آزادی کے تین سال بعد،1950 کا پاکستان کیسا تھا؟ نہایت دلچسپ تحریر

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ابومحمد مصعب ……..
جب بنگلہ دیش ہمارا حصہ تھا
جب ہم آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں بڑا ملک تھے۔
جب ہمارا ملک، مسلمان ملکوں میں سب سے بڑا تھا۔
جب کوئی سندھی، بلوچی، پنجابی، پٹھان اور بنگالی نہ تھا، سب پاکستانی تھے۔
جب کوئی سنی شیعہ، دیوبندی، بریلوی نہ تھا۔۔۔۔سب مسلمان تھے۔
جب قومی و علاقائی لباس (شلوارقمیض، دھوتی پگڑی) جہالت کی علامت نہ تھی، نہ ہی برقعہ ’شٹل کاک‘ تھا۔
جب لوک رقص اور لوک گیت ’گناہ‘ نہ تھے۔

جب کراچی ایئرپورٹ، ایشیا کا سب سے بڑا ایئرپورٹ تھا۔
جب ہمارے بڑے شہروں میں وکٹوریا، تانگے، خچر اور گھوڑے ٹرانسپورٹ اور نقل و حمل کے ذرائع تھے اور شہر، ٹریفک کے دھوئیں اور شور کی آلودگی سے پاک تھے۔
جب کراچی، لاہور، پشاور وغیرہ کی سڑکیں کشادہ تھیں جن پر نہ تجاوزات قائم تھیں اور نہ ٹریفک جام ہوتا تھا۔
جب بریکنگ نیوز کے نام پر منفی پروپگینڈا کرتے، پیالی میں طوفان برپا کرتے پرائیوٹ ٹی وی چینلز نہیں تھے۔ خبریں اور سرکاری اعلانات، ریڈیو پاکستان سے نشر ہوتے تھے۔
جب اخبارات کی خبریں اس طرح سینسر نہیں ہوتی تھیں جیسی آج ہوتی ہیں۔
جب ملک کے سرکاری اداروں میں سادگی تھی، ایمانداری تھی، ملک کی تعمیر کا جذبہ تھا۔

جب کشمیر ہماری شہ رگ تھا اور لیڈرشپ اور قوم ایک ہی پیج پر تھے۔
جب بیرونی جارحیت کے خلاف ہماری فوج سربکف تھی اور مرد و زن سویلینز بھی رضاکارانہ طور پر ’نیشنل گارڈ‘ تھے اور ملک کے تحفظ و سلامتی کے لیے جان تک دینے کے جذبہ سے سرشار تھے۔
جب ہمارے نوے فیصد لوگ، کاشتکاری یا غلہ بانی کرتے تھے۔ نوکریوں کے آسرے پر نوجوان بیکار نہیں پھرتے تھے۔
جب گندم ہماری اہم فصل تھی، ہم تین ملین ٹن سے زیادہ گندم اگاتے تھے، چھ ہزار ٹن گندم ایکسپورٹ کرتے تھے کہ وہ ہماری ضرورت سے زائد تھی۔
جب مشرقی پاکستان (آج کے بنگلہ دیش) میں پیدا ہونے والا پَٹ سَن (jute) ہمارے لیے سونا تھا جسے ایکسپورٹ کرکے ہم لاکھوں کروڑوں روپے کماتے تھے۔ جب ہم عالمی منڈی کو دنیا کا تین چوتھائی پٹ سن فراہم کرتے تھے۔
جب ہم ایشیا کے ان چند ملکوں میں شامل تھے جن کی ایکسپورٹ، امپورٹ سے کئی گنا زیادہ تھی اور ہم بیرونی زرِمبادلہ کے معاملہ میں خودکفیل تھے۔

جب ہم آئی ایم ایف اور ورلڈ بینک نامی عالمی ساہوکار اداروں کے مقروض اور غلام نہ تھے۔
جب کورٹ کچہریوں کے بجائے دیہات کے اکثر جھگڑے مقامی جرگوں اور پنچائیتوں ہی میں نپٹ جاتے تھے، جہاں اعلیٰ درجہ کا انصاف ہوتا تھا۔
جب پرائیویٹ اسکولوں کے نام پر دہرے تعلیمی نظام پر مشتمل اسکولوں کا جال نہ تھا اور بچے، سرکاری اسکولوں میں، چٹائیوں پر بیٹھ کر علم حاصل کرتے تھے۔
جب ہمارے نونہالوں کے بستے بھاری نہ تھے، ایک عدد تختی، ایک عدد سلیٹی، اردو، اسلامیات اور معاشرتی علوم نامی کتب پر مشتمل ان کا کورس تھا جس کا وزن ایک ڈیڑھ کلو سے زیادہ نہ تھا۔

جب کبڈی، ہاکی، فٹبال اور والی بال ہمارے کھیل تھے۔ وقت کو برباد کرنے والی کرکٹ سے ہم کوسوں دور تھے۔
جب ہم نے آزادی کے بعد، سات ماہ کے قلیل عرصہ میں کوئلے پر چلنے والے لوکوموٹو ریل کے انجنوں کو ڈیزل میں تبدیل کر دیا تھا۔
جب ہمارے ملکی سربراہ کسی سے ڈکٹیشن لینے کے بجائے قومی وقار، حمیت و سلامتی کو سب سے اوپر رکھتے تھے اور واشگاف طور پر دنیا کو بتاتے تھے کہ ہم کبھی بھی، کسی جگہ بھی کسی کو اپنی آزادی و خودمختاری چھیننے نہیں دیں گے اور لڑیں گے اور امن و سلامتی کے معاملہ میں دنیا سے تعاون کریں گے۔ (لیاقت علی خان کا پڑوسی ملک کو پیغام تھا۔)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں