ٹرمپ ، بنیامین نیتن یاہو، خامنہ ای

اب ہمیں بھی واپس ہو جانا چاہیے

·

بچپن میں ہم جس بچہ پارٹی سے تعلق رکھتے تھے اس میں ہم جیسے بھولے بھالے بچوں کے علاوہ ایک انتہائی ضدی بچہ بھی شامل تھا، بدمعاشیاں کرتا رہتا تھا، ہم مل کر اس کی بدمعاشی کے آگے بند باندھ دیتے تھے۔کبھی کبھی بڑوں کو بھی مداخلت کرنا پڑتی۔

ہوتا یہ تھا کہ وہ بچہ خود ہی کسی بچے کو تنگ کر کے بپھر جاتا کہ اس بچے کو سزا ملنی چاہیے، میں تو تب راضی ہوں گا جب اس کی ٹھکائی کی جائے گی۔ اب جو کوئی بڑا مداخلت کرتا تو اس کی عملی شکل یہ ہوتی کہ اس ضدی بچے کا دل رکھنے کے لیے متعلقہ بچے کی کمر پر اپنا ہاتھ رکھ کر، اس ہاتھ پر دوسرے ہاتھ کا زوردار تھپڑ رسید کرتا اور منہ سے کھینچ کے آواز نکالتا ’اونہہ‘  اور داد طلب نظروں سے ضدی بچے کی طرف دیکھتا کہ لو! اب خوش۔۔۔۔ ۔۔۔۔

مشرق وسطیٰ میں تقریباً پانچ، چھ دہائیوں سے فساد اور بدمعاشی پھیلانے والے اسرائیل نے جب ایران سے خوب پھینٹی کھائی تو لگا اپنے ڈیڈ سے ضد پہ ضد کرنے کہ ڈیڈ! اب تم خود ہی اس جنگ میں کود پڑو نا اور اسے سبق سکھا دو۔۔۔۔

 بچہ ہو، اور ہو بھی لے پالک، خطے میں مفادات کا محافظ، الیکشن میں فنڈنگ بھی کرتا ہو تو باپ کب تک ضد کو ٹالتا لہذا ہفتہ اور اتوار کی رات امریکا نے ایران پر حملہ کر دیا۔ یہ حملہ گویا ایران کو ایک تھپڑ رسید کرنا تھا جیسے ہمارے بچپن میں اس ضدی بچے کو خوش کرنے کے لیے جھوٹی موٹی کا تھپڑ رسید کیا جاتا تھا۔

 قارئین! مشرق وسطیٰ کے واحد بدمعاش نے، جس کا قیام ہی غیر قانونی ہے، خطے کو بدامنی کے کئی تحفے دینے کے بعد 13 جون کو ایران کے درجنوں عسکری اور جوہری اہداف پر حملہ کر دیا۔ اس سے پہلے نیتن یاہو سال ہا سال سے کہتا چلا آ رہا تھا کہ ایران ایٹم بم بنانے کے بالکل قریب ہے۔۔۔‘

حالانکہ ایک کھلا راز یہ ہے کہ خود اسرائیل کے پاس 1960 سے ایٹمی ہتھیار موجود ہیں لیکن اسرائیل نے کبھی سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی۔

امن، سلامتی دفاع اور ہتھیاروں کے معاملات کا تجزیہ کرنے والی غیر جانبدار تنظیم ’ڈیلاس سینٹر فار پیس سٹڈیز‘ کے محقق ڈاکٹر زیوئیر بوہیگاس کہتے ہیں کہ اسرائیل مشرق وسطیٰ میں وہ واحد ملک ہے جس کے پاس جوہری ہتھیار موجود ہیں۔۔

بات کی جائے امریکی  حملے کی تو ۔۔۔۔۔

اب اسے آپ مذاق سمجھ لیں یا ہماری حسیات کی حساسیت کہ ہماری چھٹی حس ہی نہیں، سوچنے سمجھنے کی تمام حسیات یہی کہتی ہیں کہ  ایران نے اپنے جوہری تنصیبات سے اسلحہ اور مختلف چیزوں کو ایک بڑے سے ریموٹ کنٹرول ٹرک پر لاد کر دھکیل دیا۔ یہ ٹرک مستقل سفر میں ہے۔ اب کر لے امریکا بہادر جہاں چاہے حملہ  اور اعلان کر دے کہ جوہری تنصیبات کو تباہ کر دیا۔

ہفتہ اتوار کی درمیانی شب کے حملے کے بعد ایرانی واپس جاتے امریکی طیاروں کو اپنی آنکھوں پر دونوں ہاتھ رکھ کر دیکھتے ہیں اور کہتے ہیں ’چاء مائیاں۔۔’

امریکی طیارے تو اپنا کارنامہ انجام دے کے واپس ہو گئے، اب ہمیں بھی واپسی کا کوئی سفر شروع کرنا ہے

مرعوبیت سے واپسی کا سفر۔۔۔۔۔۔

 ان مغربی طاقتوں کے سامنے صدیوں سے جو زانوئے تلمذ تہہ کیے بیٹھے ہیں، اب ہمیں اٹھ کھڑے ہونا چاہیے۔۔۔ واپس چلنا چاہیے وہ اس لیے کہ یہ مغربی طاقتیں ہمیں جمہوریت، آئین کی پاسداری، قانون کا احترام، انسانی حقوق کا سبق پڑھاتی ہیں لیکن خود ان کے معاملات، ان کے فیصلے، ان کی حمایت اور ان کی مخالفت سب کچھ قانون، آئین، دستور، انسانی حقوق کی پاسداری سے بالا بالا ہوتی ہے۔

ٹرمپ نے ایران اسرائیل جنگ میں چھلانگ لگائی تو

 1۔ یہ امریکی عوام کی خواہش  کے بالکل برعکس تھا۔خاص طور پہ اس لیے بھی کہ ٹرمپ انتخابات جیتے ہی اس کارڈ کے ساتھ تھے کہ ’میں تنازعات و جنگیں ختم کروں گا‘۔ 

2۔ یہ امریکی آئین کی خلاف ورزی تھا کیونکہ کانگریس کی منظوری کے بغیر وہ ایسا کر ہی نہیں سکتے تھے۔

3۔ ٹرمپ اپنی ہی کہی ہوئی بات سے مکر گئے۔ موصوف نے کہا تھا کہ ایران پر حملے کے حوالے سے فیصلہ کرنے کے لیے دو ہفتے لوں گا لیکن دو دن بھی صبر نہ ہو سکا۔

 ہماری ناقص رائے کے مطابق اگر ٹرمپ کو اپنا ’مستقبل‘(80 کے تو ہو چکے ہیں موصوف) عزیز ہے تو ایران سے کوئی اور پنگا نہیں لیں گے۔  وہ اس لیے کہ  اس معاملے میں ان پر شدید داخلی پریشر  شروع ہو چکا ہے۔ ریپبلکنز جو بہت سپورٹ کرتے تھے، مخالف ہو رہے ہیں۔ کانگریس کے اندر سے آوازیں اٹھ رہی ہیں۔ امریکی عوام امریکا کو مزید کسی جنگ میں الجھتا دیکھنا نہیں چاہتے۔

بس! یہی چیز ہے کہ جو ٹرمپ کو اس جنگ سے پرے رکھ سکتی ہے، ممکن ہے کہ وہ امریکا کی تاریخ میں ایسے صدر کے طور پہ نام نہ لکھوانا چاہیں جنھیں اپنی مدت صدارت کے دوران ہی مستعفی ہونا پڑے۔  واضح رہے کہ اس سے پہلے رچرڈ نکسن  واحد صدر تھے جو واٹر گیٹ اسکینڈل نامی چوری کی  واردات کے باعث یہ عہدہ گنوا بیٹھے تھے۔

قارئین !یہ تحریر ابھی مکمل نہیں ہوئی تھی، خبر آن پہنچی کہ ایران نے امریکی ایئر بیسز پہ حملہ کیا ہے اور چند گھنٹوں کے بعد کی خبر ہے کہ ٹرمپ نے سیز فائر کا اعلان کر دیا ہے اگرچہ ایران اور اسرائیل نے سرکاری طور پر اس کی تصدیق نہیں کی۔۔۔

واضح رہے کہ

جی ہاں!  واضح رہے کہ بھارت نے پاکستان کے ہاتھوں ایک ہی دن میں خوب پھینٹی کھالی تھی تو مودی روتا چلاتا ٹرمپ کے حضور پہنچا، اس التجا کے ساتھ کہ ’اب بس۔۔۔۔۔‘

بالکل یہی صورتحال یہاں ہوئی۔ اسرائیل کی ذلت ناک رسوائی و ٹھکائی ایران کے ہاتھوں ہوچکی تو نیتن یاہو کی فریاد ٹرمپ تک پہنچی۔

اور پھر ٹرمپ نے جنگ بندی کرادی۔۔۔۔۔

 بہر حال آج دنیا ایسے نظام کی تلاش میں ہے جس کے اندر احترام انسانیت ہو، کمزور کو بھی جینے کا حق ہو، بدمعاش کو بدمعاشی کی سزا ملے، مظلوم کو انصاف ملے، ظالم کٹہرے میں کھڑا ہو، امن عدل اور خوشحالی کا معنی گوگل سے نہ تلاش کرنا پڑے بلکہ معاشرے خود اس کی چلتی پھرتی تصویر ہوں۔

جا بجا انسانی لہو سے تر یہ زمیں بلک بلک کر آسمان کی طرف دیکھتی ہے اور پوچھتی ہے کب آئے گا نجات دہندہ۔۔۔؟؟؟

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے