مسعود-پزشکیان-نو-منتخب-ایرانی-صدر

اسرائیلی حملے میں ایرانی صدر پیزشکیان زخمی ہوئے، رپورٹ

·

ایران کے صدر ڈاکٹر مسعود پیزشکیان 15 جون کو تہران میں ایک اعلیٰ سطحی سکیورٹی اجلاس کے دوران اسرائیل کے میزائل حملے میں معمولی زخمی ہوئے۔ ایرانی حکام کے مطابق یہ حملہ ایران کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے اور حکومت کا تختہ الٹنے کی ایک ناکام کوشش تھی۔

یہ حملہ دوپہر سے کچھ دیر پہلے اس وقت کیا گیا جب صدر پیزشکیان، ایرانی پارلیمان کے اسپیکر، عدلیہ کے سربراہ اور دیگر سینیئر حکام ایک خفیہ مقام پر اجلاس میں شریک تھے۔

ایرانی نیم سرکاری خبر رساں ادارے فارس نیوز کے مطابق اجلاس تہران کے مغربی علاقے میں ایک سرکاری عمارت کے نچلی منزل میں ہو رہا تھا، جب اچانک چھ میزائل اس عمارت کے داخلی و خارجی راستوں پر داغے گئے تاکہ حکام کے فرار کے تمام راستے بند کیے جا سکیں۔

حملے کے فوراً بعد بجلی منقطع ہو گئی اور عمارت کی فضائی نکاسی کا نظام ناکارہ ہو گیا۔ تاہم، حکام پہلے سے طے شدہ ایک ایمرجنسی خفیہ راستے سے اس مقام سے نکل گئے۔
ایرانی صدر پیزشکیان کے بارے میں بتایا گیا ہے کہ وہ اس حملے میں بال بال بچے، البتہ ان کے پاؤں پر معمولی زخم آیا۔

فارس نیوز کے مطابق ایرانی حکام اس بات کی تحقیقات کر رہے ہیں کہ اسرائیلی خفیہ اداروں کو اجلاس کے مقام اور وقت کی درست معلومات کیسے حاصل ہوئیں؟
حملے کی شدت اور درستگی نے تہران میں اندرونی جاسوسی کے امکانات کو جنم دیا ہے۔

صدر پیزشکیان نے ایک حالیہ انٹرویو میں امریکی میڈیا پرسن ٹکر کارلسن سے گفتگو کرتے ہوئے کہا:

’ہاں، انہوں نے (اسرائیل نے) میری جان لینے کی کوشش کی… لیکن وہ ناکام رہے۔ یہ امریکا نہیں تھا، یہ اسرائیل تھا۔ ہم ایک اہم اجلاس میں موجود تھے جب انہوں نے اس جگہ کو نشانہ بنایا۔‘

یہ حملہ اسرائیل اور ایران کے درمیان 13 جون کو شروع ہونے والی 12 روزہ جنگ کے دوران ہوا، جس میں:

ایران کے 1,060 افراد ہلاک ہوئے، جن میں کئی اعلیٰ فوجی کمانڈر اور جوہری سائنسدان بھہ شامل تھے (ایرانی فاؤنڈیشن آف مارٹرز کے مطابق)۔

ایران نے جوابی کارروائی میں اسرائیلی فوجی اور انٹیلیجنس مراکز پر بیلسٹک میزائل اور ڈرون حملے کیے جس کے نتیجے میں

اسرائیل میں 28 افراد ہلاک ہوئے (اسرائیلی حکام کے مطابق)

آخرکار امریکا کی ثالثی میں جنگ بندی عمل میں آئی۔

یہ حملہ ایران اور امریکا کے درمیان نئی جوہری مذاکرات سے صرف دو روز پہلے ہوا، جس سے سفارتی عمل تعطل کا شکار ہو گیا۔
ایران کا دعویٰ ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر ان مذاکرات کو ناکام بنانے اور ایرانی حکومت کی سیاسی قیادت کو کمزور کرنے کے لیے یہ قدم اٹھایا۔

 یہ حملہ نہ صرف ایرانی حکومت کے خلاف ایک غیر معمولی اور خطرناک اقدام ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں کشیدگی کی نئی لہر کو جنم دے سکتا ہے۔

اگر اسرائیل واقعی ایران کی اعلیٰ قیادت کو نشانہ بنانے میں کامیاب ہوتا، تو بھرپور جنگ کا خطرہ یقینی تھا۔

ایرانی حکومت میں اب سکیورٹی کے نظام اور داخلی وفاداری پر سوالات اٹھ رہے ہیں۔

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے