ظفر عالم چیمہ

نیا عالمی نظام یا تیسری عالمی جنگ؟

·

دنیا ایک بار پھر ایک نئے موڑ پر کھڑی ہے۔ یوکرین سے مشرق وسطیٰ تک، اور یورپ کے ایوانوں سے امریکی پالیسی سازوں تک ہر جگہ ایک ہی سوال ہے: کیا طاقت کا توازن بدلنے والا ہے یا دنیا تیسری عالمی جنگ میں دھکیل دی جائے گی؟

یوکرین کے محاذ پر امریکا نے حال ہی میں یوکرین کو 1.6 ارب ڈالر کے جدید ہتھیار فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، جن میں ایسے میزائل بھی شامل ہیں جو روس کے اندر تک نشانہ لگا سکتے ہیں۔

یہ فیصلہ یورپ کے دباؤ پر لیا گیا، جس کا مقصد روس کو گھٹنے ٹیکنے پر مجبور کرنا ہے، لیکن اس کے نقصانات زیادہ خطرناک ہیں۔ روس کا سخت ردعمل، یورپی شہروں تک جنگ کا پھیلاؤ، اور توانائی کے بحران کی نئی لہر ان میں شامل ہیں۔

مشرق وسطیٰ بھی سکون میں نہیں ہے۔ اسرائیل ایران پر حملے کی تیاری کر رہا ہے، جبکہ امریکا عراق اور شام سے فوجی انخلا کی منصوبہ بندی کر رہا ہے۔ اگر براہِ راست تصادم ہوا تو پورا خطہ جھلس سکتا ہے، تیل کی قیمتیں آسمان کو چھو سکتی ہیں، اور اس طرح عالمی معیشت متاثر ہوگی۔

اس وقت یورپ ایک بڑے مخمصے کا شکار ہے۔ ایک طبقہ کہتا ہے کہ اصل دشمن مسلمان ہیں، دوسرا گروہ روس کو سب سے بڑا خطرہ سمجھتا ہے، جبکہ امریکی تھنک ٹینکس چین کو اصل حریف قرار دیتے ہیں۔ یہ اختلاف مغرب کی کمزوری کی علامت ہے۔ اگر یورپ متحد نہ رہا تو اس کی سلامتی بھی خطرے میں پڑ سکتی ہے۔

اصل کھیل دراصل قوموں کے درمیان نہیں بلکہ طاقتور کارپوریشنز، اسلحہ ساز اداروں اور بینکروں کی جنگ ہے، جن کے لیے ہر محاذ منافع بخش ہے۔ عام انسان، چاہے وہ یوکرین کا ہو، فلسطین کا ہو یا شام کا، صرف اس مشینری کا ایندھن ہے۔

بحران کے اس دوران ہندوستان اور چین کے تعلقات بہتر ہو رہے ہیں، جیسے مودی کے حالیہ دورے سے ظاہر ہوا۔ دونوں ممالک نے ویزے اور پروازیں کھول دی ہیں، جو ایک مثبت پیش رفت ہے۔ پاکستان کو اس سے کوئی خطرہ نہیں کیونکہ چین اور پاکستان کے تعلقات بہت گہرے ہیں، اور بھارت اور چین کے درمیان خلیج ابھی باقی ہے۔

ان دوستوں کو بھی نظر ثانی کرنی چاہیے جو امریکی ورلڈ آرڈر کو چین کے ساتھ جوڑ رہے تھے۔ امریکا نے مشرق وسطیٰ کو تباہ کیا، ممالک پر پابندیاں لگائیں، اور چین سے لے کر وینیزویلا تک عسکری دباؤ بڑھایا۔

دوسری جانب، چین مختلف ممالک کو قریب لانے کی کوشش کر رہا ہے۔ سعودی عرب اور ایران کے درمیان سفارت کاری، فلسطینی گروہوں کو بیجنگ میں جوڑنا، اور خطے کے سربراہان کے یکجا ہونے کے اقدامات اس کا ثبوت ہیں۔

انسانی تاریخ بتاتی ہے کہ یہ راستہ سیدھا نہیں ہے۔ دنیا بھر میں جابرانہ حکومتیں قائم ہیں اور اندرونی مزاحمت بھی جاری ہے۔

جرمن فلسفی ہیگل کے مطابق، تاریخ بعض اوقات سیاسی قوتوں کے شعوری بیانیے کے مخالف بھی کام کرتی ہے، جسے وہ "Cunning of History” کہتے ہیں۔

برکس کا پھیلاؤ مغرب کے ڈالر پر انحصار کو چیلنج کر رہا ہے۔ شنگھائی تعاون تنظیم نئی سیاسی اور عسکری طاقت بن رہی ہے اور مسلم ممالک بھی بتدریج چین اور روس کے قریب آ رہے ہیں۔ یہ سب ایک کثیر قطبی دنیا کی طرف اشارہ ہیں، جہاں واشنگٹن یا برسلز اکیلے فیصلہ ساز نہیں ہوں گے۔

اگر جنگ پھیل گئی تو عالمی معیشت بیٹھ جائے گی، خوراک اور ایندھن مہنگے ہوں گے اور غریب ممالک سب سے زیادہ متاثر ہوں گے۔ اگر دنیا نے ملٹی پولر نظام کو قبول کر لیا تو مغربی اجارہ داری ختم ہوگی، عالمی تجارت میں توازن آئے گا اور بڑی جنگ کا خطرہ کم ہوگا۔

وقت اب فیصلہ کن ہے۔ یا تو ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکا مل کر ایک نیا عالمی توازن قائم کریں گے، یا سرمایہ دار طبقہ اور اسلحہ ساز ادارے دنیا کو ایک اور بڑی جنگ کی آگ میں دھکیل دیں گے۔ دنیا کا مستقبل توپ و تفنگ سے نہیں بلکہ عقل، علم اور اتحاد سے طے ہوگا۔ انسانیت اب گلوبل ویلج اور AI کے دور میں داخل ہو چکی ہے۔ یا تو سب مل کر ابھریں گے یا سب مل کر تباہ ہوں گے۔ تاریخ خون، آنسو اور راکھ کے سوا کچھ نہیں چھوڑے گی۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے