عظمیٰ پروین ۔لاہور
ولاتقربواالزنی انہ کان فاحشہ وساء سبیلا۔
زنا کے قریب نہ پھٹکو۔ وہ بہت برا فعل ہے اور بڑا ہی برا راستہ (الاسرا ، ٣٢)
کس قدرحکمت اور شفقت سے میرے رب نے اس گھناؤنے جرم سے روکا ہے جس کا تصور بھی فطرت سلیمہ پر بار ہے۔ آیت کی جامعیت اور گہرائی خودہی منہ بولتا ثبوت ہے اس بات کا کہ ایسا بہترین کلام رب العالمین ہی کو زیب دیتا ہے۔ سچی بات تو یہ ہے کہ جنسی خواہش کی غلیظ انداز میں تکمیل کےلیے اس راہ کو اپنانے والا مقام حیوانیت سے بھی گر جاتا ہے۔ دائمی مجرم کے لیے تو اسفل السافلین ہی کے الفاظ موزوں ہو سکتے ہیں۔
گھناؤنا جرم :
آیت زیر نظر میں زنا کا تذکرہ قتل اولاد اور قتل نفس کے احکامات کے درمیان کیا گیا ہے۔ سورہ فرقان میں شرک قتل اور زنا کا ایک ساتھ ذکر کیا گیا ہے۔ دراصل عقیدے اور ایمان کی خرابی کی بدولت محض مذہبی مراسم کی ادائیگی میں کمزوری نہیں آتی بلکہ سوسائٹی کااجتماعی نظام بھی خراب ہو جاتاہے۔ افراد کو زنا کی ازادی دینا دراصل سوسائٹی کا قتل ہے۔
یہ بات کسی صاحب نظر سے پوشیدہ نہیں کہ جس سوسائٹی میں زنا عام ہوجائے اس میں ازدواجی زندگی کی ضرورت نہیں رہتی اور خاندانی نظام درہم برہم ہوجاتا ہے۔ آنے والی نسلوں کو حیوانیت اور بے راہروی سے بچانا ممکن نہیں رہتا۔ شہوانیت اور عیش پرستی پوری قوم کے اخلاق کو تباہ کردیتی ہے۔ گھریلو سسٹم مفقود ہونے کے باعث ذہنی ، جسمانی اور مادی قوتوں کا تنزل بھی ہو کر رہتا ہے جس کا آخری انجام ہلاکت وبربادی کے سوا کچھ نہیں۔
اس طرح زنا کار اپنی خود غرضی سے تمدن کی جڑ کاٹ دیتا ہے۔ حضرت عبداللہ بن مسعود بیان کرتے ہیں کہ ایک مرتبہ نبی کریم سے پوچھا گیا سب سے بڑا گناہ کیا ہے ، فرمایا یہ کہ تو کسی کو اللہ کا ہمسر اور مدمقابل ٹھیرائے حالانکہ تجھے پیدا اللہ نے کیا ہے۔پوچھا اس کے بعد ، فرمایا یہ کہ تو اپنے بچے کو اس خوف سے قتل کر ڈالے کہ وہ تیرے ساتھ کھانے میں شریک ہوجائے گا۔ پوچھا گیا پھر ، فرمایا یہ کہ تو اپنے ہمسائے کی بیوی کے ساتھ زنا کرے۔(بخاری،مسلم،ترمذی،نسائ،احمد)
سلامتی کی راہ :
اسلام میں زنا بدترین گناہوں میں شمار کیا گیا ہے لہذا اس کےقریب جانے سے بھی روکا گیا ہے ۔ زنا کی ممانعت کی سخت تاکید ہے ، یہ نہیں فرمایا کہ ارتکاب نہ کرو بلکہ فرمایا کہ قریب نہ پھٹکو کیونکہ سلامتی اسی میں ہے کہ آدمی اس گھناؤنے جرم کی سرحد سےدور ہی رہے تاکہ بھولے سے بھی قدم اس پار نہ چلا جائے ۔ ہروقت انسان اپنے نفس کی نگرانی نہیں کرسکتا۔ پھر یہ بھی حقیقت ہےکہ عیں گناہ کی سرحد پرپہنچ کر اپنے اپ کو قابو میں رکھنا ہر ایک کے بس کا کام نہیں۔خصوصا جہاں انسان کے لیے غیرمعمولی لذت اور کشش کاسامان بھی موجودہو۔
اسلام انسانی معاشرے کو زنا کے خطرے سے بچانے کےلیے وسیع پیمانے پر اصلاحی و انسدادی تدابیر استعمال کرتا ہے۔ وہ سب سے پہلے ایمان کےذریعے آدمی کے نفس کی اصلاح کرتا ہے ۔ پھر وہ نکاح کے لیے تمام ممکن آسانیاں فراہم کرتاہے۔ دل نہ ملےتومردوں کےلیےطلاق اور عورتوں کےلیےخلع کا راستہ کھلا رکھا گیا ہے۔ غیر ضروری اختلاط مرد و زن کی سختی سے ممانعت کی گئی ہے ، خواتین کو پردے کےاحکام دیے گئے اور گھروں سے غیر ضروری نکلنے سے روک دیاگیا ہے۔ غیر عورت اور مرد کے ایک جگہ تنہائی میں رہنے کو بھی گناہ کبیرہ قرار دیا گیا ہے تاکہ فخاشی میں مبتلا ہونے کا کوئی راستہ ہی نہ رہے۔ ان سب کے باوجود بھی جولوگ اس جرم سےبازنہ رہیں ان کےلیے قران وحدیث میں عبرت ناک سزائیں تجویز کی گئ ہیں تاکہ انسانی معاشرےکواس جرم عظیم کی نحوست سےپوری طرح پاک کردیاجاۓ۔
تمدن کا بگاڑ :
خاندان کانظام عورت اور مرد کے اس مستقل تعلق سے بنتا ہے جس کا نام نکاح ہے ۔ مرد اپنی فطرت کے تقاضے عورت کے پاس اور عورت اپنی فطری مانگ مرد کے پاس پاتی ہے اور دونوں ایک دوسرے کے ساتھ وابستہ ہو کر ہی سکون واطمینان حاصل کرتے ہیں۔ اس طرح وہ ایک دوسرے کے خیر خواہ ، ہمدرد ، غمخوار اور شریک رنج وراحت بن جاتے ہیں ۔ ان کے درمیان مستقل رفاقت کاایسا پائیدار رشتہ استوار ہو جاتا ہے اور وہ دونوں کچھ اس طرح پیوستہ ہو جاتے ہیں کہ عمر بھر زندگی کی منجدھار میں اپنی کشتی ایک ساتھ کھینچتے رہتے ہیں۔
اسی تعلق کی بدولت افراد کی زندگی میں سکون ، استقلال اور ثبات پیدا ہوتا ہے۔ اسی نظام کے دائرے میں محبت ، امن ، ایثار کی وہ پاکیزہ فضا پیدا ہوتی ہے جس میں نئی نسلیں بہترین اخلاق ، عمدہ تربیت اور تعمیر سیرت کے ساتھ پروان چڑھ سکتی ہیں۔ جذبہ مادری انسانی جذبات میں سے سب سےاعلی و اشرف روحانی جذبہ ہے ، جس کی بقا پر نہ صرف تہذیب و تمدن بلکہ انسانیت کی بقا کا انحصار ہے ۔ لیکن خودغرض ، نفس پرست اور عیاش لوگ اس خدمت کی انجام دہی کے لیے کسی طرح راضی نہیں ہوسکتے کیونکہ بچوں کی پرورش ایک اعلی درجہ کا اخلاقی کام ہے جو ضبط نفس ، خواہشات کی قربانی ، تکلیفوں اور محنتوں کی برداشت اور جان ومال کا ایثار چاہتا ہے۔
جو شخص خواہش نفس کی تسکین کا غلط راستہ اپناتا ہے وہ اپنے آپ کو نسل اور خاندان کی خدمت کے لیے نا اہل بناتا ہے اور انسانی اجتماع کے ساتھ کھلی بددیانتی کرتا ہے۔ اپنی جسمانی قوتوں کو نہایت خودغرضی کے ساتھ لذت پرستی میں برباد کرتا ہے۔فطرت نے جس لذت کوحقوق و فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ مشروط کیا ہے وہ اسے اپنے حصے کی محنت کے بغیر ہی چرا لیتاہے۔
اسی وجہ سے خاندان کاادارہ منتشر ہوکر بکھر جاتا ہے اور انسان حیوانوں کی سی زندگی بسر کرنے پر مجبور ہوجاتے ہیں۔ گھر کا سکون بہم نہ پہنچنے کی وجہ سے افرادکی زندگیاں تلخ سے تلخ تر ہوتی چلی جاتی ہیں اور دائمی اضطراب کسی کل چین نہیں لینے دیتا۔
