خوفزدہ آنکھ جو بھڑکتی ہوئی آگ دیکھ رہی ہے

نبی اکرم ﷺکی شفاعت

·

مسلمانوں میں’شفاعت‘ کا تصور بہت خوش آئند خوش کن ہے، بڑے،چھوٹے، خواتین وحضرات سب شفاعت کی امید پہ جی رہے ہیں اور شفاعت کی امید پر اپنے گناہوں میں اضافہ کرتے چلے جاتے ہیں اور کوئی کمی کرنا ضروری نہیں سمجھتے۔ بے شک شفاعت رسول ﷺ کا ملنا نعمت عظمیٰ ہے۔ وہ بہت ہی خوش بخت ہوگا جس کو حضورؐ کی طرف سے سفارش نصیب ہو جائے۔

سفارش کرنا،کسی کی محنت، کوشش، عبادت وعمل،اطاعت گزاری میں بشری و انسانی کمزوریوں کی بنا پر کوئی جھول رہ جائے تو اس پر مواخذہ نہ کرنے کی درخواست کرنا، کسی کمی،کوتاہی، خطا،غلطی پر چشم پوشی کرنے اور درگزر کرنے کی درخواست کرنا…رعایت دلانا  ہے ۔ مثلاً کامیاب ہونے کے لیے اگرکسی پرچے میں چالیس نمبر درکار ہیں…امتحان دینے والے نے ایک یا دو نمبرکم حاصل کیے۔ اس کوایک دو نمبر کسی کی سفارش اور توجہ سے حاصل ہو جائیں تو وہ رعایتی طور پر کامیاب قرار پائے گا۔

گویاکہ رعایتی نمبر لینے، سفارش کروانے، شفاعت حاصل کرنے کے لیے انتالیس نمبر لینے کی شرط تو پوری کرنا ہی پڑے گی۔

یا پھر زیادہ مضامین میں کامیابی شاندار ہے مگر کسی ایک پرچے کا امتحان قابل قبول عذر کی بنا پر دیا ہی نہیں جا سکا  تو باقی مضامین کی شاندار کامیابی کو دیکھتے ہوئے اس ایک مضمون کی ناکامی سے صرف نظر کرلیا جائے۔ کسی کی سفارش پر اسی طرح زندگی کے بہت سے مرحلے ایسے ہوتے ہیں جہاں سفارش اسلامی نقطہ نظر سے بھی جائز ہوتی ہے۔

پوری زندگی ایک امتحان ہے اور اس میں بے شمار پرچے ہیں۔ کسی بھی انسان کے لیے سو فیصد نمبر حاصل کرنا ممکن نہیں ہے۔اللہ تعالیٰ کی رحمت واسعہ ہی ہر مسلمان کی اخروی کامیابی پر آخری دلیل ہے۔

قرآن پاک میں متعدد مقامات پر شفاعت کی وضاحت فرمائی گئی ہے۔

ڈرواس دن سے جب کوئی کسی کے ذرا کام نہ آئے گا، نہ کسی سے فدیہ قبول کیا جائے گا۔ نہ کوئی سفارش ہی آدمی کو فائدہ دے گی۔نہ مجرموں کو کہیں سے کوئی مدد پہنچ سکے گی۔‘‘ (بقرہ۲:۱۲

’’کون ہے؟جو اس(اللہ تعالیٰ) کی جناب میں اس کی اجازت کے بغیر سفارش کرسکے؟(سورہ البقرہ ٢٥٥

اپنے کرتوتوں کی وجہ سے گرفتار ہوکر آنے والے کا حال یہ ہوگا کہ اللہ تعالیٰ سے بچانے والا کوئی حامی و مددگار اور کوئی شفاعت کرانے والا نہ پائے گا‘‘۔(انعام۷۰

اور اللہ تعالی فرمائے گا

جو کچھ ہم نے تمہیں دنیا میں دیا تھا، وہ سب تم پیچھے چھوڑ آئے  ہو۔ اب تو ہم تمہارے ساتھ  ان سفارشیوں کو بھی نہیں دیکھتے جن کے متعلق تم زعم رکھتے تھے کہ تمہارے کام بنانے میں ان کا کوئی حصہ ہے۔ کوئی شفاعت کرنے والا نہیں الایہ کہ اس(اللہ تعالیٰ)کی اجازت کے بعد شفاعت سفارش) کرے‘‘۔ یونس۳)

گویاکہ شفاعت کرنے کا دارومدار ہر گز کسی کی اپنی مرضی کے مطابق نہ ہوگا۔آخرت میں صرف وہی شفاعت کرے گا جس کو اللہ تعالیٰ اجازت دے۔

اس روز شفاعت کارگرنہ ہوگی

 الایہ کہ کسی کو رحمان اس کی اجازت دے اور اس کی بات سننا پسند کرے۔‘‘(طٰہٰ ۱۰۹)۔

اس کے بعد والی آیت مزید وضاحت کرتی ہے کہ سفارش کرنے والوں کو کیا علم کہ جس کی سفارش کی جا رہی ہے اس کا درحقیقت کچا چٹھہ کیا ہے؟ وہ(اللہ تعالیٰ) لوگوں کا اگلا پچھلا سب حال جانتا ہے اور دوسروں کو اس کا پورا علم نہیں ہے۔‘‘(طٰہٰ ۱۱۰)۔

درحقیقت اسی کے لیے شفاعت کی جاسکے گی جس کے بارے میں اللہ تعالیٰ اذن فرمائیں گے۔

وہ سفارش نہیں کرتے بجز اس کے جس کے حق میں سفارش سننے پہ اللہ تعالیٰ راضی ہو۔(انبیاء ۲۸)۔

اس دن فیصلے کا آخری اختیار اللہ تعالیٰ کے پاس ہوگا‘‘۔(الانفطار)

اس طرح کی اور متعدد آیات ہیں جن کا لب لباب یہی ہے کہ فیصلے کے دن سفارش ان کے حق میں قبول کی جائے گی جن کے بار ے میں اللہ تعالیٰ اپنے علم اور حکمت کے مطابق اجازت دیں گے۔

جیسا کہ آیات الٰہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ شفاعت کرنے کی ہر کسی کو اجازت نہ ہوگی۔ یہ بھی اللہ تعالیٰ اپنی منشا کے مطابق اجازت مرحمت فرمائیں گے، ہر شفاعت قبول نہیں ہوگی۔ حضرت نوح کی سفارش اپنے بیٹے کے لیے ناقابل قبول تھی…خود حضوراکرمؐ کی دعائے مغفرت(جو کہ ایک درخواست ہے رحمت کے لیے)منافقین کے لیے قبول نہ کی گئی۔

 اے نبیؐ! اگر تم ستر مرتبہ بھی منافقین کے لیے د عائے مغفرت کرو تو اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا‘‘۔ توبہ۸۰)

گویا منافقت کے ساتھ فیصلے کے دن حاضر ہونے والا شفاعت کاحق دار نہ ہوگا۔ اللہ تعالیٰ حق بات کو قبول کرتا ہے اور حق کے مطابق فیصلے نافذ فرماتا ہے۔ ظلم، حق تلفی یا بے انصافی اللہ تعالیٰ کا شیوہ نہیں ہے تو وہ ظالم، نافرمان، بے انصاف کی شفاعت کا اذن کیسے دے سکتا ہے؟ ذرا اس کا تصور شعور کے ساتھ اجاگر کرکے غور کریں۔

کیاحال ہوگا؟ حشر کا میدان اپنی پوری حشر سامانیوں کے ساتھ لوگوں کی گزری زندگی کو آشکار کررہا ہوگا…جب آنکھیں پتھرائی ہوئی ہوں گی۔ سر ’حیی وقیوم‘ کے آگے جھکے ہوں گے۔ کلیجے منہ کو آرہے ہوں گے…آفتاب سوانیزے پر ہوگا…آسمان سے چمکنے والی بجلیاں اور خوفناک آوازیں سنائی دیں گی…آفتاب کی گرمی کی وجہ سے تمام لوگوں سے جسموں سے پسینہ جاری ہوجائے گا۔ انبیاء، صدیقین اور نیک بخت مومنوں کے تو صرف تلوے ترہوں گے۔ عام مومنوں کے ٹخنے، پنڈلی،زانو، کمر،سینہ، گردن تک، برے اعمال کے موافق پسینہ چڑھ جائے گا…کفار، منہ اور کانوں تک پسینہ میں ڈوب جائیں گے۔ایک طویل مدت اسی عالم حیرانی میں گزرجائے گی… بالآخر مجبور ہوکر لوگ سفارش کرنے والوں کو تلاش کریں گے۔ ہراولوالعزم نبی و رسول اپنے رب کی شوکت وہبیت اور جلال کے سامنے حاضر ہونے اور شفاعت کرنے کی ہمت نہ پائیں گے۔ بخاری شریف میں اس طویل حدیث کے آخر میں درج ہے کہ:

’حضور اکرم ﷺ نے فرمایا: پھر سب جمع ہوکر میرے پاس آئیں گے میں اپنے پروردگار کے سامنے اللہ کے اذن سے سجدے میں گر پڑوں گا۔ جب تک اللہ تعالیٰ کو منظور ہوگا وہ مجھے سجدے میں ہی رہنے دے گا… پھر میرا رب مجھے اٹھنے کا حکم دے گا اور اجازت دے گا کہ میں درخواست پیش کروں۔ پھرجس کے بارے میں اللہ تعالیٰ چاہے گا میں اس کی سفارش کروں گا۔ سفارش کرنے کی ایک مخصوص حد ہوگی۔ میں اس سے زیادہ کی سفارش اپنے دل اور زبان سے نہ کہہ سکوں گا۔

ان ساری طویل احادیث سے جو بات اظہر من الشمس ہے وہ یہ کس کی سفارش کرنا ہے۔ یہ اللہ تعالیٰ خود حضور اکرم ﷺ کے دل میں القا کریں گے۔ کیونکہ اللہ تعالیٰ ہی جانتے ہیں کہ کون اس کا حق دارہے اور کس ترتیب سے سفارش کی باری آنا مناسب ہے۔

اللہ تعالیٰ اپنے محبوب کو مقام محمود(مقام شفاعت) پہ فائز کیا اس کی وجہ یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ اپنے بندے اور رسولؐ کی اپنی امت سے محبت کی قدر کرتا ہے۔ جب سارے انبیاء بھی’’نفسی،نفسی‘‘کے عالم حیرت میں گم ہو ں گے۔ ہمارے نبیؐ اور رسولؐ اور اپنی امت کی فکر میں پریشان فکر مند ہوں گے۔

ہر فرد اپنا نام لے کر خود کو کٹہرے میں کھڑا کرے اوراپنے پیارے نبیؐ کی محبت  اور ان سے اپنی محبت کے دعوے کا موازنہ کرے۔

ہم سب کلمہ گو بہنوں کواس بات پر غور کرنا چاہیے کہ اگر ہمیں اپنی اولاد کی طرف سے لیاقت، صلاحیت، اعلیٰ کارکردگی اور نمایاں پوزیشن حاصل کرنے پر خوشی ہوتی ہے۔ ان کی فرماں برداری، اطاعت، شرافت و تہذیب، ہماری نیک نامی کا باعث بنتی ہے۔ ادارے اور ملک کے سربراہ کی طرف سے مبارک بادی کے پیغامات آتے ہیں۔ اولاد کو اسکالر شپ، میڈل اور ایوارڈ ملتے ہیں تو ہمیں ان والدین کی قسمت پر رونا آتا ہے جو نالائق، غیر مہذب، آوارہ، نافرمان اولادوں کی وجہ سے ندامت وشرمندگی کے بحر میں غوطے کھارہے ہوتے ہیں اور ادارے کے سربراہ کو راضی کرنے کے لیے کسی نہ کسی سفارش کے ذریعے سے اپنی اولاد و ترقی و کامیابی کے زینے پر دیکھنا چاہتے ہیں اور اپنی محبت، محنت خلوص کی ناقدری پہ دل گرفتار ہوتے ہیں اور اذیت کا شکار بھی ہوتے ہیں۔

کیا ہم فرماں بردار ہو کر اپنے نبی کا دل خوش کرنے کے لیے امتیوں میں شامل ہیں یا پھر نبی کو دل گرفتہ کرنے والے، اذیت دینے والے، نافرمان امتیوں میں شمار ہوتے ہیں پھر بھی تمنا شفاعت کی ہوتی ہے۔ کیا یہ مناسب رویہ ہے؟

کیا ہم اتنے نمبر حاصل کرنے کی بھی سعی کررہے ہیں کہ رعایتی نمبروں سے پاس ہونے کی امید بندھ جائے۔

یا پھر ہم دین میں اپنی مرضی کے پیوند لگا کر اللہ تعالیٰ کے محبوب کو اذیت دے رہے ہیں۔’’بدعات‘‘ کے ذریعہ خود کو حضورؐ کی شفاعت سے دور اور محبت سے محروم کرتے جارہے ہیں۔

ذرا حوض کوثر کا وہ نظارہ یاد کیجیے جب کچھ لوگوں کو حوض کوثر کے قریب آنے سے منع کیا جائے گا۔ صرف اس وجہ سے انہوں نے دین میں نئی نئی چیزیں ایجاد کرلی تھیں۔ بحوالہ حدیث بخاری و مسلم

 آب کوثر پینا تو شفاعت کی گارنٹی ہے جو اس کو پیے گا کامیاب قرار پائے گا۔

پھر ذرا وہ وقت بھی تصور میں لائیے جب خود حضوراکرمؐ فرما رہے ہوں گے اپنے رب سے کچھ لوگوں کی طرف اشارہ کرکے۔

اے میرے رب! یہ وہ لوگ ہیں جنہوں نے میرے بعد قرآن کو چھوڑ چھاڑ دیا تھا۔ (محض کھیل بنالیا تھا)۔

ابھی بھی وقت ہے…وہ نامرادی ابھی  ہمارا مقصدر نہیں بنی ہے ابھی مقدر سنوارنے کی مہلت موجود ہے۔

آئیے! شفاعت کی یقینی گارنٹی کا طریقہ قرآن سے اخذ کریں۔ خاص کر خواتین کے لیے جو طریقہ بتایا گیا، سورہ الممتحنہ میں ہے۔

٭٭٭

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے