سفر ایران کی ایک دلچسپ داستان
حمامِ گنج علی خان — ایک تہہ خانے میں واقع عجائب گھر
کباب اور چاول کی پلیٹ کا آخری نوالہ جیسے ہی معدے میں اتر کر اطمینان سے بیٹھا، میرے اندر کی وہی پرانی سیاحی کی چنگاری بھڑک اٹھی جو اکثر پیٹ بھر جانے کے بعد سفرنامہ نگار کے قلم میں بھی جان ڈال دیتی ہے۔
ریسٹورنٹ سے باہر نکلا تو سامنے ایک محرابی دروازہ تھا۔ محراب کے عقب میں نیچے اترتی ہوئی تنگ سیڑھیاں ایسے جھانک رہی تھیں جیسے کسی پرانے قصے میں دفن خزانے کا راستہ ہو۔ اینٹیں بھی وہی چھوٹی چھوٹی قدیم، جیسے کسی معمار نے اپنے وقت کا شاہکار گھڑ کر یہاں فریم کر دیا ہو۔
کافی دیر بعد فارسی خانے میں چراغ ٹمٹمائے اور سمجھ آیا کہ یہ تو ’گنج علی خان‘ ہی ہے۔ ایرانیوں کو الفاظ جوڑنے کا یہ شوق عام ہے جیسے ہمارے ہاں ’علی رضا‘ ہوتا ہے، وہاں ’علیرضا‘ لکھتے ہیں۔ اور تب ذہن میں آیا کہ شاید اردو والوں نے ’ان شاء اللہ‘ کو ملا کر لکھنے کی عادت بھی یہیں سے مستعار لی ہو۔
فرق یہ کہ صدیوں تک کسی نے فتویٰ نہیں لگایا، مگر آج کل چند نیم مولوی—جن پر کہاوت صادق آتی ہے کہ ’نیم مولوی خطرۂ ایمان‘— اس پہ تلوار سونت لیتے ہیں۔ ان سے بات کرنے کا اپنا مزہ ہے: آپ کہانی سنائیں، وہ فوراً آپ کے ایمان کے بینک بیلنس کا آڈٹ شروع کر دیتے ہیں۔
دروازے کے اوپر نہایت نفاست سے فارسی رسم الخط میں ’حمام گنج علی خان‘ لکھا تھا۔ مگر الفاظ کچھ اس طرح جُڑے ہوئے تھے کہ میرے جیسے غیرملکی کو پہلے پہل الجھن ہوئی۔ ’گنجعلی‘ پڑھ کر دماغ نے کئی قلابازیاں کھائیں۔ سوچا یہ شاید کسی گنج نامی شخص کا مخفف ہے، یا کوئی نئی ایرانی ڈش کا نام!
میں نے دروازے پر کھڑے ایک بزرگ سے پوچھا، ’یہ حمام اندر کتنا پرانا ہے؟‘
انہوں نے داڑھی پر ہاتھ پھیرتے ہوئے کہا، ’صاحب، اتنا پرانا کہ اگر اس کی دیواریں بولنا شروع کر دیں تو آپ کو دوپہر کا کھانا بھول جائے۔‘
خیر، میں نے دل میں تصور باندھ رکھا تھا کہ سیڑھیاں نیچے کسی گرم حمام میں لے جائیں گی جہاں بھاپ کے بادلوں میں لپٹے لوگ تالاب میں نہا رہے ہوں گے، اور میں ایک ہاتھ میں تولیہ اور دوسرے میں تجسس تھامے ایرانی تاریخ کے کسی ورق پر جا اتروں گا۔ مگر یہ محض میرا رومانوی تخیل تھا، جس نے حقیقت دیکھتے ہی منہ پھیر لیا۔
نیچے ایک ایسا سکوت طاری تھا جیسے وقت کو زنجیر ڈال کر بٹھا دیا ہو۔ ابھی دو تین قدم ہی اترا تھا کہ ایک خوش پوش مگر خالص کاروباری لہجے والے شخص نے فارسی میں آواز دی:
’دو صد تومان!‘
یوں لگا جیسے شاہی فرمان سنا رہا ہو۔ میں نے مسکرا کر کہا، ’بھائی جان، رعایت نہیں ہو سکتی؟‘
وہ ہنس کر بولا، ’صاحب! رعایت صرف شادی میں ملتی ہے، عجائب گھر میں نہیں!‘
میں نے فوری حساب لگایا—یہ تقریباً اٹھارہ روپے بنتے ہیں۔ یاد آیا کہ سن 2001 میں ایک روپیہ تیرہ تومان کے برابر تھا۔ دل ہی دل میں سوچا کہ اگر زیادہ بحث کی تو کہیں قیمت بھی تخیل کی طرح بڑھا نہ دے، سو ٹکٹ خرید کر آگے بڑھ گیا۔
سیڑھیاں تنگ اور نیم تاریک، جیسے صدیوں سے روشنی پر پابندی لگی ہو۔ سیدھی جانے کے بجائے دو تین بار بل کھا کر نیچے اترتی تھیں، جیسے ہر قدم پر مسافر کا امتحان لیتی ہوں۔ دیواروں پر کالے چمکدار پتھر جمی ہوئی خاموشی میں اپنی قدامت کا اعلان کر رہے تھے۔ اس وقت پورے حمام میں صرف میں تھا—ایک تنہا مسافر، اور شاید اس دن کا واحد جیتا جاگتا کردار۔
یہ صفوی دور کا گرم حمام تھا، جسے اب عجائب گھر میں بدل دیا گیا تھا۔ جہاں کبھی بھاپ اور قہقہے گونجتے تھے، وہاں اب صفوی عہد کے مومی باشندے بیٹھے تھے، اتنے جیتے جاگتے کہ پہلی نظر میں فرق کرنا مشکل ہو۔ ماتھے کی شکنیں، داڑھی کے بال، ہاتھوں کی گرفت—سب کچھ ایسا کہ لگتا ابھی پلک جھپک لیں گے۔ چنانچہ جب میری نظر حقہ پیتے ایک بزرگ پر پڑی تو دل ایک لمحے کو دھک سے رہ گیا۔
میں نے ہمت کر کے مجسمے کے قریب جا کر کہا، ’حضور! ایک کش مجھے بھی دے دیں۔‘
وہ پلک نہ جھپکا، بس مجھے گھورے گیا۔ میں نے سوچا، ’چلو خیر ہے، موم کے بزرگ بھی اتنے ہی سنجیدہ ہیں جتنے اصلی والے ہوتے ہیں۔‘
روشوں میں چلتے ہوئے سوچا کہ اس دور کے لوگ بھی خوب طبع دار تھے۔ ہر پیشے کے لوگ—کمہار، سنار، داروغہ، قصائی—یہاں آتے، پہلے غسل، پھر مالش، اس کے بعد حقہ، چائے اور گپ شپ۔ گپ شپ بھی ایسی کہ آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر، نہ کہ موبائل کی نیلی روشنی میں۔ اور پھر سب اپنے مخصوص حجرے میں جا بیٹھتے، جیسے آج کے دور میں لوگ اپنی مخصوص ٹائم لائنز پر بیٹھ جاتے ہیں۔
کسانوں کا کمرہ
ایک گوشے میں کسانوں کی مجلس گاہ تھی۔ تختی پر فارسی میں لکھا تھا:
‘غرفہ کشاورزان‘— یعنی کسانوں کا کمرہ۔
میں نے زیرِ لب کہا، ’واہ! آج کے دور میں کسان کو اتنی عزت کم ہی ملتی ہے جتنی صفوی عہد میں ایک حمام میں ملتی تھی۔‘
تختی جیسے سرگوشی کر رہی ہو: ’آؤ، وہیں بیٹھتے ہیں جہاں زمین کی خوشبو والے بیٹھا کرتے تھے۔‘
میرا تخیل اب مومی مجسموں کو حرکت دیتے دیکھ رہا تھا۔ ایک کونے میں پگڑی باندھے شخص کانسی کی دیگ میں پلاؤ بنا رہا تھا۔ زعفران اور گوشت کی مہک نتھنوں میں بھر گئی۔ میں نے دل ہی دل میں کہا، ’کاش، یہ مجسمہ کم از کم پلیٹ میں ایک چمچ ڈالنے کی حسِ مزاح تو رکھتا!‘
یہ تہ خانہ پنج کونیا تھا۔ آدھی دیواروں پر فیروزی کاشی کاری، باقی پر سفید چونا۔ چھت پر صفوی نقش و نگار، اور گنبد کے بیچ ایک روشن دان جہاں سے سورج کی کرنیں اندر اتر کر فرش پر سنہری قالین بچھا دیتی تھیں۔ پانی کاریزوں سے آتا، بڑے تانبے کے برتنوں میں گرم ہوتا، اور یوں مہمانوں کا استقبال کرتا کہ پانی میں سردی کا سایہ تک نہ ملتا۔
گرم خانہ اور حمام سے واپسی
کسانوں کی مجلس گاہ سے نکل کر میں ایک تنگ محرابی دروازے میں داخل ہوا، جو یوں لگتا تھا جیسے صدیوں کی گرد اپنے شانوں پر اٹھائے مجھے ایک نئے زمانے میں لے جانے کا منتظر ہو۔ دروازے سے گزرتے ہی ایک اور جہاں میرے سامنے کھل گیا — حمام کا دوسرا حصہ، جسے پرانے لوگ ’گرم خانہ‘ کہا کرتے تھے۔ یہ ایک مخمس شکل کا وسیع ہال تھا، دیواروں میں وقت کے نقوش ایسے ثبت تھے جیسے کسی نے بھاپ اور پسینے سے تاریخ لکھ دی ہو۔
چشمِ تصور نے فوراً کمر کس لی، اور میں اپنے آپ کو صفوی عہد کے گرم خانے میں پایا۔ یہاں چند لوگ بڑے بڑے تانبے کے برتنوں میں پانی گرم کر رہے تھے۔ لکڑیوں کے الاؤ سے اٹھتا دھواں چھت سے ہوتے ہوئے ایک پرانی چمنی میں غائب ہو رہا تھا۔ اس دھوئیں کی بو میں لکڑی کی سلگن، پانی کی بھاپ اور شاید صدیوں کے غسل کی مہک رچی بسی تھی۔
ایک شخص، غالباً اس وقت کا ’چیف ہیٹنگ آفیسر‘، تانبے کے دیگچے میں ابلتے پانی پر نظر ڈالتے ہوئے بولا:
’اے کریم داد! لکڑیاں کہاں رہ گئیں؟ تالاب کا پانی ٹھنڈا ہو رہا ہے، لوگ نہانے کے لیے قطار میں کھڑے ہیں۔‘
کریم داد، جو لکڑیاں لانے کا ذمہ دار تھا، جلدی سے بولا:
’آغا، لکڑیاں بازار سے آ رہی ہیں، مگر بارش نے سب کچھ گیلا کر دیا ہے۔ جلنے میں وقت لگے گا۔‘
پانی کے پاس کھڑا ایک مزدور ہاتھ میں لکڑی کا ڈنڈا گھماتے ہوئے بولا:
’آغا جان، اگر اجازت ہو تو میں تہہ خانے کے پرانے گٹکے استعمال کر لوں۔ اگرچہ وہ سوکھے ہیں مگر دھواں زیادہ دیتے ہیں۔‘
چیف ہیٹنگ آفیسر نے تھوڑا سوچ کر کہا:
’چلو، ڈال دو۔ لوگ باہر صحن میں کپڑے اتارے انتظار کر رہے ہیں۔ دھوئیں سے کیا فرق پڑتا ہے، بس پانی کھولتا رہے۔‘
پھر وہ ذرا بلند آواز میں بولا:
’یاد رکھو، یہ گرم خانہ سب کے لیے ہے — مزدور سے لے کر سوداگر تک۔ یہاں اگر پانی ٹھنڈا ہو گیا تو لوگ بازار بھر میں ہمارے حمام کی برائی کریں گے۔‘
ہال کے عین وسط میں پتھروں سے تراشا ہوا ایک تالاب تھا، جس میں کھولتا ہوا پانی انڈیلا جا رہا تھا۔ بھاپ کے بادل تالاب سے اٹھتے، اور لگتا جیسے وقت خود یہاں غسل فرما رہا ہو۔ درجہ حرارت ایسا تھا کہ سردیوں میں یہاں بیٹھ کر آم پکا سکیں۔
تمام نہانے والے صرف لنگوٹ پہنے تالاب میں آدھے ڈوبے، آدھے نکلے، آپس میں باتیں کر رہے تھے۔ کہیں قہقہے تھے، کہیں دھیمی سرگوشیاں۔ شاید کوئی فصل کی قیمت پر بحث کر رہا تھا اور کوئی پچھلی رات کے خواب کی کہانی سن رہا تھا۔
ہال کے ایک جانب کمان دار محرابی برآمدہ تھا، جہاں لوگ فرشی بستروں پر لیٹے مالش کروا رہے تھے۔ جب مالشیا کسی کے جوڑ پر پورا دباؤ ڈالتا، تو یکایک ایک چیخ سنائی دیتی، جو پتھروں سے ٹکرا کر یوں گونجتی جیسے صدیوں سے یہی کھیل جاری ہو۔
اسی دوران، عجائب گھر کے بھاری لکڑی کے دروازے نے ایک مدھم سی چرچراہٹ کے ساتھ نئے آنے والوں کا استقبال کیا۔ چند سیاح اندر داخل ہوئے اور ان کی باتوں اور قہقہوں کا شور میرے نازک تخیل کو چکنا چور کر گیا۔ میں جو لمحہ بھر پہلے صفوی عہد کی بھاپ میں لپٹا بیٹھا تھا، یک دم انقلابِ ایران کے زمانے میں جا آن گرا۔
وہ تمام آوازیں — لکڑی کے جلنے کی ٹک ٹک، پانی کی ابال کی سرسراہٹ، اور پلاؤ کی دل آویز خوشبو — اچانک غائب ہوگئیں، جیسے کسی نے دیگ پر ڈھکن جما دیا ہو۔ سامنے کھڑے سیاحوں میں سے ایک نے کیمرہ سنبھالتے ہوئے پوچھا:
’بھئی یہ حمام تھا یا مسجد؟‘
میں دل ہی دل میں مسکرایا — نہ بھائی، تمہارے شور سے پہلے یہ جنت کا ایک گوشہ تھا۔
اب میرے قدم بھاری تھے، جیسے میں صدیوں کے پتھروں کا بوجھ اپنے ساتھ اٹھائے جا رہا ہوں۔ آہستہ آہستہ زینے اترتے ہوئے میں نے پیچھے پلٹ کر ایک آخری نظر ڈالی۔ حمام گنج علی خان اب خاموش تھا — جیسے وہ بھی ان سیاحوں کے شور سے اکتا کر اپنے صفوی زمانے میں واپس چلا گیا ہو۔
یوں میرا خواب بھاپ میں تحلیل ہو گیا، اور میں ایک بار پھر حال کے ایران میں لوٹ آیا۔ (جاری ہے)
تبصرہ کریں