پہلا منظر: روشنیوں سے سجی دنیا کی پرچھائیاں
وہ روشنیوں کی دنیا تھی۔ کیمروں کی چمک، ریمپ پر چلتے ماڈل، تصویروں میں مسکراتے چہرے – ان میں ایک چہرہ حمیرا اصغر کا بھی تھا۔ لاہور کے ایک متوسط مگر باوقار گھرانے سے تعلق رکھنے والی یہ لڑکی خوابوں کا تعاقب کرتے ہوئے کراچی پہنچی تھی۔ ماڈلنگ اور اداکاری کا جنون اسے وہاں لے گیا، جہاں رنگ تو تھے، لیکن اکثر تعلقات صرف وقتی اور مفاد پر مبنی ہوتے ہیں۔
لاہور کے علاقے کیو بلاک، ماڈل ٹاؤن کی رہنے والی حمیرا نے سنہ 2018 میں کراچی کے ڈیفینس ہاؤسنگ اتھارٹی کے ایک اپارٹمنٹ میں سکونت اختیار کی۔ اتحاد کمرشل کی ایک خاموش سی گلی میں واقع سکس سی عمارت کے تیسری منزل پر واقع اس اپارٹمنٹ میں وہ اکیلی رہتی تھیں۔ بظاہر یہ محض ایک رہائش گاہ تھی، لیکن وقت کے ساتھ یہ ایک تنہائی کا قیدخانہ بن چکا تھا۔
دوسرا منظر: خاموشی کا شور
وقت گزرتا رہا، کیمرے کے فلیش کم ہونے لگے، پروجیکٹس چھننے لگے اور پھر سوشل میڈیا پر بھی حمیرا کی موجودگی مدھم ہونے لگی۔ ستمبر 2024 میں ان کی آخری انسٹاگرام پوسٹ سامنے آئی، جس میں وہ ایک فیشن شوٹ میں مصروف دکھائی دے رہی تھیں۔ اس کے بعد، یکایک خاموشی چھا گئی۔
2 اکتوبر کو سٹائلسٹ دانش مقصود سے ان کا آخری رابطہ ہوا۔ ’آپ کی ٹیم کے ساتھ کام کر کے لطف آیا‘ – یہ حمیرا کا آخری پیغام تھا۔ 7 اکتوبر کو ان کا واٹس ایپ اکاؤنٹ آخری بار آن لائن نظر آیا۔ اس کے بعد حمیرا کی زندگی جیسے ایک غار میں دفن ہو گئی ہو۔
تیسرا منظر: بند دروازہ، خاموش دیواریں
8 جولائی 2025 کو کراچی پولیس ایک عدالتی حکم پر اپارٹمنٹ نمبر 3 پر پہنچی۔ دروازہ بند تھا، اندر سے۔ بار بار کی دستک کے بعد جب دروازہ نہ کھلا تو پولیس نے بیلف کے ساتھ زبردستی دروازہ توڑا۔ اندر داخل ہونے پر ایک المناک منظر نے پولیس اہلکاروں کا استقبال کیا۔ زمین پر ایک لاش تھی – کئی ماہ پرانی، مکمل طور پر گل چکی، پہچاننا مشکل۔
وہ لاش تھی حمیرا اصغر کی۔ وہی لڑکی جو روشنیوں کی دنیا کا چمکتا ستارہ تھی۔
چوتھا منظر: لاوارث کی آوازیں
لاش کو جناح اسپتال منتقل کیا گیا۔ پوسٹ مارٹم رپورٹ میں بتایا گیا کہ موت اور پوسٹ مارٹم کے درمیان آٹھ سے دس ماہ گزر چکے تھے۔ جسم مکمل طور پر ڈی کمپوز ہو چکا تھا۔ تشدد کا کوئی نشان نہیں ملا، لیکن موت کی وجہ ابھی بھی لیبارٹری تجزیے کی منتظر تھی۔
یہ بھی پڑھیے
ثنا یوسف کا قتل: انسیل کلچر اور پاکستانی ڈراموں میں مجرمانہ ذہنیت کے ’ہیرو‘
جب خبر میڈیا میں آئی، سوشل میڈیا پر ایک طوفان برپا ہو گیا۔ سوال اٹھے: کیا وہ لاوارث تھیں؟ ان کے گھر والے کہاں تھے؟ کیا وہ ان سے ناراض تھے؟ کیا وہ سب کچھ چھوڑ کر تنہائی میں ڈوب گئی تھیں؟
پانچواں منظر: رشتوں کا جواب
ابتدا میں یہ افواہیں پھیلیں کہ خاندان نے لاش وصول کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ لیکن جلد ہی یہ تاثر غلط ثابت ہوا۔ ان کے بھائی نوید اصغر اور بہنوئی کراچی پہنچے، قانونی تقاضے پورے کیے، اور لاش وصول کی۔ نوید نے میڈیا سے گفتگو میں کہا:
’یہ کہنا کہ والدین نے لاش وصول کرنے سے انکار کیا، سراسر غلط ہے۔ حمیرا ایک خود مختار لڑکی تھی، ہم اس سے باقاعدہ رابطہ رکھتے تھے۔ کچھ مہینے سے رابطہ نہیں ہوا تھا، لیکن ہم مسلسل تلاش میں تھے۔‘
ان کے چچا محمد علی نے بھی کہا، ’اس کا خاندان اس سے ناراض نہیں تھا، وہ خود کم رابطہ کرتی تھی۔ کبھی چھ، کبھی آٹھ مہینے بعد لاہور آتی تھی۔‘
چھٹا منظر: ایک شہر، ایک لاش، اور کئی سوالات
ڈیفینس کی وہ عمارت جہاں حمیرا رہتی تھی، وہ اب بھی خاموش کھڑی ہے۔ اس کے اپارٹمنٹ پر پولیس کی زرد پٹی ہے، جس پر لکھا ہے:
’خبردار، اس سے آگے جانا منع ہے۔‘
پڑوسیوں کو کچھ خبر نہیں تھی۔ نیچے موجود ویٹرنری کلینک کے عملے نے بھی لاعلمی کا اظہار کیا۔ کئی ماہ تک ایک لاش ایک بند اپارٹمنٹ میں پڑی رہی، لیکن کسی نے محسوس نہ کیا – یہ شاید ایک بڑے شہر کی بےحسی کا ثبوت تھا، یا ایک تنہا زندگی کی خاموش موت کا۔
ساتواں منظر: آخری سفر
بالآخر، لاہور کے علاقہ ماڈل ٹاؤن کی فضائیں خاموش ہو گئیں، جب کیو بلاک کی مسجد میں حمیرا اصغر کی نماز جنازہ ادا کی گئی۔ ان کے اہلِ خانہ، چند احباب، میڈیا کے نمائندے اور وہ لوگ بھی موجود تھے جو صرف اس درد کو محسوس کرنے آئے تھے جو کسی کے اپنے سے کٹ جانے کا ہوتا ہے۔
قبرستان میں مٹی کے نیچے وہ خواب دفن کر دیے گئے، جو کبھی کیمرے کی چمک میں جگمگاتے تھے۔
اختتام: کیا ہم نے اسے کھو دیا؟
حمیرا کی موت صرف ایک فرد کی موت نہیں تھی، یہ ایک معاشرتی المیہ تھا۔ یہ کہانی اس عورت کی تھی جس نے خود مختاری کا انتخاب کیا، لیکن تنہائی پائی۔ جس نے شناخت بنائی، لیکن اختتام میں کوئی نہ پہچان سکا۔
یہ ایک سوال بھی ہے، ہم سب سے:
کیا ہم زندہ لوگوں کی خاموشیوں کو سننے کا ہنر کھو چکے ہیں؟
کیا سوشل میڈیا پر موجودگی ہی آج کے دور میں تعلق کا ثبوت ہے؟
یا کیا تنہائی اب موت کا دوسرا نام بنتی جا رہی ہے؟
یہ کہانی ختم ہو گئی، لیکن اس سے جڑے سوال ابھی باقی ہیں۔
جیسا کہ اب تک کی معلومات ہیں کہ حمیرا اصغر کی ممکنہ طور پر موت اکتوبر سن دو ہزار چوبیس میں ہوئی، تب سے اب تک اس کی لاش فلیٹ میں پڑی رہی، پہلے اس میں آہستہ آہستہ بدبو پیدا ہونا شروع ہوئی، پھر بدبو اپنے انتہائی درجے کو پہنچ کر آہستہ آہستہ دم توڑ گئی اور لاش نے گلنا سڑنا شروع کردیا اور اپنی انتہا کو پہنچ گئی، لیکن اس دوران والدین، بہن بھائیوں، دوست احباب اور دیگر جاننے والوں میں سے کسی کو بھی فکر نہ ہوئی کہ حمیرا کیوں خاموش ہے؟ کیا کوئی اتنا بھی لاتعلق رہ سکتا ہے؟
یہ ایک گہرا اسرار ہے جس کا بھید شاید کسی نہ کسی دن کھل جائے۔ لیکن یہ بھید تو کھل چکا ہے کہ کوئی لاکھ اپنوں کے بغیر جینا چاہے، کائناتی حقیقت تو یہی ہے کہ تنہا جیا نہیں جاسکتا۔
بادبان، عبید اللہ عابد
تبصرہ کریں