ٹائن بی نے ستر انسانی صدیوں کا احوال لکھا تو اسے بڑی تقطیع کی 12 ضخیم جلدیں درکار ہوئیں۔ تاریخ پر میرا مطالعہ واجبی سا بھی نہیں۔ یہ پتا ہے کہ اللہ نے تمام فنون میں اب بڑے لوگوں کی پیدائش بند کر دی ہے۔ ٹائن بی آخری شخص تھا۔ اس پائے کا مورخ اب کہیں ہو تو بتائیے، شکر گزار ہوں گا۔
ٹائن بی کا کام لاثانی ہے۔ لیکن برق رفتار صنعتی پہیے کا اسیر انسان اپنے قیمتی لمحات زیست کی دھونی رما کر تپسیا کرے تو کیوں؟ 12 جلدوں کا ملخص کوئی بمشکل دو جلدوں میں سمو سکا تو کوئی ایک جلد میں۔ میں تو ایک بھی نہیں پڑھ سکا۔ سنا ہے کہ ٹائن بی نے کل تاریخ کو 21 تہذیبوں کے احوال میں منجمد کر دیا ہے۔
لیکن اورنگ آباد کے سید زادے کے نابغہ روزگار رتن—نعیم صدیقی— نے تاریخ کی ان انگنت زقندوں کو محض ایک صفحے میں مقید کیا تو ٹائن بی کی 21 تہذیبیں 4 رہ گئیں۔ یہ رہی پہلی تہذیب:
تاریخ نے پوچھا اے لوگو یہ دنیا کس کی دنیا ہے؟
شاہی نے کہا——– یہ میری ہے
اور دنیا نے مان لیا
پھر تخت بچھے، ایوان سجے ، گھڑیال بجے ، دربار لگے
تلوار چلی اور خون بہے، انسان لڑے، انسان مرے
دنیا نے بالآخر شاہی کو
پہچان لیا، پہچان لیا
نعیم صدیقی کی چار تہذیبوں میں سے ایک ابھی خوابیدہ تھی، نکھری نہیں تھی۔ امت کے ایک حکیم نے دسمبر 1930 میں الہ آباد جا کر اسے جگایا اور زناریوں کو یوں تسلی دی: ’(اسلامی ریاست کے) شمال مغربی ہندی مسلمان غیر ملکی (؟) حملے کے خلاف ہند کے بہترین محافظ ہوں گے. چاہے یلغار نظریات کی ہو یا سنگینوں کی‘۔
فرنگی فوراً جان گیا کہ حکیم جی کی ایک آنکھ 1948 میں سنبھلنے والے گراں خواب چینیوں کو اگر آج ہی سنبھلتا دیکھ رہی ہے تو دوسری آنکھ امڈتے سرخ طوفان پر جمی ہوئی ہے۔ اب کیا میں ہی بتاؤں کہ شمال مغرب میں طورخم واقع ہے۔
معاف کیجیے، میں چوتھی تہذیب پر چلا گیا۔ نعیم صدیقی نے دوسری کچھ یوں بتائی تھی:
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو ! یہ دنیا کس کی دنیا ہے؟
دولت نے کہا یہ میری ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر بینک کھلے بازار جمے
بازار جمے بیوپار بڑھے
انسان لٹے انسان بکے
آرام اڑے سب چیخ اٹھے
دنیا نے بالآخر دولت کو پہچان لیا، پہچان لیا!
مکرر معاف کیجیے، اصل بات بیچ ہی میں رہ گئی۔ الہ آباد میں لوگوں نے حکیم جی کو سنا اور کان جھاڑ کر جاگتے میں سو گئے کہ شمال مغرب میں تو طورخم ہے۔ وہاں سے ہمیں بھلا کس کی سنگینوں یا کون سے نظریات کا خطرہ ہو سکتا ہے۔ 39 سال بعد دسمبر 1979 میں طورخم پر خم ٹھونکے کھڑی تیسری لیکن سرخ
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو ! یہ دنیا کس کی دنیا ہے؟
محنت نے کہا یہ میری ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر روح دبی اور پھر پیٹ بڑھے
افکار سڑے کردار گرے
ایمان لٹے اخلاق جلے
انسان نرے حیوان بنے
دنیا نے بالآخر محنت کو پہچان لیا، پہچان لیا”
ادھر جونا گڑھ کی نمکین ہواؤں میں پلنے والے خود سر قائد عوام کو لالے کی حنا بندی پر مامور فطرت، تاریخ کی اس تیسری کڑی سے نمٹنے کو تیار کر رہی تھی۔ دسمبر 79 میں سرخ آندھی سے قبل طورخم کے پار کے حکمت یار کا میزبان اسی کا نصیر اللہ بابر تھا۔ ایک تو مجھے آپ کی بالکوں کی سی شتابی کھائے جا رہی ہے۔ وہی طفلانہ ضد کہ پہلے ‘ایک دفعہ کا ذکر ہے’، والی وہی تاریخ سناؤ۔ ہاں تو تاریخ تب تک نڈھال ہو چکی تھی۔ لاغر وجود کے ساتھ 1947 میں
تاریخ نے پوچھا پھر لوگو ! یہ دنیا کس کی دنیا ہے؟
مومن نے کہا اﷲ کی ہے
اور دنیا نے یہ مان لیا
پھر قلب و نظر کی صبح ہوئی!
اک نور کی مے سی پھٹ بہی!
ایک ایک خودی کی آنکھ کھلی!
فطرت کی صدا پھر گونج اٹھی!
دنیا نے بالآخر آقا کو پہچان لیا، پہچان لیا ۔ ۔ ۔
خود سر قائد عوام، مچھل جرنیل سے پنگا نہ کرتا اور مرد حق ذرا درگزر کر لیتا تو اس نور بھری مے سے ہم آپ سرفراز ہو رہے ہوتے۔انجہانی قطبی ریچھ کے بعد افغانوں پر یانکیوں نے کوہ غم توڑا تو سہمے ہوئے مقرر ہمیں سپر پاور سے ڈرا رہے تھے۔ اسی سید زادے کا ایک اور رتن پروفیسر خورشید احمد پاٹ دار آواز میں بولا: "دو سپر پاور غائب ہوتے دیکھ چکا ہوں, اللہ کرے اس تیسری کو بھی تحلیل ہوتے دیکھوں”.’ایک دفعہ کا ذکر ہے’ والی اس کہانی کے بعد بھی آپ کے خیال میں جہاد افغانستان، امریکا اور سوویت یونین کی جنگ تھی۔ بھئی حد ہے۔ 1930 میں حکیم جی کے خبردار کرتے وقت یانکی تو ابھی اونٹ کے پاؤں بنا رہے تھے (اس روز مرہ کا ترجمہ کسی پوٹھواری سے پوچھئے)۔ یہ بتائیے کہ الہ اباد کی فضا میں تیرتے اور "سنگینوں اور نظریات” کے خطرے سے خبردار کرتےالفاظ کو قائد عوام اور مرد حق دونوں نے کیوں سنبھال کر رکھ لیا تھا۔ دونوں کو قطبی ریچھ کا ادراک کیونکر ہوا۔ کیوں دونوں ایک ہی منزل کے مسافر تھے۔ اچھا تو قطبی ریچھ کے بعد یانکی خود یہاں آ کر فی الاصل کس سے پنجہ آزمائی کر رہے تھے؟ کیا ان کا واویلا نہیں سنا؟ "طالبان کے خلاف دی گئی ہماری امداد کو پاکستان ان کے خلاف استعمال کرنے کی بجائے ہمارے خلاف استعمال کرتا رہا”۔
مودی کا مخمصہ کچھ ان الفاظ میں کبھی سنا تھا: ’یارو، ہمیں تو سمجھ نہیں آتی کہ پاکستان میں بات کریں تو کس سے. وزیراعظم سے، صدر سے، یا پارلیمان سے؟ میں تو عاجز آ چکا ہوں۔ پتا نہیں یہ ملک آج کیا کرے اور کل کس رخ پر جائے گا، کوئی نہیں جانتا‘۔ ہیلری کلنٹن بھی فکرمند: ’اس ملک میں حکومت، عوام، پارلیمان یا صدر مقتدر نہیں، بلکہ ڈیپ اسٹیٹ نامی ادارہ حاکم ہے”۔ اچھا تو ڈیپ اسٹیٹ سے آپ کی مراد خفیہ ادارہ ہے؟ سنیے! پہلی دفعہ معزول ہونے پر بے نظیر بھٹو سے پوچھا گیا کہ آپ اپنی معزولی کا کسے ذمہ دار سمجھتی ہیں۔ ترنت سے بولیں: ’ملٹری انٹیلیجنس اور خفیہ اداروں کو‘! یہی سوال دوسری معزولی پر ہوا تو جواب یہ تھا: ’میں سمجھتی رہی کہ میری پہلی حکومت خفیہ اداروں نے ختم کی تھی، میں غلط تھی، دونوں دفعہ میری حکومت اسلامی قوتوں نے ختم کی ہے۔ یہاں جس نے حکومت کرنا ہو، اسے اسلامی قوتوں کی مرضی پر چلنا ہوگا‘۔
ہیلری کلنٹن کو ڈیپ اسٹیٹ کا یہ اصل مفہوم بتا دیجیے۔ قوموں کی زندگی میں 70 – 80 سال کوئی معنی نہیں رکھتے۔ میر عرب کو ٹھنڈی ہوا کا جھونکا یہیں سے ملا تھا۔، دنیا نے بالآخر آقا کو پہچان لیا۔ پہچان لیا۔ ذرا انتظار فرمائیے!
2 پر “ پاکستان، نعیم صدیقی کا تیقن اور اغیار کا مخمصہ” جوابات
السلام علیکم محترم شہزاد اقبام صاحب، زبردست کالم اور نعیم صدیقی صاحب کی تخلیق کاٹ کرنے کی… کیا خوب.. ماشاءاللہ… سچ تو یہ ہے کہ مجھے آپکے کالم پہلی بار پڑھنے کا موقع ملا، اسے بدنصیبی کہیں یا خوش بختی… بار بار پڑھنے کو دل چاہتاہے. اللہ آپکو آپکے زور قلم کو شادوآباد رکھے، آمین
شاہدنعیم جیونیوز ،جدہ سعودی عرب
السلام علیکم محترم شہزاد اقبال صاحب، زبردست کالم اور نعیم صدیقی صاحب کی تخلیق کاٹ کرنے کی… کیا خوب.. ماشاءاللہ… سچ تو یہ ہے کہ مجھے آپکے کالم پہلی بار پڑھنے کا موقع ملا، اسے بدنصیبی کہیں یا خوش بختی… بار بار پڑھنے کو دل چاہتاہے. اللہ آپکو آپکے زور قلم کو شادوآباد رکھے، آمین
شاہدنعیم جیونیوز ،جدہ سعودی عرب