جب عورت ہونا کمزوری بن جائے اور ریاست کمزوروں کی حفاظت کرنے میں ناکام ہو جائے تو ایسے معاشرے کیسے نشوونما پاسکتے ہیں؟
ردا فاطمہ رینالہ خورد (ضلع اوکاڑہ، صوبہ پنجاب) کے ایک مزدور کی بیٹی ہے۔ اسے نامساعد حالات کی وجہ سے طلاق کا دکھ سہنا پڑا۔ اس وقت وہ اپنے والد کے گھر میں مقیم ہے۔ گھر چلانے کے لیے اس کی والدہ بھی محنت و مشقت کرکے اپنے خاوند کا ہاتھ بٹاتی ہے۔
گاؤں کے اوباش نوجوان حماد آرائیں اور جاوید بلوچ نے مبینہ طور پر ردا کے گھر میں داخل ہو کر اسے جنسی زیادتی کا نشانہ بنانے کی کوشش کی۔ بہادر ردا زخمی ہوگئی، اس کے کپڑے پھٹ گئے لیکن اس نے اپنی عزت پر آنچ نہیں آنے دی۔ شور کی آواز سن کر محلے دار موقع پر پہنچ گئے جنہیں دیکھ کر ملزم فرار ہوگئے۔
ردا کے والد نے قانونی چارہ جوئی کے لیے متعلقہ پولیس سے رجوع کیا، ملزم گرفتار ہوئے لیکن دو گھنٹوں کے بعد رہا ہوگئے۔ گاؤں اور علاقہ کے با اثر افراد ملزمان کی پشت پناہی کر رہے ہیں۔ ردا کے والد کو چار لاکھ روپے لے کر معاملہ رفع دفع کرنے کی پیشکش کی گئی جسے اس نے یہ کہہ کر ٹھکرا دیا کہ وہ غریب ضرور ہے لیکن بے غیرت نہیں ہے۔ اسے کہا گیا کہ وہ یہی رقم پولیس کو دے کر ملزمان کو بری کروا لیں گے۔
ردا کے والد نے راقم کو بتایا کہ گاؤں کے نمبردار مظلوم کی داد رسی کی بجائے الٹا اسے بیہودہ گالیاں دے کر ڈرانے کی کوشش کرتے ہیں ملزمان ان کے ڈیرے پر براجمان رہتے ہیں۔
مقامی پولیس اس کی بات نہیں سنتی، ڈی ایس پی بھی کچھ نہیں کرتے، ڈی پی او کھلی کچہری تک رسائی بھی اسے انصاف اور تحفظ فراہم کرنے میں ناکام رہی ملزمان کی طرف اسے قتل اور اس کی بیٹی کو اغوا کرنے کی دھمکیاں دی جا رہی ہیں۔
ردا کے والد نے راقم سے سوال کیا کہ وہ کہاں جائے، کس سے انصاف مانگے اور کس سے تحفظ کا سوال کرے؟
یہ کہانی ایک ردا کی کہانی نہیں ہے ملک بھر میں اس نوعیت کی بے شمار کہانیاں بکھری پڑی ہیں۔
سوال یہ ہے کہ ریاست کہاں ہے؟ کیا ریاستی ادارے طاقتوروں کا ساتھ نبھانے کے لیے قائم کیے گئے ہیں؟
ریاستی ادارے مظلوم کی بجائے ظالموں اور جرائم پیشہ افراد کے ساتھ کھڑے ہو جائیں گے تو داد رسی کون کرے گا؟
ہمارا مشاہدہ یہ ہے کہ مظلوم کی داد رسی نہ ہونے اور ظلم کا ننگا کھیل جاری رہنے کی وجہ سے سماج میں فرسٹریشن پیدا ہوتی ہے جو بعض اوقات منفی ردعمل کی شکل اختیار کر لیتی ہے جس سے کئی سماجی مسائل جنم لیتے ہیں۔
وزیر اعلیٰ پنجاب خود ایک خاتون ہیں۔ وہ خواتین کے حقوق اور تحفظ کے حوالے سے کافی متحرک نظر آتی ہیں لیکن عام آدمی براہ راست ان تک رسائی نہیں رکھتا۔
سوال یہ ہے کہ مظلوم کی پکار سننے کے لیے کون سی زنجیر عدل ہلائی جاسکتی ہے؟
کیا ایک خاتون وزیر اعلیٰ کی موجودگی میں کمزور اور بے بس رداؤں کی رداؤں کا تحفظ ہو سکے گا یا وہ اوباشوں اور ان کے طاقتور سرپرستوں کے مکروہ عزائم کا یونہی نشانہ بنتی رہیں گی؟
( جناب خلیل احمد تھند پاسبان ڈیموکریٹک پارٹی کے مرکزی وائس چیئرمین ہیں۔)
تبصرہ کریں