سفرنامہ-ایران

خاکِ فارس کا مسافر(10)

·

مولوی نذیر احمد سلامی صاحب کی بے رخی میرے سفر پر ایک ناپسندیدہ سائے کی طرح منڈلا رہی تھی۔ زاہدان کی اس اجنبی فضا میں کچھ لمحے ٹھہرنے کے بعد، میں نے خود کو مصروف رکھنے کے لیے قریب کی ایک اسٹیشنری سے ایران کا نقشہ خریدنے کا ارادہ کیا۔ گرمی کی شدت ایسی تھی کہ ہر چیز جیسے سست روی میں ڈوبی ہوئی تھی۔ 

چوڑے فٹ پاتھ پر چلتے ہوئے، میں نے دیکھا کہ ایک درخت کے نیچے ایک دبلا پتلا بلوچ لڑکا بیٹھا تھا۔ اس کے سامنے مٹی کا مٹکا دھرا تھا اور ہاتھ میں چمکتا ہوا چمکتا ہوااسٹیل کا گلاس۔ وہ ایک ایسی تصویر تھا جو صدیوں سے اپنی جگہ منجمد تھی—گرم موسم، پیاسے مسافر، اور ایک خاموش پانی پلانے والا۔ جیسے ہی میں قریب پہنچا، اس نے بنا کچھ کہے میرے سامنے پانی کا گلاس بڑھا دیا۔ 

زاہدان کی جھلستی ہوئی دوپہر میں، وہ پانی کسی نعمت سے کم نہ تھا۔ میں نے شکر گزار نظروں سے اس کی طرف دیکھا، گلاس تھاما اور چند لمحوں میں سارا پانی حلق سے اتار لیا۔ ٹھنڈک جسم میں سرایت کر گئی، جیسے کسی خشک دریا میں پہلی بار پانی کی لہر دوڑی ہو۔ میں نے لبوں پر مسکراہٹ سجائی اور آگے بڑھنے لگا کہ اچانک ایک سپاٹ اور بے تاثر آواز نے میرے قدم روک دیے۔ 

‘ایک تومان!‘

میں نے پلٹ کر حیرانی سے اس کی طرف دیکھا۔ ایک تومان؟ پانی کا؟ میری زندگی میں یہ پہلا موقع تھا کہ کسی نے پانی کے بدلے دام طلب کیے ہوں۔ مجھے گمان ہوا کہ شاید یہ لڑکا مذاق کر رہا ہے، لیکن اس کے چہرے پر کسی قسم کی شوخی یا شرارت کا شائبہ تک نہ تھا۔ وہ پوری سنجیدگی سے اپنی اجرت مانگ رہا تھا۔ 

’یہ پانی بیچ رہے ہو؟‘ میں نے بے یقینی سے پوچھا۔ 

’جی ہاں!‘ اس نے وہی مختصر اور دو ٹوک انداز اپنائے رکھا۔ 

میرے قدم ٹھٹک گئے۔ زندگی کے بیشتر حصے میں، میں نے سنا تھا کہ پانی پلانا صدقہ ہے کہ پیاس بجھانے والا رحمت کا حق دار ہوتا ہے۔ مگر یہ لڑکا تو اپنی محنت کی قیمت وصول کر رہا تھا، اپنی ٹھنڈک کا خراج مانگ رہا تھا۔ 

میں نے اپنے آپ سے کہا:’بھلا پانی کون بیچتا ہے۔ شربت ہو تو بات بھی ہے۔‘

میرے مشاہدے میں تو پانی کبھی بازار کی جنس نہ تھا۔ ہمارے ہاں، پاکستان میں، مٹکے فی سبیل اللہ درختوں کے سائے تلے رکھ دیے جاتے تھے تاکہ راہ گیر اپنی پیاس بجھا سکیں۔ پانی پلانا نیکی سمجھا جاتا تھا، سخاوت اور تہذیب کا ایک خاموش اظہار۔

مگر وقت بدلا۔ یورپ کی نقالی میں ہمارے ہاں بھی پانی کو بوتلوں میں قید کر کے بیچنے کا رواج چل نکلا۔ وہ پانی، جو کبھی فی سبیل اللہ ہوا کرتا تھا، اب ایک برانڈ بن چکا ہے—اور فروخت ہونے والی اشیاء کی فہرست میں شامل ہو گیا ہے۔ پاکستان میں بھی جلد ہی ایسی کمپنیاں ابھر آئیں جو پانی کو ایک باقاعدہ کاروبار کے طور پر پیش کرنے لگیں۔

اِ س خود کلامی کے بعد ، میں نے کندھے اُچکائے اور آگے بڑھنے لگا کہ اچانک اس نے میرے سوٹ کیس کو ٹھوکر ماری۔ حیرت اور غصے کے درمیان معلق، میں نے بھی ردعمل دیا اور اسے ہلکا سا دھکا دیا۔ وہ کسی چھوٹے بپھرے ہوئے جنگلی بکرے کی طرح مجھ پر پلٹا اور بدلے میں مجھے بھی دھکا دے مارا۔ لمحے بھر کو مجھے لگا کہ یہ بدمزگی کسی سنجیدہ تنازع میں نہ بدل جائے، لیکن پھر میں نے جیب میں ہاتھ ڈالا، ایک تومان نکالا اور اس کی طرف بڑھا دیا۔ 

اس نے فاتحانہ انداز میں پیسے تھامے اور بنا کچھ کہے دوبارہ مٹکے کے پاس جا بیٹھا، جیسے کچھ ہوا ہی نہ ہو۔ میں نے ایک لمحے کو رک کر اسے دیکھا، پھر آگے بڑھ گیا۔ 

یہ زاہدان کی تپتی دوپہر میں ہونے والی محض ایک چھوٹی سی جھڑپ تھی، مگر اس نے میرے ذہن پر ایک غیر مرئی نشان چھوڑ دیا۔ سیاحت صرف راستوں کا نام نہیں، یہ کرداروں کا بھی سفر ہے—یہ وہ کہانی ہے جو ہر اجنبی چہرے، ہر مانوس غیر مانوس لمحے میں بکھری ہوئی ہے۔ یہ وہ درس ہے جو نہ کتابوں میں لکھا ہے، نہ کسی استاد نے پڑھایا، بلکہ جو خود راستے سکھاتے ہیں۔ اور آج، زاہدان کی خاک آلود گلیوں میں، میں نے ایک اور سبق سیکھا تھا—کہ بعض اوقات ایک تومان محض ایک سکے کا نام نہیں، بلکہ ایک پوری سوچ  کی قیمت ہوتی ہے۔

لڑکے سے الجھنے کے بعد دل کسی قدر بوجھل تھا، مگر مسافر کی راہ میں یہ چھوٹے موٹے اتار چڑھاؤ کون سا نیا تھا؟ میں نے قریبی اسٹیشنری کی دکان سے ایران کا ایک نقشہ خریدا—کاغذ پر بکھری ہوئی سڑکوں کی بھول بھلیاں، شہروں کے اجنبی نام، ایک سرزمین جسے میں نے ابھی کھوجنا تھا۔ ہوٹل پہنچ کر میں نے نقشے کو میز پر پھیلا دیا، اور جیسے ہی اس کی لکیروں میں نظریں دوڑائیں، یوں لگا کہ میں کسی پراسرار کہانی کا مرکزی کردار ہوں، جو ابھی اپنے ہی تحریر کردہ سفرنامے میں قدم رکھنے والا ہے۔

کچھ دیر تک میں کاغذ کے اس پرزے کو تکتا رہا، اور پھر جانے کیوں دل میں ایک عجیب خیال نے جنم لیا—کیوں نہ ایران کو ایک دائرے کی صورت میں عبور کیا جائے؟ کیوں نہ اس سرزمین کے شہروں، بازاروں، سڑکوں اور قہوہ خانوں کو یوں چھوا جائے، جیسے ہوا درختوں کی شاخوں کو چھوتی ہے؟ نہ گوگل میپ کی رہنمائی تھی، نہ کوئی یوٹیوب ویڈیو، نہ کسی سیاحتی کتابچے سے مدد لی، نہ ہی کسی دانشمند مسافر کی ہدایات۔ بس یہ فارسی زبان میں چھپا ایک عام سا کاغذی نقشہ تھا، جو اب میرے مقدر کا ستارہ بننے والا تھا۔

یہ فیصلہ کسی گہرے سوچ بچار کا نتیجہ نہ تھا، نہ کسی سیانے مسافر کی حکمت تھی—بس ایک الوہی جنون تھا، ایک ایسی سرشاری، جو صرف آوارہ گردوں کو نصیب ہوتی ہے۔ میرے پاس محض دس ہزار روپے تھے، اور خواہش یہ کہ ایران کو جتنا ممکن ہو، اپنے قدموں تلے روند لیا جائے، اس کی گلیوں، قلعوں، دریا کناروں اور صحراؤں میں کسی مسافر کی طرح نہیں، کسی خواب دیکھنے والے کی طرح گھوم لیا جائے۔ نقشے پر نظریں دوڑائیں، اور انگلی کسی انجانے احساس کے تحت’بم‘ پر ٹھہر گئی۔ ہاں، میری اگلی منزل’بم‘تھی— وہی قدیم شہر جس کے سنہرے قلعے اور مٹیالی دیواریں جانے کتنے زمانوں کے قصے سنانے کو بےتاب تھیں۔

یوں کاغذ پر کھنچی سڑکیں حقیقت میں ڈھلنے لگیں، اور میں اس خواب کی پہلی سیڑھی چڑھنے کو تھا، جو خواب ایران کی گلیوں میں جاگتے آنکھوں نے دیکھنا تھا۔

یوں میں بس میں بیٹھا، کسی انجانے خواب کی مانند شہرِ بم کی طرف رواں تھا۔ سفر کا وہی مخصوص شور، انجن کی گڑگڑاہٹ، مگر کھڑکیاں بند تھیں۔ اے سی چل رہا تھا، مگر دھوپ کی تپش شیشے سے چھن کر اندر آ رہی تھی، خاص طور پر کھڑکی کے ساتھ والی نشست پر بیٹھنے کی وجہ سے گرمی کا احساس زیادہ شدید تھا۔ باہر کی دنیا ایک دھندلے شیشے کے پار کسی خواب کی مانند نظر آ رہی تھی، جیسے کوئی سنہری سراب ہو۔ آس پاس بیٹھے مسافر یا تو اونگھ رہے تھے یا پھر کسی غیر مرئی خیال میں گم تھے۔

بم پہنچنے سے ذرا پہلے، بس ایک مسجد کے سامنے رکی۔ ایران میں ایسا ہونا معمول کی بات ہے۔ بسیں اور ریل گاڑیاں نماز کے وقت رک جاتی ہیں، جیسے گھڑی کی سوئی کسی مقدس ساعت پر تھم جاتی ہو۔ یہاں نماز کا ایک دلچسپ نظام تھا—فجر اپنے وقت پر، مگر ظہر اور عصر ساتھ، اور مغرب و عشاء بھی اکٹھی۔ عبادت کا یہ منظم انداز میرے لیے نیا ضرور تھا، مگر اجنبی نہیں لگا۔ 

مسجد سے باہر نکلا تو ماحول نے مجھے چونکا دیا۔ یہ کہاں آگیا تھا میں؟ کیا یہ ایران تھا یا ریاض، سعودی عرب کی کوئی بھولی بسری گلی؟ وہی گرم لو، وہی کھجوروں کے جھنڈ، وہی تپتی زمین۔ مگر ایک فرق بہرحال نمایاں تھا—یہاں کے لوگ شائستہ، مہذب اور عزت دینے والے تھے۔ سعودی عرب میں اگر کسی کے کندھے سے کندھا چھو جائے تو گھورنے لگتے ہیں، مگر یہاں ہر چیز میں ایک ٹھہراؤ تھا، ایک وقار۔ 

نماز کے بعد، بس دوبارہ اپنی منزل کی طرف سرکنے لگی اور تھوڑی ہی دیر میں اس نے مجھے شہر کے دروازے کے باہر اتار دیا۔ بس کسی خاموش عزم کے ساتھ تہران کی طرف بڑھ گئی، اور میں اس محرابی دروازے کے سامنے کھڑا رہ گیا، جو صدیوں کے قصے اپنے پتھروں میں قید کیے ہوئے تھا۔ یہ وہی محرابی دروازہ تھا، جیسا میں نے مغلیہ دور کے قلعوں میں دیکھا تھا۔ ایران میں یہ محرابیں، یہ بلند دروازے، وقت کی دہلیز پر کھڑے کسی درویش کی طرح معلوم ہوتے ہیں، جو آنے والوں کو خوش آمدید کہنے کے ساتھ ساتھ، انہیں ماضی کی سرگوشیاں بھی سناتے ہیں۔ 

