میں نے کھڑکی کا پردہ ہٹا کے باہر دیکھا، نیچے گلی میں دس پندرہ لڑکے نعرے لگاتے جا رہے تھے: ’سرکار کی آمد مرحبا، دلدار کی آمد مرحبا۔۔۔‘
تھوڑی دیر بعد گھنٹی بجی۔ دودھ والا آیا تھا۔ میں نے کہا، آج تو عہد کر لو کہ دودھ میں پانی نہیں ملایا کرو گے۔ کل خدا کی عدالت میں کیسے حساب دو گے ؟کہنے لگا:
’باجی! ملاوٹ کے بغیر پوری نہیں پڑتی اور ہم آقا کا میلاد مناتے ہیں نا، آقا خود ہمارے گناہ بخشوا کے پل صراط سے گزار لے جائیں گے۔۔۔‘
یہ کہا اور نعرہ لگاتے چلتا بنا:
’سرکار کی آمد مرحبا، دلدار کی آمد مرحبا۔۔۔۔‘
جی ہاں! گزشتہ روز امت مرحوم نے اپنے نبی کا پندرہ سو سالہ جشن میلاد منایا۔ میٹھا پکایا، طرح طرح کے کھانے بنائے۔ ہر طرف عید کا سا سماں تھا۔
دوسری طرف اس نبی کا انکار کرنے والے تماشہ دیکھ رہے تھے کہ اس امت سے موسم خفا ہو گئے، فضاؤں کے تیور پہلے سے نہیں رہے، بہاروں نے راستہ بدل لیا ۔آسمان ان پر پھٹ رہا ہے، زمین ان کے بوجھ سے ایک مہینے میں کئی کئی بار لرز اٹھتی ہے۔ ان کے قبلہ اوّل کی توہین دشمن کے ناپاک قدموں سے ہر روز ہوتی ہے۔ وہ وہاں بچوں، بوڑھوں، عورتوں، جوانوں سبھی کو گاجر مولی کی طرح کاٹ کاٹ کے پھینکا جا رہا ہے۔۔۔۔
خنزیر کا گوشت کھانے والے، سود کے شکنجے میں دنیا کو دبانے والے ان کے سارے سرمائے پہ حق ملکیت جمائے بیٹھے ہیں ۔گائے کی پوجا کرنے والے ان کے پانیوں کے مالک بنے پھرتے ہیں، جب چاہیں روک لیں جب چاہیں چھوڑ دیں۔ ان کی زراعت تباہ، ان کی صنعتیں مفلوج۔۔۔ ہاں! اسی امت نے پندرہ سو سالہ جشن میلاد النبی ﷺ منایا۔
اور ہاں! امت بھی کہاں رہ گئی، یہ تو مختلف قوموں کا مجموعہ ہے۔۔۔۔ پاکستانی قوم، عربی قوم، انڈونیشین قوم، ترک قوم، ایرانی قوم وغیرہ وغیرہ۔۔ ہاں! انہی قوموں کے مجموعہ نے حامل قرآن کا میلاد منایا۔ سرکاری سطح پہ بھی اور عوامی سطح پہ بھی۔۔۔
تو اپنی قوم سے پوچھنا چاہیں گے ہم کہ–
عزیزو ! جشن کے دوران اور عید کے روز تحفے تحائف بھی ہوتے ہیں تو ہے کوئی تحفہ جو نبی کے لیے تیار ہے؟؟
نبی ﷺ تو اتنا بڑا تحفہ قرآن کی صورت تمھیں دے گئے۔۔۔۔۔
یاد ہے نا! اس قرآن نے تمھیں پستیوں سے نکال کر سربلند کر دیا تھا ۔دنیا کی دولت تمھارے قدموں میں ڈال دی گئی تھی۔ علم و فن، زراعت و صنعت، طب و جراحت سب کچھ کا مالک بنا دیا تھا۔ مگر آج اس کتاب کے ساتھ تمھارا معاملہ کیا ہے، ایک حساس شاعر نے بتا دیا
*قرآن کی فریاد*
طاقوں میں سجایا جاتا ہوں
آنکھوں سے لگایا جاتا ہوں
تعویذ بنایا جاتا ہوں، دھو دھو کے پلایا جاتا ہوں
جزدان حریر و ریشم کے اور پھول ستارے چاندی کے
پھر عطر کی بارش ہوتی ہے، خوشبو میں بسایا جاتا ہوں
جس طرح سے طوطا مینا کو کچھ بول سکھائے جاتے ہیں
اس طرح پڑھایا جاتا ہوں اس طرح سکھایا جاتا ہوں
جب قول و قسم لینے کے لیے تکرار کی نوبت آتی ہے
پھر میری ضرورت پڑتی ہے ہاتھوں پہ اٹھایا جاتا ہوں
دل سوز سے خالی رہتے ہیں آنکھیں ہیں کہ نم ہوتی ہی نہیں
کہنے کو میں اک ایک جلسے میں پڑھ پڑھ کے سنایا جاتا ہوں
نیکی پہ بدی کا غلبہ ہے سچائی سے بڑھ کر دھوکہ ہے
اک بار ہنسایا جاتا ہوں سو بار رلایا جاتا ہوں
یہ مجھ سے عقیدت کے دعوے قانون پہ راضی غیروں کے
یوں بھی مجھے رسوا کرتے ہیں ایسے بھی ستایا جاتا ہوں
کس بزم میں مجھ کو بار نہیں کس عرس میں میری دھوم نہیں
پھر بھی میں اکیلا رہتا ہوں مجھ سا بھی کوئی مظلوم نہیں
(ماہر القادری رحمہ اللہ)
تو ہے کوئی۔۔۔۔؟؟؟؟
ارے۔۔۔۔ سنو!
جو وقت کی آواز سنے۔
ہے کوئی ؟جو مظلوم قرآن کی دکھ بھری صدا دل کے کانوں سے سن لے۔۔۔۔؟
تبصرہ کریں