سے کم نقصان کے ساتھ مکمل ہوئے اور ان آپریشنز نے ایک نئی دفاعی روایت قائم کی۔
خطے کے تناظر میں یہ کامیابیاں اس وقت سامنے آئیں جب دنیا معاشی اور سیاسی بحرانوں سے دوچار تھی۔ امریکا کی جانب سے عائد کیے گئے بھاری ٹیرف نے بھارت سمیت بیشتر ممالک کی معیشت کو مشکلات سے دوچار کیا، لیکن پاکستان نے اس صورتحال کو ایک موقع میں بدل دیا۔ نہ صرف امریکا کے ساتھ تجارتی تعلقات کو بہتر بنایا بلکہ ٹیرف میں نرمی حاصل کر کے خطے کے دیگر ممالک کے لیے بھی ایک مثال قائم کی۔
اسی دوران، پاکستان کے سفارتی محاذ پر بھی اہم کامیابیاں سامنے آئیں۔ چین اور امریکا جیسی بڑی طاقتوں کے ساتھ بیک وقت بہتر تعلقات رکھنا عالمی تناظر میں ایک مشکل امر سمجھا جاتا رہا ہے، لیکن اسلام آباد نے متوازن سفارت کاری کے ذریعے یہ ہدف حاصل کیا۔ امریکی قیادت نے بھی پاکستان کے کردار کو سراہا، یہاں تک کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کے اعزاز میں ایک خصوصی لنچ دیا۔ یہ واقعہ پاکستان اور امریکا کے تعلقات میں ایک نئی گرم جوشی کی علامت قرار دیا جا رہا ہے۔
ایران کی حالیہ جنگ میں بھی پاکستان نے حقیقت پسندانہ پالیسی سے نہ صرف خطے میں اپنی ساکھ کو بہتر کیا بلکہ ایران کی جانب سے بھی پذیرائی حاصل کی۔ یہ وہ وقت تھا جب پاکستان کو داخلی طور پر سیاسی دباؤ اور معاشی مشکلات کا سامنا تھا، لیکن بروقت فیصلوں اور مربوط حکمتِ عملی نے صورتحال کو سنبھال لیا۔
دہشتگردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے کردار کو بھی عالمی سطح پر تسلیم کیا جا رہا ہے۔ اگرچہ ماضی میں اس جنگ نے ملک کو شدید مشکلات سے دوچار کیا، لیکن اب یہ کردار ایک مثبت رخ اختیار کر چکا ہے جہاں پاکستان کو بطور ’حل فراہم کرنے والے ملک‘ دیکھا جا رہا ہے۔یہ تمام کامیابیاں ظاہر کرتی ہیں کہ پاکستان کے ریاستی اداروں کی ہم آہنگی، سول و عسکری قیادت کے درمیان تعاون، قومی اتفاقِ رائے اور سفارت کاری میں تسلسل نے پاکستان کو عالمی نقشے پر ایک نئی جگہ دلائی ہے۔ اس میں بلا شبہ فیلڈ مارشل جنرل عاصم منیر کی سوچ اور تدبر کا اہم کردار ہے،اور در اصل یہ کامیابی پوری ریاست اور عوام کے اتحاد کی ہے۔
پاکستان آج صرف ایک دفاعی طاقت نہیں بلکہ ایک ایسی ریاست کے طور پر سامنے آ رہا ہے جو خطے میں استحکام، امن اور ترقی کے لیے مرکزی کردار ادا کر سکتی ہے۔ 2025 کا سال اس لحاظ سے ایک سنگ میل ہے کہ پاکستان نے نہ صرف اپنی داخلی خوداعتمادی بحال کی بلکہ دنیا کو بھی یہ باور کرا دیا کہ یہ خطے کا مستقبل سنوارنے میں کلیدی کردار ادا کر سکتا ہے۔
تبصرہ کریں