ایران میں شہروں کے گرد ایک وسیع بائی پاس بچھا دیا گیا ہے، جہاں بسوں کی مخصوص دنیا آباد ہوتی ہے۔ بس کا ڈرائیور، جو کنڈکٹر کے فرائض بھی نبھاتا تھا، خاموشی سے نیچے اترا، میرے سامان کو احتیاط سے اتارا، اور بس کی کھڑکی سے آخری نگاہ ڈال کر آگے بڑھ گیا۔ میں اردگرد دیکھنے لگا۔ یہاں لاہور کے نیازی اڈے جیسا حال نہیں تھا۔ کوئی دکاندار آوازیں نہیں لگا رہا تھا، کوئی ٹیکسی ڈرائیور میرے کپڑوں کو کھینچ کر زبردستی گاڑی میں بٹھانے کی کوشش نہیں کر رہا تھا۔ لوگ مہذب تھے، خاموش تھے، اپنے اندر کی دنیا میں مگن۔ 

ایک ٹیکسی کے قریب جا کر میں نے فارسی میں کچھ کہا، جو شاید اردو سے مشابہ تھا۔ ڈرائیور مسکرایا اور بولا، ’یہ شہر بہت خوبصورت ہے، آپ کو پسند آئے گا۔‘ میں نے 200 تومان یعنی محض 17 روپے میں کرایہ طے کیا، اور اسے کسی سستے مگر صاف ستھرے ہوٹل کی طرف چلنے کو کہا۔

راستے میں بم کے مناظر نے مجھے جکڑ لیا۔ کشادہ سڑکیں، دونوں طرف سائے کرتے درخت، جو سرگوشیاں کرتے معلوم ہوتے تھے۔ یہ کوئی عام شہر نہیں تھا، یہ تو کسی داستان کا حصہ لگتا تھا، جیسے الف لیلہ کے کسی باب میں اچانک میں آن وارد ہوا ہوں۔ 

ٹیکسی ایک عمارت کے سامنے رکی۔ یہ ہوٹل نہیں، مسافر خانہ تھا۔ میں اندر داخل ہوا، جہاں نگران نے نہایت اطمینان سے میرا پاسپورٹ ایک دراز میں رکھا، اور رجسٹر پر جھکتے ہوئے میرے نام کی روشنائی سے شناسائی کی۔ پھر ایک چابی نکالی اور مجھے ساتھ لے کر ایک کمرے کا دروازہ کھولا۔ اندر چار سادہ مگر صاف ستھری چارپائیاں رکھی تھیں، دیواروں پر کوئی بے ہنگم تصویریں نہ تھیں، سگریٹ یا نسوار کے داغ بھی نہیں۔ ایرانی سرف کی مہک فضا میں تیر رہی تھی، جو یہاں کی ہوٹلوں کا خاصہ ہے۔

پاکستان کے ہوٹل یاد آئے، جہاں تکیوں پر تیل کے بدصورت داغ ہوتے ہیں، اور دیواریں پان کی سرخ چھینٹوں سے ’سجاوٹ‘ کی گئی ہوتی ہیں۔ مگر یہاں ایک عجیب سی نفاست تھی، ایک ترتیب، ایک ٹھہراؤ۔ میں نے چارپائی پر بیٹھ کر اپنے جوتے اتارے، اور لمحہ بھر کے لیے آنکھیں موند لیں۔ بم، جس کے بارے میں میں نے صرف سنا تھا، اب میرے سامنے تھا—ایک ایسا شہر جو مٹی، ہوا، کھجوروں اور صدیوں کی کہانیوں کا امتزاج تھا۔ 

ریت کے سنہری سمندر میں گھرا ایک نخلستان، جہاں کھجوروں کی چھاؤں میں تھکن اتارنے والے مسافروں کی داستانیں گونجتی ہیں۔ ایران کے صوبہ کرمان میں بسا یہ شہر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی قدیم قافلے کی آخری منزل ہو، جہاں مسافر اپنے زادِ راہ کا حساب لگاتے ہیں اور کھجوروں کے باغات میں چھپے کسی راز کی تلاش میں نکل جاتے ہیں۔

جب میں بم پہنچا، تو گرمی نے میرا استقبال کیا۔ نہیں، یہ کوئی معمولی گرمی نہ تھی—یہ وہ آگ تھی جو صدیوں سے اس سرزمین پر برستی آئی تھی، جو بسا اوقات مسافروں کو راستہ بدلنے پر مجبور کر دیتی ہے۔ زاہدان کی تپش، جو میرے لیے نسبتاً شفیق تھی، یہاں آ کر ایک دہکتے الاؤ کی صورت اختیار کر چکی تھی۔ لیکن بم کی زمین کیسی عجیب ہے، جس میں رہنے والے لوگ اس گرمی کو برداشت ہی نہیں کرتے، بلکہ اس کے ساتھ جیتے ہیں، اس سے زراعت کشید کرتے ہیں، اور اس کی تپتی ہوا میں بھی اپنی کھجوروں اور سنگتروں کی خوشبو بکھیر دیتے ہیں۔

زاہدان سے بم تک کا فاصلہ 331 کلومیٹر ہے، اور یہ سفر بس کے ذریعے ساڑھے تین یا چار گھنٹوں میں طے ہوتا ہے۔ میں جب اس قدیم شہر میں اترا، تو مجھے معلوم نہ تھا کہ دو سال بعد، 2003 میں، زمین اس کے نیچے انگڑائی لے گی، اور ہر چیز ملبے میں دب جائے گی۔ گلیاں، بازار، صدیوں پرانے در و دیوار—سب کچھ۔ بم کی تاریخ ہزاروں سال پرانی ہے، ابنِ حوقل نے اپنے سفرنامے کتاب صورۃ الارض میں اس کا ذکر کیا تھا، اور یہاں کا مشہور اِرگِ بم—وہی تاریخی قلعہ جس کی خاموش دیواریں وقت کی سرگوشیوں کو سننے کی عادی تھیں—ایک لمحے میں زمین بوس ہوگیا۔

یہ شہر صرف تاریخ کی گود میں پلنے والا کوئی خوابیدہ مقام نہیں، بلکہ زرخیز زمین بھی ہے۔ یہاں کی کھجوریں، خاص کر وہ مضافتی کھجوریں جو ایران و پاکستان میں اپنی چمک اور مٹھاس کے باعث پہچانی جاتی ہیں، صحرا کے سینے میں چھپے کسی خزانے جیسی ہیں۔ مگر مجھے بم میں سب سے زیادہ جس چیز نے مسحور کیا، وہ یہاں کے کاریز تھے—وہی زیرِ زمین نہریں جن سے صحرائی زمین کو آب حیات ملتا ہے۔ کوئٹہ، مضافاتی قصبے شیخ ماندہ،  میں میرے بچپن کے دنوں کی کاریزیں یاد آگئیں، وہ نیم تاریک سرنگیں جن میں ہم بچے کسی کھوج میں بھاگتے پھرتے، اور کبھی کسی جھری سے آتی سورج کی کرن ہمارے قدم روک لیتی—یہ وہ کرن ہوتی جو اندھیرے کے بیچ امید کی طرح آ گرتی۔

یہ شہر زراعت کا مرکز تو تھا ہی، لیکن اس کی سڑکوں پر ایک اور ہنگامہ بھی برپا رہتا—بڑے بڑے موٹر سائیکلوں پر سوار یورپی سیاحوں کا ہجوم، جو بم کے قدیم قلعے کی داستانوں کو اپنی آنکھوں سے دیکھنے آتے۔ وہ اپنی جیبوں میں ڈالر لے کر آتے، اور ایرانی معیشت، جس پر پابندیوں کے بادل چھائے رہتے، ان کرنسی نوٹوں سے سانس لیتی۔ ان غیر ملکیوں کی چمکتی موٹر سائیکلوں، ان کے شور اور ان کی بےپروا ہنسیوں میں ایک عجب تحیر تھا—یہ وہ لوگ تھے جو اس خطے کے لیے اجنبی سہی، مگر اس کے سحر میں جکڑے ہوئے معلوم ہوتے۔

بم کا ذکر کسی سفرنامے میں چند جملوں تک محدود نہیں رہ سکتا۔ یہ ایک شہر نہیں، ایک جذبہ ہے، ایک ایسا استعارہ جو وقت کے ساتھ بکھرتا بھی ہے اور پھر سنبھل بھی جاتا ہے۔ یہ تاریخ کی گود میں ہچکولے کھاتا ہے، مگر پھر بھی اپنی کھجوروں کے سائے میں مسافروں کے لیے سایہ دار گوشے رکھتا ہے۔(جاری ہے)

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے