شیرین ابو عاقلہ اسرائیلی فوج کے ہاتھوں قتل ہونے والی فلسطینی صحافی

میڈیا پر حملے: جنگی حکمتِ عملی یا بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی؟

·

اسرائیل اور ایران کے درمیان حالیہ کشیدگی ایک نازک مرحلے میں داخل ہو چکی ہے، جہاں روایتی جنگی اہداف سے ہٹ کر اب میڈیا ادارے بھی براہِ راست حملوں کی زد میں آ رہے ہیں۔ تہران میں ایرانی سرکاری ٹی وی پر حالیہ اسرائیلی حملے نے ایک سنگین سوال کو جنم دیا ہے:
کیا میڈیا پر حملہ اب جنگ کا نیا محاذ بن چکا ہے؟

14 جون 2025 کی شب، اسرائیلی فضائیہ نے تہران میں موجود اسلامی جمہوریہ ایران براڈکاسٹنگ (IRIB) کے ہیڈکوارٹر پر میزائل حملہ کیا۔ یہ حملہ اس وقت کیا گیا جب نیوز اینکر سحر امامی براہِ راست نشریات پیش کر رہی تھیں۔ حملے کے نتیجے میں کم از کم تین افراد جان سے گئے، جبکہ متعدد زخمی ہوئے۔

سحر امامی، ایک دلیر ایرانی نیوز اینکر کا حیران کن قصہ

رامی عبدالرحمٰن، کپڑے کا چھوٹا سا تاجر جس کی تنظیم سب سے مستند خبر رساں ادارہ بن چکی ہے

’’اب کسی میڈیا ادارے یا صحافی کو پابند کرنا زیادہ آسان نہیں رہا‘‘، ڈاکٹرثاقب ریاض

حملے کے بعد نشریات کچھ لمحوں کے لیے منقطع ہوئیں، لیکن جلد ہی بحال کر دی گئیں، اور سحر امامی نے دوبارہ کیمرے کے سامنے آ کر ایک بار پھر اپنی پیشہ ورانہ وابستگی ثابت کی۔

یہ پہلا موقع نہیں جب اسرائیل نے میڈیا اداروں کو نشانہ بنایا ہو:

  • 2006: لبنان میں المنار ٹی وی پر فضائی حملہ
  • 2021: غزہ میں الجزیرہ اور ایسوسی ایٹڈ پریس کے دفاتر پر بمباری
  • 2023: شام میں پریس ٹی وی کے مقامی مرکز کو نشانہ بنایا گیا

یہ واقعات اس رجحان کو ظاہر کرتے ہیں کہ میڈیا اب صرف خبروں کا ذریعہ نہیں رہا، بلکہ جنگی بیانیے کے ایک ہدف میں تبدیل ہو چکا ہے۔

بین الاقوامی قانون کیا کہتا ہے؟

بین الاقوامی انسانی قانون (IHL)، جسے عام طور پر جنیوا کنونشنز کے ذریعے نافذ کیا جاتا ہے، کے تحت:

  • میڈیا دفاتر غیر عسکری اہداف میں شمار ہوتے ہیں۔
  • ان پر حملہ غیر قانونی تصور کیا جاتا ہے، جب تک کہ وہ براہِ راست جنگی کارروائیوں کا حصہ نہ بنیں۔
  • حتیٰ کہ اگر کسی عمارت میں ’فوجی مقاصد‘ بھی ہوں، تب بھی شہری نقصان سے بچنے کی کوشش لازمی ہے۔

اسرائیلی وزیر دفاع کے مطابق:

’ایرانی سرکاری ٹی وی عسکری اداروں کا کمانڈ اور پروپیگنڈا سینٹر ہے، جو میڈیا کی آڑ میں کام کر رہا تھا۔‘

یہ دعویٰ اگر درست بھی ہو، تو بین الاقوامی قانون کے مطابق تناسب اور احتیاط کا تقاضا پھر بھی برقرار رہتا ہے، جو اس حملے میں پورا ہوتا نظر نہیں آتا۔

اس حملے نے نہ صرف آزادی صحافت بلکہ صحافیوں کی جانوں کے تحفظ پر بھی گہرے سوالات اٹھا دیے ہیں۔ معروف صحافی نیما رجب پور اور دیگر کارکنوں کی شہادت اس بات کا ثبوت ہے کہ موجودہ جنگ میں معلومات فراہم کرنے والے بھی محاذِ جنگ پر ہیں۔

سحر امامی نے حملے کے باوجود لائیو نشریات کی بحالی کے بعد دوبارہ کیمرے کا سامنا کیا، جو نہ صرف ان کی پیشہ ورانہ وابستگی بلکہ صحافت کی حرمت کی نمائندگی بھی کرتا ہے۔ ان کا یہ عمل عالمی سطح پر سراہا جا رہا ہے۔

  1. صحافیوں کی سلامتی خطرے میں
  2. عوام تک سچ کی رسائی محدود
  3. ریاستی بیانیہ غالب، غیر جانبدار رپورٹنگ متاثر
  4. آزادی اظہار کا گلا گھونٹا جا رہا ہے

میڈیا پر حملے نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہیں بلکہ وہ عالمی ضمیر کو بھی جھنجھوڑتے ہیں۔ اگر صحافی اور نشریاتی ادارے بھی جنگی ہدف بننے لگیں، تو دنیا میں سچ اور جھوٹ کے درمیان فرق مٹنے لگے گا۔

سحر امامی جیسے کردار ہمیں یاد دلاتے ہیں کہ سچائی کا چراغ بجھایا جا سکتا ہے، مگر جلایا نہیں جا سکتا۔

  • اقوام متحدہ اور دیگر اداروں کو میڈیا پر حملوں کی تحقیقات کرنی چاہئیں۔
  • صحافیوں کو جنگی علاقوں میں بین الاقوامی تحفظ فراہم کیا جائے۔
  • میڈیا ہاؤسز کو عسکری اہداف سے مکمل علیحدہ رکھا جائے۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے