دس مئی 2025 کی صبح پاک فضائیہ کی مثالی برتری، جنگ میں پاکستان کی فتح اور بھارت کی ذلت سے بھرپور شکست پر جہاں ایک طرف دل باغ باغ ہوا، رب کا شکر ادا کیا، وہیں کچھ مناظر دیکھ کر دل کانپ کے رہ گیا۔
بے پردہ خواتین کا گلا پھاڑ پھاڑ کر ٹی وی اسکرین پہ فتح کے اعلانات، بھنگڑوں اور آتش بازی کا منظر۔ یہ سب مناظر ایک سلجھی ہوئی تربیت یافتہ باوقار قوم کی فتح کے مناظر نہیں ہو سکتے، وہ اس لیے کہ نہ تو یہ فتح پہلی فتح ہے اور نہ اس سے پچھلی شکست و ہزیمت(1971) آخری شکست و ہزیمت تھی خاکم بدہن۔۔۔
بلا شبہ حربی قوت جے ایف 17 تھنڈر اور جے ٹین سی J 10C طیارے ہماری قوت ہیں لیکن ہمیں یاد رکھنا ہوگا ہماری اصل قوت ہمارا نظریہ ہے۔ جس طرح مودی کی اصل قوت اس کا نظریہ ہندوتوا ہے ۔۔۔ اور ہم تو ایک زندہ و جاوید، ہمہ جہتی روشن نظریے کے علم بردار ہیں۔ یہ نظریہ کیا ہے؟ وہی جو پاکستان کے حصول کے وقت ہم نے پوری دنیا کو گواہ کر کے اعلان کیا تھا: پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ۔
بلا شبہ ہمارا یہ نعرہ کوئی وقتی و جذباتی نعرہ نہیں تھا۔ یہ محض ایک ترانہ یا قوالی نہیں تھی۔ یہ جان دار قوت محرکہ تھی جس نے برصغیر کے پسماندہ حال مسلمانوں کو ایک آواز دے دی، ایک رخ دیا، ایک امنگ دی۔ خوبصورت مستقبل کی امنگ، اپنی تہذیب کے مطابق زندگی گزارنے کی امنگ، سر جھکا کر نہیں سر اٹھا کر جینے کی امنگ۔
جاننے والے جانتے ہیں کہ یہ نظریہ محض جنگ کے دنوں میں پڑھا جانے والا وظیفہ نہیں، ترانوں میں گایا جانے والا مصرع نہیں۔ یہ ہمارا دستور ہے۔ یہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کے ماتھے کا جھومر ہے۔۔۔۔۔سن لیجیے جان جائیے، یقین کیجیے کہ لا الہ الا اللہ کے ماننے والوں کے دشمن بھی بہت ہوتے ہیں۔ اس نغمے کے اندر جو قوت اور رعب اور حسن ہے اس کی بنا پر اس کے حاسد اس کے رقیب ہر دور میں چہرہ بدل بدل کے وار کرنے آتے ہیں۔ کبھی دائیں سے، کبھی بائیں سے، کبھی آگے سے اور کبھی پیچھے سے۔۔۔۔
یہ قوم کی کمزوریاں تلاش کرتے ہیں، ان کمزوریوں کے ذریعے ان کے اندر گھس جاتے ہیں، سازشیں کرتے ہیں، رات کے اندھیرے میں وار کرتے ہیں، دھوکہ اور دجل کے بڑے بڑے ڈھونگ رچاتے ہیں تو اب کیا ہم یہ نظریہ چھوڑ دیں؟جیسا کہ ہمارے کچھ، دانشور، سوچتے آئے ہیں۔ ان کے خیال کے مطابق یہ نظریہ ہمارے گلے کا پھندا ہے، اس سے جان چھڑا لیں گے تو مغرب و یورپ ہم پر انعام و اکرام کی بارش برسا دے گا تو جناب ایسا ہرگز نہیں ہے۔ زمانہ قریب کی تاریخ اٹھا کر دیکھ لیجیے، جہاں جہاں مسلمانوں نے اس نظریے سے جان چھڑانے کی کوشش کی، وہیں پر وہ طاغوتی قوتوں کے لیے تر نوالہ بن گئے۔۔۔ اس نظریے کے علمبردار شرق و غرب میں اپنا رعب قائم کرنے میں کامیاب ہوتے ہیں۔ ابھی ابھی کیا یہی نہیں ہوا ؟آپ نے قرآن کی آیت پہ آپریشن کا نام رکھا ’بنیان مرصوص‘۔۔۔۔۔
بزدل گیدڑوں کی طرح رات کی سیاہی میں نہیں سپیدہ سحر میں کہ جب کائنات کا ذرہ ذرہ سوہنے رب کی حمد و ثنا میں لگا ہوتا ہے۔ آپ نے نعرہ تکبیر بلند کیا اور دشمن پر ٹوٹ پڑے۔ دشمن کون، وہی جو طاقت میں آپ سے کئی گنا بڑا ہے اسرائیل اور امریکا جس کی پشت پر ہیں۔ بھارت کو طاقت کے تناسب پہ زعم ہی تھا کہ ٹرمپ نے ادائے بے نیازی سے کہہ دیا تھا کہ پاکستان اور بھارت 1500 سال سے لڑتے آئے ہیں، ان کو لڑنے دیں۔۔۔
اسرائیل مودی کو ترغیب دلا چکا تھا کہ جس طرح غزہ میں میں نہتے فلسطینی بچوں، عورتوں، بوڑھوں، جوانوں کا خون پی رہا ہوں بالکل اسی طرح تم پاکستان کے معصوم شہریوں پر حملہ کر دو اور ان کے خون کا ذائقہ چکھو۔ بے فکر رہو، ہم تمہارے ساتھ ہیں۔ پوری سازش تیار تھی کہ یوں اور یوں ہوگا اور پھر یہ پاکستانی عوام جو غزہ کے غم میں ہلکان ہو رہے ہیں ان کو اپنی جان کے لالے پڑ جائیں گے۔ بھول کے نام نہیں لیں گے غزہ کا۔۔۔۔۔۔،
لیکن انہیں کیا معلوم تھا کہ صبح صادق میں رب جبار و قہار کی حمد کے نغمے گاتے چرند پرند دعا گو ہو گئے۔ زمین کا ذرہ ذرہ جھوم اٹھا۔ ’بنیان مرصوص‘ کا عنوان اور اللہ اکبر کا نعرہ کوئی معمولی چیز ہے کیا؟ صبح صادق کے وقت اپنی دنیا کی طرف نگاہ کرم کرتے مالک کو ہماری ادا پسند آ گئی۔ کون سی ادا بھلا؟ یہی نا کہ ہم چھوٹے چھوٹے اختلافات، تعصبات چھوڑ چھاڑ کے ایک ہو چکے تھے۔ قریہ قریہ، کوچہ کوچہ، امیر و غریب، ہر کوئی رب واحد کی طرف پلٹ آیا تھا۔ بنیان مرصوص کے جھنڈے تلے۔۔۔۔
ہم ایک خدا کے بندے ہیں
ایک ہی پرچم کے رکھوالے
ایک کتاب کے پڑھنے والے
ہم ایک ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہماری دھاک دشمن پہ بیٹھ گئی۔ مودی بھاگا ٹرمپ کے دربار میں، اپنی شکست کا مقدمہ پیش کر دیا۔ ٹرمپ نے فوری طور پر لہجہ بدل لیا اور جنگ بندی کا سگنل دے دیا۔
پیارے پاکستان! یاد رکھو جنگ بندی ضرور ہوئی ہے، خوشی کی بات ہے۔۔۔۔ ہم جنگ نہیں چاہتے۔ جنگیں اچھی نہیں ہوتیں لیکن یاد رکھو امریکا، بھارت، اسرائیل، یہ مثلث دنیا کے عظیم شیاطین سے مل کر بنی ہے۔ یہ مثلث تمہارے نظریے کی دشمن ہے۔ یہ مثلث تمہارے جغرافیے کو بدل دینا چاہتی ہے۔ یہ مثلث تمہاری زمینوں کو بنجر دیکھنا چاہتی ہے۔ یہ مثلث اس خطے میں صرف بھارت کو چوہدری دیکھنا چاہتی ہے۔
اور ہاں حال ہی میں ٹرمپ نے مسئلہ کشمیر کے سلسلے میں ثالثی کی بات کی ہے، مذاکرات کی بات کی ہے۔ پیارے پاکستان! مذاکرات اچھے ہوتے ہیں، امن کے معاہدے بھی برے نہیں ہوتے لیکن خدارا فتح کو شکست میں بدلنے کی تاریخ اب کے نہ دہرا دینا ۔۔۔نعرہ تکبیر کے سائے میں حاصل کی ہوئی فتح مذاکرات کی میز پر شکست میں نہ بدلنے پائے۔۔۔ جانتے ہو نا بلوچستان بھی دشمن کی آنکھ کا کانٹا ہے، گوادر پورٹ دشمن کو ایک آنکھ نہیں بھاتا۔۔۔ سی پیک دشمن کی نیندیں اڑاتا ہے۔۔۔۔