پھر یہ بھی حقیقت ہےکہ تمدن اور معاشرت میں ہر غلط طریقے کی ابتدا بہت معصوم ہوتی ہے۔ بہت ممکن ہے کہ عورتوں کی بےپردگی اور بیرون خانہ بھاگ دوڑ اپنا فوری اثر نہ دکھائے۔ بہت ممکن ہےکہ موجودہ نسل اس کی مضرتوں سے محفوظ رہ جائے۔ مگر ایک نسل سے دوسری نسل اور دوسری سے تیسری نسل تک پہنچتے پہنچتے یہی غلط اطوار معاشرتی بربادی کا باعث بن جاتے ہیں اور صورتحال سنبھالے نہیں سنبھلتی۔ آج آدھی سے زیادہ دنیا لذتوں کے پیچھےدوڑ لگا کرجانوروں سے بھی بدتر زندگی گزارنے پر مجبور ہے۔
ہماری حالت زار :
ہمارا الیکٹرانک میڈیا بے حیائی اور بداخلاقی کی ساری حدیں پار کرچکا ہے۔ ناجائز تعلقات کو قطعی بےضرر بنا کر دکھایا جارہا ہے۔عورتوں کو غیر شرعی آزادی کا سبز باغ دکھا کر گھروں سے باہر گھسیٹا جا رہا ہے۔ زنا کو آسان اور زنا کو مشکل بنا دیا گیا ہے۔ یہی وجہ ہےکہ نوجوان نسل بڑی تیزی سے اخلاقی بگاڑ کی طرف بڑھ رہی ہے۔ بڑوں کا احترام قصہ پارینہ بن چکا ہے۔ طلاق کی ایسی کثرت ہے کہ ہماری تاریخ میں نام کو بھی اس کی مثال موجود نہیں۔
تعلیمی اداروں میں بوائے فرینڈ اور گرل فرینڈ کلچر کو بڑی تیزی سے فروغ مل رہا ہے۔ یہ سستی کیبل ، یہ سستے موبائل پیکیجز اور ارزاں مانع حمل دوائیں ہمیں تباہی کے اس گڑھے کی طرف دھکیل رہی ہیں جہاں سے واپسی کا کوئی امکان نہیں ۔ ہمارا الیکٹرانک میڈیا اور نظام تعلیم یہود و ہنود کے مقاصد پورے کر رہا ہے۔ دشمن تو دشمن ہے وہ تو یہی چاہتے ہیں کہ ہم لذت پرستی اور عیاشی میں مبتلا ہو کر ضعیف ہو جائیں تاکہ وہ ہمیں آسانی سے اپنا غلام بنا سکیں۔
اہل مغرب اپنی کوتاہیوں کے باعث معاشرتی تباہی کا بری طرح شکار ہو چکے ہیں۔ ہمارے پاس تو نسخہ شفاء موجود تھا اور ہم قوموں کو بچا سکتے تھے۔ ہمارا کام تو پورے جہاں کی صفائی تھا ہم خود ہی گندگیوں پر ریجھ رہے ہیں۰۰۰۰۰۰اگر ہم اپنی آنے والی نسلوں کو ان ہولناک اور شرمناک نتائج سے بچانا چاہتے ہیں تو ہمیں اسلام کے زندگی بخش پیغام کی طرف رجوع کرناہوگا۔
آخرت برباد :
زنا وہ فعل شنیع ہے کہ جس کے کرنے والے دنیا کے اضطراب کے ساتھ ساتھ آخرت کے عذاب میں بھی مبتلا ہونے سے نہیں بچ سکتے۔ قرآن کا فیصلہ ہےکہ ایسے لوگ توھین آمیز عذاب شدید میں گرفتار ہوں گے۔(۶۹:۲۵) نبی کریم سے پوچھاگیا کیا چیز سب سے زیادہ لوگوں کے آگ میں جانے کاسبب بنے گی، فرمایا منہ اور شرم گاہ۔ (ترمذی)
ارشادنبوی ہے: ساتوں آسمان اور ساتوں زمینیں شادی شدہ زانی پر لعنت کرتی ہیں اور جہنم میں ایسے لوگوں کی شرم گاہوں سے ایسی سخت بو پھیلے گی کہ اہل جہنم بھی پرشان ہوجائیں گے اور آگ کے عذاب کے ساتھ ان کی رسوائی جہنم میں بھی ہوتی رہے گی۔(معارف القران از مفتی محمد شفیع)
آخری بات :
دین اسلام میں کمال درجے کاتوازن ، تناسب اور قوانین فطرت کے ساتھ تطابق نظر آتا ہے۔ سچ یہ ہے کہ مختلف سمتوں میں بہک جانے والے بنی آدم کو عدل توسط کا محکم سبق خالق کائنات ہی پڑھا سکتا ہے۔ مصائب سے ماری ہوئی دنیا سلامتی کےاس سرچشمے کی طرف رجوع کرکے ہی اپنے امراض معاشرت کی دوا حاصل کرسکتی ہے۔حوالہ جات : ( پردہ ، تفھیم القرآن ، فی ظلال القرآن)