فلسطینی کاز کے پُرجوش حامی اور لبنان کی انقلابی شخصیت جارج ابراہیم عبداللہ بالآخر 40 سال سے زائد قید کاٹنے کے بعد فرانس کی جیل سے رہائی پا کر لبنان واپس پہنچ گئے۔ ان کی واپسی پر بیروت ایئرپورٹ پر درجنوں افراد نے ان کا پرجوش استقبال کیا۔ ان کے حامی فلسطینی پرچم، انقلابی نعروں اور بینروں کے ساتھ موجود تھے۔ وہ ڈھول بجا رہے تھے۔ اور ان کے ہاتھوں میں فلسطینی پرچم، لبنانی کمیونسٹ پارٹی کے جھنڈے اور ایک بڑا بینر تھا جس پر درج تھا:
جارج عبداللہ آزاد ہے — ایک لبنانی، فلسطینی اور بین الاقوامی آزادی کا مجاہد جو فلسطین کی آزادی کے سفر پر ہے۔
جونہی عبداللہ کو لے کر آنے والے طیارہ بیروت ایئرپورٹ کی فضا میں پہنچا، مجمع نے پرجوش نعروں اور تالیاں بجا کر خوشی کا اظہار کیا۔
جارج ابراہیم عبداللہ کی رہائی نے مشرقِ وسطیٰ کے سیاسی حلقوں میں ایک بار پھر اس طویل المدتی قیدی کے نظریات، تاریخ اور مغربی دنیا کے ساتھ اس کے تنازعات کو نمایاں کر دیا ہے۔
📌 کون ہیں جارج عبداللہ؟
جارج ابراہیم عبداللہ کا تعلق لبنان کے شمالی شہر القبیات سے ہے اور وہ مارونائی عیسائی برادری سے تعلق رکھتے ہیں۔ نوجوانی میں وہ مارکسسٹ نظریات سے متاثر ہوئے اور فلسطینی عوام کے حق میں عسکری جدوجہد کو اپنایا۔ لبنان میں جاری خانہ جنگی، فلسطینی پناہ گزینوں کے کیمپوں پر اسرائیلی حملے، اور 1982 کے صبرا و شتیلا قتلِ عام جیسے واقعات نے عبداللہ کو عملی مزاحمت کی طرف مائل کیا۔ انہوں نے 1979 میں ’لبنانی مسلح انقلابی دھڑوں‘ (Lebanese Armed Revolutionary Factions – LARF) کے نام سے ایک تنظیم قائم کی، جس کا مقصد فلسطینی مزاحمت کی حمایت اور اسرائیل و مغربی دنیا کے خلاف جدوجہد کرنا تھا۔
الزام اور گرفتاری
1982 میں پیرس میں 2سفارتکاروں کے قتل نے فرانسیسی اور عالمی سیاسی منظرنامے کو ہلا کر رکھ دیا:
چارلس رابرٹ رے – امریکی فوجی اتاشی
یعقوب بارسیمنٹوف – اسرائیلی سفارتکار
فرانسیسی پولیس نے سفارت کاروں کے قتل کے الزام میں 1984 میں جارج عبداللہ کو گرفتار کیا۔ وہ خود کو اسرائیلی خفیہ ایجنسی ’موساد‘ کے نشانے پر سمجھتے تھے، اور اسی خوف کے تحت پولیس اسٹیشن پہنچ کر خود کو حوالے کیا۔ ابتدائی طور پر ان پر جعلی پاسپورٹ رکھنے اور مجرمانہ سازش کے الزامات لگائے گئے، لیکن بعد ازاں ان کے اپارٹمنٹ سے اسلحہ کا ذخیرہ اور ٹرانسمیٹر برآمد کیا گیا۔
تاہم جارج عبداللہ نے خود پر لگے قتل کے الزامات کی تردید کی، مگر انہیں 1987 میں عمر قید کی سزا سنا دی گئی۔
قابلِ ذکر بات یہ ہے کہ فرانس میں عمر قید پانے والے بیشتر قیدی 30 سال سے کم مدت میں رہا کر دیے جاتے ہیں، مگر عبداللہ کی رہائی کو 25 سال تک سیاسی مداخلت کی وجہ سے مؤخر کیا گیا، کیوں کہ جب بھی ان کی رہائی کا فیصلہ کیا گیا، امریکا اور اسرائیل کی جانب سے شدید مخالفت کی گئی۔ ان کی 11 سے زائد درخواستیں مسترد کی گئیں۔
قید میں زندگی: ایک انقلابی کی کوٹھڑی
فرانسیسی جیل میں اپنی کوٹھڑی کو عبداللہ نے ایک انقلابی میوزیم میں تبدیل کر دیا تھا۔ 11 مربع میٹر کے اس کمرے کی دیواروں پر چی گویرا کے پوسٹرز، فلسطینی پرچم، مسجد الاقصیٰ کی تصویر، اور دنیا کا نقشہ آویزاں تھا۔ ان کا کہنا تھا:
’اگر میں آج زندہ ہوں تو اس کا سبب صرف یہ ہے کہ میں نے اپنی جدوجہد ترک نہیں کی۔ ورنہ 40 سال کی قید انسان کو اندر سے کھوکھلا کر دیتی ہے۔‘
ان کے بقول، انہوں نے جیل میں اپنے کمپیوٹر پر ایک خصوصی کیلنڈر بنا رکھا تھا، جس میں:
بھورا رنگ: انقلابی ساتھیوں کی تاریخِ وفات
نارنجی رنگ: ملاقاتوں کی تاریخیں
سبز رنگ: سالگرہیں
انہوں نے افسوس ظاہر کیا کہ:
’آج کل بھورا رنگ کیلنڈر میں سب سے زیادہ جگہ گھیر رہا ہے۔‘
وہ آج بھی خود کو مارکسسٹ لیننسٹ نظریات سے وابستہ قرار دیتے ہیں، اور ان کے حامی ہر سال ان کی جیل کے باہر مظاہرہ کرتے رہے۔ فرانس کے 3 بائیں بازو کے زیرِ انتظام بلدیاتی اداروں نے انہیں ‘اعزازی شہری’ بھی قرار دیا۔
عدالتی فیصلہ اور رہائی
2013 میں فرانسیسی عدالت نے ایک موقع پر ان کی رہائی کی منظوری دے دی تھی، لیکن اس وقت کی امریکی وزیر خارجہ ہیلری کلنٹن نے فرانسیسی حکومت کو خط لکھ کر عدالت کے فیصلے کی قانونی حیثیت کو چیلنج کرنے کی سفارش کی۔
یہ خط بعد میں وکی لیکس کے ذریعے عوام کے سامنے آیا۔ فرانسیسی وزیر داخلہ مانوئل والس نے بعد ازاں ان کی رہائی کے لیے درکار اخراجی حکم نامے پر دستخط کرنے سے انکار کر دیا۔
17 جولائی 2025 کو فرانس کی ایک عدالت نے اس شرط پر رہائی کا حکم دیا کہ عبداللہ فرانس چھوڑ کر واپس لبنان چلے جائیں۔ فرانس میں قید کے دوران، متعدد بار ان کی رہائی کی کوشش کی گئی، لیکن امریکا اور اسرائیل کی مسلسل سفارتی مداخلت ان کی راہ میں رکاوٹ بنی رہی۔
فرانسیسی رکنِ پارلیمنٹ آندرے تورینیا، جو ایک سخت گیر بائیں بازو کی سیاستدان ہیں، نے رہائی کے دن عبداللہ سے جیل میں ملاقات کی اور ان کے ساتھ ایک یادگار سیلفی بھی لی۔
سیاسی، قانونی اور اخلاقی اثرات
جارج عبداللہ کے وکیل ژاں لوئی شالانسے نے کہا:
’یہ ایک قانونی فتح ضرور ہے، لیکن یہ فرانس کی ریاستی ناانصافی اور امریکی دباؤ کے تحت انصاف کی پامالی کا بھی ایک ثبوت ہے۔‘
نوبیل انعام یافتہ ادیبہ انی ارنو نے بھی ان کی رہائی کے لیے آواز بلند کی اور انہیں ’ریاستی ظلم کا نشانہ‘ قرار دیا۔
فرانسیسی انٹیلیجنس کے سابق سربراہ ایو بونے نے تو یہاں تک کہا کہ جارج عبداللہ کے ساتھ اس سے بھی بدتر سلوک ہوا جو کسی قاتلِ مسلسل کے ساتھ نہیں ہوتا۔ امریکا ان کی رہائی کو روکنے میں جنونی حد تک شامل رہا۔
فرانسیسی اخبار Le Monde کے مطابق، اسرائیل میں سزائے عمر قید پانے والا کوئی بھی فلسطینی قیدی 40 سال سے زیادہ قید میں نہیں رہا — مگر جارج عبداللہ نے 41 سال قید کاٹی۔
تجزیہ کاروں کے مطابق جارج عبداللہ صرف ایک قیدی نہیں، وہ مزاحمت، نظریے اور انصاف کے لیے جدوجہد کی علامت بن چکے ہیں۔ اُن کی رہائی، چاہے جتنی تاخیر سے ہو، عالمی سطح پر فلسطینی کاز کے حق میں آواز بلند کرنے والوں کے لیے حوصلہ افزا لمحہ ہے — اور فرانس جیسے جمہوری ملک کے انصاف اور آزادی کے دعوؤں پر ایک سوالیہ نشان۔
لبنان میں واپسی
لبنان میں عبداللہ کی واپسی کو ان کے حامیوں نے ایک تاریخی فتح قرار دیا ہے۔ بیروت ایئرپورٹ پر حزب اللہ کے حامی حلقوں، بائیں بازو کے کارکنوں اور فلسطینی تنظیموں کے نمائندوں نے ان کا استقبال کیا۔ تاہم مغرب میں ان کی رہائی پر شدید تنقید کی جا رہی ہے۔
پیرس میں اسرائیلی سفارت خانے نے اس فیصلے پر سخت اعتراض کرتے ہوئے کہا کہ ایسے دہشتگرد، جو آزاد دنیا کے دشمن ہیں، انہیں زندگی بھر جیل میں ہی رہنا چاہیے۔
تاہم جارج ابراہیم عبداللہ نے اس ردعمل پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا:
میں کوئی دہشتگرد نہیں، میں ایک سیاسی قیدی ہوں، جو فلسطینی قوم’ کے حقِ خود ارادیت کے لیے لڑا۔‘
سیاسی مؤقف: فلسطین، انقلابی جدوجہد، اور آج کی دنیا
عبداللہ کا کہنا ہے کہ ان کی سیاسی سوچ اب بھی غیر متزلزل ہے۔ ان کے مطابق:
’فلسطین آج بھی عرب دنیا میں انقلاب کا محرک ہے۔
جب تک فلسطینیوں پر ظلم جاری رہے گا، جدوجہد کا راستہ ختم نہیں ہوگا۔‘
انہوں نے غزہ پر اسرائیلی حملوں، مغربی کنارے میں فلسطینیوں پر آبادکاروں کے تشدد اور عالمی برادری کی خاموشی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ عبداللہ نے مغربی ممالک میں ہونے والے جنگ بندی کے حق میں مظاہروں کو سراہتے ہوئے کہا:
یہ مظاہرے ثابت کرتے ہیں کہ دنیا میں ضمیر ابھی مکمل طور پر مردہ’ نہیں ہوا۔‘
تبصرہ کریں