تو پھر دیر کس بات کی ببانگ دہل بتا دو اپنے حکمرانوں کو، اس ملک کے ایک ایک تھنک ٹینک کو، دانشوروں کو، صحافیوں کو کہ مسئلہ کشمیر کے حل کے بغیر مذاکرات نہیں، سندھ طاس معاہدے کی باعزت بحالی کے بغیر کوئی گفت و شنید نہیں۔ بھارت نے چھ اور سات مئی کے درمیانی شب ہمارے شہریوں کا خون بہایا، مسجدیں شہید کیں، اس کی معافی تلافی کے بغیر کوئی امن معاہدہ نہیں۔۔۔۔
پیارے پاکستان! امریکا کا مشرق وسطیٰ میں امن معاہدوں کے نام پر کردار بھول نہ جانا، ان کے تجویز کردہ مذاکرات، بات چیت، معاہدے محض اپنے زر خرید غلاموں کو آزاد قوم پر مسلط کرنے اور ان پٹھوؤں کے ذریعے اپنے مفادات کے تحفظ کے لیے ہوا کرتے ہیں۔۔۔۔
اس لیے پیارے پاکستان! یہ وقت ناچنے، کودنے، ڈھول کی تھاپ پر رقص کرنے کا نہیں، آتش بازی کا نہیں، سو جانے کا نہیں۔ یہ وقت ہے اپنی زندگی کے طیارے کے کاک پٹ میں اذان دینے کا۔۔۔ خرافات سے ہاتھ اٹھا لیجیے۔ یہ وقت قیام ہے۔ سنجیدگی سے، ہوش مندی سے حالات کا تجزیہ کرو۔ بھارت زخمی ناگ کی طرح باؤلے کتے کی طرح، زہریلے سانپ کی طرح تمہیں ڈسنے کے لیے تم پر بڑا حملہ کرنے کے لیے اپنی تیاریاں تیز تر کر چکا ہے، اس کے توسیع پسندانہ عزائم اسرائیل جیسے ہیں۔ امریکا مکمل طور پہ اس کی پشت پر ہے۔ ہم لوگوں کو مذاکرات کے جال میں الجھا کر یہ طاقتیں اپنے گھٹیا عزائم پورے کرتی ہیں۔۔۔
ان کے لیے تر نوالہ ہے راگ رنگ میں ڈوبی ہوئی قوم۔۔۔ منتشر قوم ۔۔۔صوبائی اور نسلی تعصب کا شکار قوم، اپنے نظریے کی بجائے توہمات، بے عملی، خیانت، رشوت، بے حیائی جیسی بد اعمالیوں میں ڈوبی ہوئی قوم۔ محسن پاکستان عبدالقدیر خان کی بجائے ن اور ش اور آئی خان کے نام کی مالا جپنے والی قوم۔۔۔۔۔
پیارے پاکستان! آؤ ہم آج ہی سے اپنی اصلاح آپ کا کام شروع کریں۔ بنیان مرصوص صرف میدان جنگ کے لیے نہیں، زندگی کے ہر میدان کے لیے یہ سرخی، یہ عنوان رہنما ہے اور پھر یہ محض دو لفظ نہیں یہ تو ایک بہت بڑا پروجیکٹ ہے۔ یہ ہماری قوت کا منبع ہے۔ ہمارے جینے کا ڈھنگ ہے۔ یہی ہماری تہذیب ہے۔ یہی ہماری فتح ہے۔ یہی صبح ہے۔ یہی شام ہے۔
عالم کفر کو اب واضح پیام ہے کہ
10مئی 2025 تو ایک تاریخ تھی ۔۔۔۔ لیکن۔۔۔ اب ۔۔۔۔۔ معرکہ حق کی تیاری ہر روز ہوگی ڈنکے کی چوٹ پہ ہو گی۔۔۔
ہر مظلوم کی نگاہ ہماری جانب ہے ۔۔
مقبوضہ کشمیر۔۔۔
اشک بہاتی مسجد اقصی۔۔۔
لہو لہو غزہ سب ہمیں پکار تے ہیں۔۔
لہذا ۔۔۔۔۔
۔۔۔سر بکف دوستو، صف شکن ساتھیو!
اپنی تاریخ کو پھر سے ترتیب دو۔۔
اپنی قوم اور ملت کے ہیں پاسباں۔۔۔
ہم ہیں اپنے وطن کے جری نوجواں۔۔
ہونے دیں گے نہ غیرت کا نیلام ہم۔۔
سر بکف دوستو صف شکن ساتھیو۔۔۔
تبصرہ کریں