اسرائیلی حملے میں زخمی ہونے والی خواتین، مرد اور بچی

ایران اسرائیل تنازعہ اور  آنے والا کل

·

 یورپ نے جب تہذیب اور انسانی حقوق کے چیمپئین کا ٹیگ اپنے ساتھ لگایا تھا اور بڑی ڈھٹائی کے ساتھ لگایا ۔۔۔۔ تو اس سے پہلے بد تہذیبی، بے شرمی اور بڑی بڑی ڈھٹائیوں کے مظاہرے کر چکا تھا۔ کروڑوں جیتے جاگتے انسانوں کو اپنی ہوس کی بھینٹ چڑھا دیا۔۔۔ انسانوں کو غلام بنایا، ان کو بے دردی سے قتل کیا، انہی کی لاشوں پر اپنے تہذیب کدے تعمیر کیے، انسانوں کی خرید و فروخت کا کاروبار کیا اور خوب کمایا۔ پھر جب اس نے تہذیب اور حقوق کا عنوان بس اپنے ہی نام کر لیا تو عوام و خواص یہ سمجھ بیٹھے کہ اب اس نے ہر بد تہذیبی اور قتل و غارت گری سے توبہ کر لی ہے۔۔۔۔۔لہذا لگا ہر کوئی اس مہذب کے گن گانے۔۔۔

بڑا سانحہ یہ ہوا کہ قیامت تک کے لیے دنیا کی قیادت کا تاج سر پہ سجائے رکھنے کی مکلف امت مسلمہ نے بھی تہذیب کے اس ’چیمپئین‘ کے کہنے پہ اپنے ماتھے کا جھومر ۔۔ اپنی قوت کا نشان۔۔۔۔۔ جہاد ۔۔۔ سے توبہ کر لی۔۔۔ ۔۔۔۔ وقت نے جلد بتا دیا کہ یہ اس امت کی بہت بڑی غلطی تھی۔۔۔۔۔۔

مضبوط پل، چمکتی سڑکیں، خوبصورت پارکس، سیر گاہیں، فلک بوس عمارتیں، ادارے، تنظیمیں، تعلیمی ادارے تشکیل دینے اور دنیا بھر سے ذہین ترین دماغوں کو اپنے ممالک میں کھینچ لینے ۔۔۔۔ امت مسلمہ کے کئی ٹکڑے کر دینے، اسلامی ممالک کے وسائل پہ قبضہ کر لینے کےبعد اس ’چمپئین‘ نے جلد ہی پینترا بدلا اور اپنی اصل روش اور فطرت کے عین مطابق نا انصافی، ظلم اور قتل و غارت گری کا وہ بازار گرم کیا کہ  لوگ ہلاکو خان اور منگولوں کے ظلم بھول گئے۔

اعلان بالفور 1917 یورپ کا وہ ظالمانہ فیصلہ ہے جس کی کوکھ سے ظلم و جبر، تشدد، ناانصافی، لا قانونیت نے جنم لیا۔۔۔۔۔۔۔ بھلا ہو اردو زبان کا کہ ان مظالم کے تذکرے کے لیے ہمیں کم ہی سہی مگر الفاظ مل جاتے ہیں ورنہ ان مظالم کے بیان کے لیے دوسری کسی لغت میں کوئی الفاظ بہ مشکل ہی مل پائیں گے۔

اسی اعلان بالفور کا پیدا کردہ فسادی بچہ آج پل بڑھ کر جوان ہو چکا ہے اور اپنی فتنہ انگیزیوں سے آس پاس کے علاقوں کو ہڑپ کرنا چاہتا ہے۔

 ایران پر اسرائیل کی جارحیت اس کا واضح ثبوت ہے۔ ایران نے بجا طور پر حق دفاع استعمال کیا اور خوب استعمال کیا۔ امریکی سرپرستی میں اسرائیل کے بے مثال فساد و ظلم جبر کے بعد دنیا نے جب اسرائیل کی پٹائی ہوتے دیکھی تو انسانیت سے ہمدردی رکھنے والے دل خوش ہو گئے۔۔۔۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے ہم جو دنیا کی امامت کا مشن دے کے دنیا کے اسٹیج پہ کھڑے کیے گئے تھے ہمیں کرنا کیا ہے۔۔۔۔

ہمیں کرنا یہ ہے کہ۔۔۔ 

1۔۔۔۔ ہمیں مان لینا چاہیے کہ اللہ نے قرآن کی شکل میں ہمیں ایک بہت بڑی امانت دی تھی لیکن ہم نے اس کا حق ادا نہیں کیا۔ یہی وجہ ہے کہ عالم کفر اپنی تمام تر خباثتوں کے ساتھ ہم پر چڑھ دوڑا ہے۔ آج ہمیں قرآن سے اپنا رشتہ مضبوط کرنا ہوگا۔انفرادی و اجتماعی تمام فیصلے اسی کتاب کے مطابق کرنا ہوں گے۔

  2۔۔۔۔ہمیں مان لینا چاہیے کہ دفاع کا حق امت مسلمہ کو بھی حاصل ہے لہذا پوری دنیا میں ہر ملک میں جہاں بھی لوگ جہاد میں مصروف ہیں وہ ہماری حمایت و نصرت کے حقدار ہیں بلا تخصیص شیعہ و سنی۔۔۔ 

3۔۔۔ اس وقت جو شخص شیعہ و سنی کا پرانا جھگڑا تازہ کرنے کی کوشش کرے گا، اس سے بڑا احمق اور کوئی نہیں۔ حالات چیخ چیخ کر بتا رہے ہیں کہ دشمن کی نظر میں شیعہ و سنی سب برابر ہیں۔ وہ سب کو ہی صفحہ ہستی سے مٹانا چاہتا ہے۔ 

4۔۔۔۔ ہمیں اپنی سوچ، اپنی نظر کو وسعت دینا ہوگی۔ میرا ملک، میری زندگی، میرا گھر۔۔۔۔۔ اس تنگ خول سے اب نکلنا ہوگا۔جزوی و فروعی اختلافات کبھی رہے ہوں گے مگر انھیں یاد کرنے کاوقت ختم۔ افغانستان، پاکستان، ایران، ترکی، انڈونیشیا، الجزائر غرضیکہ عرب و عجم ہم سب ایک جسم کی مانند ہیں۔ دشمن اس سارے جسم ہی کی تکہ بوٹی کرنے کے درپے ہے ۔ سو ہم میں سے ہر کوئی جسم کے درد کو محسوس کرے۔۔۔

5۔۔۔ ہم میں سے کوئی بھی، کبھی بھی فروعی اختلافات کی بابت کوئی مواد شئیر نہیں کرے گا۔۔۔۔ بس آج سے ہمارا سبق ایک ہے۔۔۔ ترانہ ایک ہے۔۔۔۔ آرزو بھی یہی ۔۔۔۔۔ آواز بھی یہی۔۔۔۔ یہی دعا۔۔۔۔یہی ندا۔۔۔

یہی مقصود فطرت ہے، یہی رمز مسلمانی 

اخوت کی جہانگیری، محبت کی فراوانی

جی ہاں۔۔۔۔۔

آج سے۔۔۔۔ نہیں نہیں۔۔۔ ابھی سے میں اور آپ بس اخوت و محبت کےفروغ کا ذریعہ ہیں بس۔ اس امید پہ کہ آنے والا کل انسانیت کے لیے آگ و بارود کے شعلے نہیں، امن و سکون، چاہت و اخلاص کے پھولوں کے گجرے لیے آئے۔۔۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے