شاہدہ مجید، اردو شاعرہ ، کالم نگار، صحافی

نوحہ مرگ اور احترامِ زندگی

·

یہ کہانی ختم ہونی چاہیے۔ اس لیے کہ ہم اس سے جو سیکھ سکتے تھے، وہ سیکھ چکے۔۔۔

اب ہمیں زندگی کو جینے والوں کی طرف دیکھنا ہے، نہ کہ ہر درد کو تماشا بنا دینا ہے۔

اگر کوئی یہ سوچتا ہے کہ بچیوں، بیٹیوں نے اس سے کچھ نہیں سیکھا تو یہ غلط ہوگا۔۔ لیکن اس میں سب کرداروں کے حوالے سے کئی سبق ہیں، کئی سوال ہیں۔۔ سوچنے کی جہتیں ہیں ۔۔۔

مثال کے طور پر ۔۔۔

کیا حمیرا اصغر کی موت بھی غیرت کے نام پر ہونے والی اُن اموات میں

شامل نہیں جس میں ہتھیار تو نہیں چلتا مگر رویے کسی گولی سے کم نہیں ہوتے؟

اگر کسی بیٹی کو اتنا تنہا کر دیا جائے کہ وہ مر جائے، تو کیا یہ بھی غیرت کے نام پر خاموشی سے مار دینا نہیں؟

سوچنے کو تو یہ بھی ہے کہ کس کردار کی سفاکی زیادہ بے رحم ہے ۔۔

سچ تو یہ بھی ہے کہ حمیرا کی کہانی میں سفاکی یکطرفہ نہیں —

یہ ہر طرف سے عیاں ہے، ہر کردار کی خاموشی، ضد، انا، اور غیرت کے پردے میں چھپی بےرحمی کسی نہ کسی زاویے سے سفاک لگتی ہے۔

یہ سفاکی ایک بیٹی کی ضد میں جھلکتی ہے  ۔۔

حمیرا نے وہ راستہ چنا جو اُس کے خاندان کی اقدار سے مختلف تھا۔۔۔۔۔۔۔

خواب دیکھے، روشنی چنی، پردہ توڑا، آزادی چاہی ۔۔۔

 گھر کی دہلیز کے اس حصے کو پار کیا جہاں واپسی کے دروازے اکثر بند کردیے جاتے ہیں۔

یہ ضد، اُس کی اپنی زندگی کو ایک تنہائی کے زندان میں لے گئی۔

باپ کا درد بےشک شدید ہے ۔۔۔۔۔

باپ نے بیٹی کو روکنے کی کوشش کی۔۔۔۔۔

سمجھایا، منت کی، ہاتھ بھی جوڑے، سختی بھی کی ہوگی،

 لیکن پھر بیٹی کو مکمل تنہا کر دیا۔۔

 کیا یہ بھی محبت کا انداز تھا یا  انا اور غیرت کی سفاکی؟

بیٹی نے خواب چنے، اور باپ نے خاموشی۔

دونوں کے درمیان جو فاصلہ پیدا ہوا، وہی اصل لاش ہے

جس پر کوئی قبر نہیں بنتی۔

ہم نے بیٹے اور بیٹی کے لیے دو پیمانے بنا رکھے ہیں۔

بیٹا جرم کرے تو بیٹا، بیٹی خواب دیکھے تو سزا؟

 بیٹا اگر جرم کرے، ڈاکہ ڈالے، قتل کر دے یا دہشتگرد بن جائے ۔۔۔۔۔

 تب بھی ماں باپ اُس کا ساتھ نہیں چھوڑتے۔

 عدالتوں کے چکر لگاتے ہیں، جیل میں کھانا لے کر جاتے ہیں،

 اور کہتے ہیں ۔۔۔

’مجرم ہے، لیکن ہے تو میرا بیٹا!‘

لیکن اگر بیٹی صرف اپنی راہ چن لے،

 تو وہ تنہا چھوڑ دی جاتی ہے،

 ایسی خاموشی میں دھکیل دی جاتی ہے

 جہاں آٹھ ماہ تک اُس کی کوئی خبر تک نہیں لیتا۔

 یہ ہے ہمارے رشتوں کا ترازو؟

 وہ بہن تھی، غلط بھی تھی، تب بھی بھائی کہاں تھے جب وہ نشے میں ڈوبی جا رہی تھی ۔۔۔۔

تیسرا  کردار ہے ۔۔شوبز اور سوسائٹی کا سرد بھیانک چہرہ۔۔

جس انڈسٹری کی خاطر اُس نے اپنے سب رشتے کھوئے، وہی انڈسٹری آٹھ ماہ تک اُس کے حال سے بے خبر رہی۔

 تو کیا سفاکی کا سب سے بڑا چہرہ وہاں چھپا تھا جہاں سے اسے چمک، روشنی اور پہچان ملی تھی؟

حمیرا کی کہانی میں سفاکی صرف ایک فرد کی نہیں، پورے معاشرے کے رویوں کی عکاس ہے۔۔۔

 سب کے چہروں پر نقاب ہے ۔۔۔۔۔

کہیں غیرت، کہیں  ضد، کہیں انا، اور کہیں بےحسی،

یہ ساری کہانی باعث عبرت ہے ۔۔ اس کہانی نے کئی نقاب الٹ دیے ہیں۔

شوبز، دوست، رشتے دار — سب نے خاموشی کا انتخاب کیا،

اور آج سب کو افسوس ہے۔

یہی وہ منافقت ہے جو ہمارے معاشرے کا آئینہ ہے۔

کیوں نا اس کہانی کو فراموشی کی قبر میں ڈالنے سے پہلے ۔۔

ہم ایک پل رک کر خود احتسابی کرلیں، آئینہ دیکھ لیں ۔۔

کیا ہمارے رویے درست ہیں؟

کیا ہم مردار پرست اور مردار خور نہیں بن چکے ہیں؟

زندوں کی قدر کرنا ہم نے کب کی چھوڑی ہمیں یاد بھی نہیں۔

 ہم صرف جنازوں پر رو سکتے ہیں:

 ہم اس وقت بیدار ہوتے ہیں جب کچھ بچا ہی نہیں ہوتا —

نہ انسان، نہ رشتہ، نہ وقت۔

۔ہم نوحہ مرگ کے عادی ہو چکے ہیں لیکن زندگی کا احترام ہمیں سیکھنا ہوگا

ہم زندہ انسانوں کو بدنام، تنہا اور نظرانداز کرتے ہیں، مگر جیسے ہی وہ مر جائے، نوحے، تعزیت، اور ہمدردی کے پھول برسانے لگتے ہیں۔

کیا انسان کا احترام صرف اس کی لاش کے لیے بچا ہے؟

ہماری ہمدردیاں مرنے والوں کے ساتھ ہوتی ہیں، جیتے جی ہم کسی کی سچائی کو سننے کے روادار نہیں۔

 کسی کی جدوجہد، اس کی غلطی، اس کی تنہائی — ہم سب سے نظریں چرا لیتے ہیں، یہاں تک کہ وہ ختم ہو جائے۔

کیا یہ رویہ بھی کسی ’قتل‘ سے کم ہے؟

کاش! ہم نوحے لکھنے سے پہلے جینے والوں کو سننے لگیں۔

 کاش! ہم کفن سے پہلے آنچل بچانے کی فکر کریں۔

 اور کاش ہم حمیرا کو صرف ’عبرت‘ نہ بنائیں، بلکہ اپنی ’اصلاح‘ بنا لیں۔

ورنہ اگلی بار نوحہ کسی اور کا ہوگا۔

 اور ہم پھر صرف ’رونا‘ ہی جانیں گے۔

تبصرے کریں گے، جذباتی پوسٹیں لگائیں گے ۔۔

 نوحہ مرگ کرنے والو کرو

زندگی کا بھی احترام کوئی

 حمیرا کی کہانی نے کئی سوال چھوڑے، کئی آنکھیں نم کیں، اور کئی ضمیر جھنجھوڑے۔

 لیکن ہر سوال کا جواب تلاش کرنے کے چکر میں ہم زندوں کو مزید مت ماریں۔

اب اس کہانی کو یہیں ختم ہونا چاہیے…

 جو چلی گئی، اس پر نوحے بہت ہو چکے — اب جو باقی ہیں، انہیں جینے دیا جائے۔

وہ والدین جو رسوائی سے ڈرتے تھے، شاید اپنی ضد اور سرد مہری سے خود ایک بہت بڑی رسوائی سے دوچار ہو چکے ہیں۔

 اب بس — نہ کوئی الزام، نہ کوئی صفائی۔

ہر کردار اپنا انجام پا چکا ،

 اور ہر چہرہ اب واضح ہو چکا ہے۔

کسی اور حمیرا کو مرنے سے پہلے نہ ماریں۔

 اور اگر کوئی زندہ ہے — تو اسے جینے دیں۔۔۔۔

 حمیرا چلی گئی — بہت کچھ کہہ کر، بہت کچھ چھپا کر۔

 اس کہانی کو مزید کھینچنا،

 سچ کی تلاش کے نام پر زندہ لوگوں کو مزید اذیت دینا، شاید اس سے بھی زیادہ سنگدلی ہے۔

اللہ ہمیں ظرف دے، محبت دے،

 اور وہ نظر دے جس سے ہم کسی کی روح کے زخم  وقت پر دیکھ سکیں ۔۔۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے