ایئر وائس مارشل اورنگزیب احمد اور ان کی اہلیہ محترمہ

زنان مصر اور حسن یوسف

·

قران پاک کتاب ہدایت ہے اور اس کا موضوع انسان ہے اور اس میں پوری انسانیت کی اصلاح، عبرت اور نصیحت کے لیے بہت سے قصص بیان کیے گئے ہیں۔  دنیا کی یہ واحد کتاب ہے جس کے کسی لفظ پہ شک کا شائبہ یا انکار ایمان کے منافی ہے۔ مومن کو پہلا سبق ہی یہ ملتا ہے کہ

’ذالک الکتاب لاریب فیہ‘

ہر قصے کا ہر پہلو کامل سچائی کے ساتھ اجاگر ہوا ہے۔ انسانی تاریخ کی معتبر اور مستند تاریخ صرف اسی کتاب میں درج ہے اور معتبر و مستند  کیوں نہ ہو خالقِ کائنات سے زیادہ سچا اور بہتر کس کا بیان ہو سکتا ہے؟

سورۃ یوسف آیت نمبر تین میں اللہ تعالیٰ نے فرمایا کہ

‘اے محمدؐ، ہم اس قرآن کو تمہاری طرف وحی کر کے بہترین پیرایہ میں واقعات اور حقائق تم سے بیان کرتے ہیں، ورنہ اس سے پہلے تو (ان چیزوں سے) تم بالکل ہی بے خبر تھے۔‘

عوام الناس کا خیال ہے کہ اللہ تعالیٰ نے سیدنا یوسف علیہ السلام کے قصے کو ’احسن القصص‘ قرار دیا ہے حالانکہ اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ہر مثال، قصے اور واقعہ کو بہترین انداز میں بیان کرنے کی طرف اشارہ کیا ہے۔

مزید سطحی سوچ رکھنے والے شعراء، مبلغ اور قصہ گو سورۃ یوسف سے اپنی ذہنیت کے مطابق عشق و محبت کی داستان اخذ کرتے ہیں۔

زلیخا اور اس کی سہیلیوں کے انداز و اطوار اتنے اہتمام سے دلچسپ اندازِ بیان میں کیےجاتے ہیں گویا کہ خود وہاں موجود ہوں اور یہ کوئی مثالی معاشرے کا حال بیان کیا گیا ہو۔ یہ بھول جاتے ہیں کہ یہ ربِّ کائنات کی طرف سے ایک نبی کے بارے میں نصیحت آموز واقعہ بیان کیا گیا ہے۔ اس میں سطحی سوچ کی فکر کو نمایاں کرنے کا میلان انتہائی قابلِ مذمت ہے۔

قران حکیم میں ہر آیت اور ہر قصہ باعثِ عبرت ہے اور ہدایت کے متلاشی کو اندھیروں سے نکال کر روشنی کی طرف راہنمائی کرتا ہے۔

قصہ یوسف میں شاہی خاندان کی عورتوں کا کردار بیان کرنے میں سب سے بڑی حکمت یہ تھی کہ انسانوں کو یاد دلایا جائے کہ معاشرے میں عورتوں کی نفسانی خواہشات جب بے لگام ہو جائیں تو معاشرہ تباہی کے آخری کنارے پہ کھڑا ہوتا ہے۔ عورتیں بھی وہ جو اشرافیہ کے طبقے سے تعلق رکھتی ہوں۔ تہذیب و شائستگی شاہی محلوں سے شروع ہو کے ہی نچلے طبقات میں جاری ہوتی ہے۔ اور جب شرفاء کی خواتین کسی حسین نو عمر لڑکے کی توجہ حاصل کرنے کے لیے پستی میں گر جائیں اور دانستہ انگلیاں زخمی کر لیں تو حیا کی تہذیب کا جنازہ اٹھ جاتا ہے۔ وہ نو عمر خوبرو لڑکا جس کو شاہی محل میں اس خیال سے بھی رکھا گیا تھا کہ شاید ہم اسے بیٹا بنا لیں۔

"مصر میں جس شخص نے اسے خریدا اُس نے اپنی بیوی سے کہا "اِس کو اچھی طرح رکھنا، بعید نہیں کہ یہ ہمارے لیے مفید ثابت ہو یا ہم اسے بیٹا بنا لیں۔” (سورۃ یوسف: 21)

عزیز مصر کی بیوی نے اپنی بے لگام نفسانی خواہش کے ہاتھوں مجبور ہو کر اپنے شوہر کی بات کا بھی خیال و لحاظ نہ رکھا۔

جب حیا نہ رہے تو معاشرے کے مرد و زن جو بھی گھٹیا عمل کریں کم ہے۔ عورت کے افکار و اقوال کسی بھی کامیاب، مشہور یا حسین مرد کی خاطر بے لگام ہو جائیں یا ان عورتوں کے محرم رشتے بے غیرت ہو جائیں کچھ بھی بعید از قیاس نہیں۔

انڈین فلموں کے اداکار ہوں یا کرکٹ کے مشہور ہو جانے والے کھلاڑی راتوں رات لڑکیوں کی نظر میں خوابوں کے شہزادے کیوں بن جاتے ہیں؟ اور اب تو شادی شدہ عورتیں بھی کسی سے پیچھے نظر نہیں آتیں۔

افسوس کا مقام ہے کہ کچھ عرصہ پہلے ایک کھوکھے پہ چائے والا نوجوان جس کے حسن پہ ہر بے شعور لڑکی زلیخا بنی ہوئی تھی۔ نہ جانے کب اور کہاں شیطان نے شیرے کی انگلی کسی دیوار پہ لگا دی تھی۔

اس کے علاوہ نوعمر بچیوں نے ٹک ٹاک پہ جو اودھم مچایا ہوا ہے اس کا تو کچھ نہ پوچھیے۔ ہر لڑکی خود کو حسینہ عالم سمجھتی ہے اور بے تکی بے مقصد اخلاق باختہ ویڈیوز کو فلٹر کرکے مزید ہوشربا بنایا جاتا ہے اور ان ویڈیوز کو لائک کرنے اور پھیلانے والے ان سے زیادہ قابل مذمت ہیں۔

عام مشاہدے کی بات ہے کہ گھروں میں کام کرنے والی بچیاں بھی جن کو لکھنے پڑھنے سے کوئی واسطہ نہیں سمارٹ فون کے سارے کل پرزوں سے واقف ہیں اور اپنی ویڈیوز آن ائر بھیجتی اور لائک کی گنتی چیک کرتی رہتی ہیں۔ معصوم بچیوں کو کوئی مفید اور دلچسپ کام کی طرف راغب کرنے کے مواقع ناپید ہیں۔ یہ بظاہر ایک بے ضرر سی مصروفیت لگتی ہے لیکن انجانی راہوں پر کھو جانے والی لڑکیاں اپنی عصمت اور آبرو کو داؤ پر لگا بیٹھتی ہیں۔۔۔ مقامِ فکر یہ ہے کہ ہم آنے والی نسلوں کے لیے کیا مثالیں چھوڑ کے جا رہے ہیں۔

سچی بات ہے ہم ایک خاص دینی و تحریکی ماحول میں پلے بڑھے ہیں اور اب تیسری پیڑھی کو دیکھ رہے ہیں۔ اس سارے عرصہ میں الحمدللہ اپنے جیسے ماحول سے تعلق رکھے ہوئے ہیں۔ ہماری رشتہ داریاں نئی ہوں یا پرانی، ہم خیال لوگوں میں ہی پروان چڑھیں۔ اس لیے ہم اپنے ارد گرد شعور و فہم سے آشنا ماحول پاتے ہیں اور اطمینان محسوس کرتے ہیں کہ سب کچھ معمول کے مطابق ہے۔ لیکن اپنے ارد گرد تنے خیمے سے نکل کر دیکھیں تو چاروں طرف الحاد، بے حیائی کا دور دورہ ہے، رشتوں کا تقدس پامال ہو رہا ہے۔ عفت و عصمت قصہ پارینہ بن گیا ہے۔ اشرافیہ کی اولادوں نے اپنے خاندان کی ساکھ کا تاریخ جغرافیہ ہی بدل دیا ہے۔ آئے روز ہولناک واقعات دل کو دہلا دیتے ہیں۔

ہم آج بحیثیت قوم اور امت مسلمہ کے اخلاقی پستی کے بدترین حالات میں سانس لے رہے ہیں۔ یہ انسانی تاریخ کے گزشتہ بد ترین ادوار کو مات دے رہا ہے، یہ کسی عذاب کا پیش خیمہ نہیں بجائے خود ایک عذاب ہے۔

قومی سطح پہ کوئی ایسی سرگرمی نظر نہیں آرہی جس سے معلوم ہو کہ عوام میں ذمہ داری کا احساس پیدا کیا جا رہا ہے۔

گزشتہ دنوں ہم حالتِ جنگ میں تھے یا حالتِ مذاق میں؟

سطحی سوچ رکھنے والے افراد نے میڈیا کو جیسے تفریح کا ذریعہ بنا لیا ہے۔ میمز بنانے والے اپنی صلاحیتوں کو منفی رخ پہ بروئے کار لا رہے ہیں گویا کہ ایک تماشا لگا ہوا ہے میڈیا کے میدان میں۔

افسوس سے زیادہ صدمہ ہے کہ جنگ کے دوران کئی عورتوں نے اپنے سفلی جذبات قومی ہیروز کے لیے جس طرح آشکار کیے، سوچ کر ہی شرم سے سر جھک جاتا ہے۔ اپنے ہیروز کے لیے عزت و احترام کی بجائے یہ کیا عامیانہ کلچر پنپ رہا ہے؟ قوم کی مائیں، بہنیں بیٹیاں کب سے اتنی بے باک ہوگئی ہیں؟ باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کی حمیت و غیرت کہاں جا سوئی ہے؟

اللہ تعالیٰ نے عورت کو فطرتاً  شرم و حیا کے زیور سے نوازا ہے جب عورت کو ہر خوب صورت، کامیاب، فاتح مرد میں ایک ہی شبیہ نظر آنے لگے تو شیطان کو ہیر رانجھا والے قصے دہرانے کی زیادہ تگ و دو نہیں کرنی ہوتی۔ اس کا کام باطنی خواہشاتِ نفس کو بے باکی سے اظہار کی آزادی دلانے تک رسائی آسان کرنی ہوتی ہے باقی کام خود بخود ہوتا چلا جاتا ہے۔

کیا مسلمان گھرانے کی خواتین نے زنان مصر کی راہ اختیار کر لی ہے؟

ہماری تعلیم و تربیت میں تو وہ بنیاد ہے کہ آنکھ، کان ،زبان، ہاتھ پاؤں اور دل کے افکارکو بھی حرام سے بچانا ہے۔ اور متعین حدود کا لحاظ رکھنا ہے یعنی فواحش کے قریب بھی نہیں جانا ہے۔ لیکن طرفہ تماشا یہ ہے کہ جب ایک شریف اور باپردہ مہذب خاتون جو حالیہ جنگ کے فاتح ہیرو کے ساتھ بحیثیت بیوی کے ایک پروگرام میں بیٹھی نظر آتی ہیں توانہیں اس شریفانہ حلیہ میں دیکھ کر لبرل خواتین نے جو کچھ بھی اظہارکیا ہے وہ اپنے ہیرو کی عزت افزائی نہیں بلکہ ہرزہ سرائی محسوس ہو رہی ہے۔ شاید یہ کوئی طریقہ ہو ملک میں نفسیاتی ہیجان پھیلانے کا یا خوشی کے رنگ میں بھنگ ڈالنے کا۔ یا کسی زلیخا کو اپنی سہیلیاں ساتھ ملا کر اس جوڑے کی تضحیک مقصود ہے؟

واللہ اعلم کہ ایسی بے باک خواتین کی تربیت کہاں ہوئی ہے۔ اور ان کے شوہر باپ اور بھائی کن جنگلوں میں ہوتے ہیں۔

بے شک اللہ تعالیٰ نے انڈیا کے ساتھ معرکے میں پاکستانی فضائیہ کی شکل میں امتِ مسلمہ کو مایوس کن حالات میں ایک خوشخبری سے نوازا۔ یہ اللہ تعالیٰ کا خاص کرم ہے اس کامیابی سے اللہ تعالیٰ نے یہ غیبی اشارہ دیا ہے کہ دنیا کے جس کونے میں بھی امتِ مسلمہ پہ ظلم ہو رہا ہے اس کا مقابلہ کرنے نکلو میں تمہارا حامی و مددگار ہوں۔

حکومت کو چاہیے کہ ملک کے مقتدر اداروں کو ہدایت دے کہ وہ عوام میں جہاد کا شعور بیدار کریں۔

تعلیمی اداروں اور ہر جگہ جوانوں کے لیے فوجی تربیت لازمی قرار دی جائے۔

کیونکہ ہم ہر وقت حالتِ جنگ میں ہیں اور جنگ میں جوانوں کے جذبات اور کچھ کر گزرنے کے لیے کوئی عملی تربیت ہونی چاہیے۔

مبلغ اسلام جماعتیں قوم کے مردوں میں سنجیدگی، شائستگی، اسلامی تہذیب واقدار اور غیرت ایمانی کا احیاء کریں۔

میڈیا چینلز کو اخلاقی ضابطے کا پابند کیا جائے اور بھانڈ اور میراثیوں کو دانش وروں کی مجلس میں جگہ نہ دی جائے جو ہر سنجیدہ اور حکمت کی بات کو جگت بازی سے بے اثر کر دیتے ہیں۔

بھانڈ اور میراثی جب شاہی درباروں میں قابل فخر سمجھے جاتے ہیں اور عورتوں کے انداز، زنان مصر جیسے ہو جاتے ہیں تو تاریخِ انسانی گواہ ہے کہ پھر قوموں سے تقصیر نہیں پوچھی جاتی بس انجام بد قریب ہونے کا اشارہ کافی ہوتا ہے۔

فاعتبروا یا اولی الابصار

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے