مزار شاہ نعمت اللہ ولی رحمہ اللہ تعالیٰ

خاکِ فارس کا مسافر(14)

·

ڈیڑھ گھنٹے کے مختصر مگر تھکا دینے والے سفر کے بعد، میں کرمان کی سرزمین پر اترا۔ درحقیقت، میرا یہاں رات گزارنے کا کوئی ارادہ نہ تھا۔ بس اڈے پر چند سندھی پاکستانیوں سے ملاقات ہوئی، جنہوں نے مجھے مشورہ دیا کہ کرمان کے وہ تاریخی مقامات ضرور دیکھوں جو دیکھنے سے تعلق رکھتے ہیں۔ انہی کے مشورے پر میں نے ارادہ بدلا اور ایک رات کے لیے ٹھہرنے کا فیصلہ کر لیا۔ یوں کرمان شہر میں ‘مہمان پذیر شہزاد’ میری منزل بنی۔

یہ ایک عام سا مسافرخانہ تھا، سادہ مگر اپنا ایک الگ ہی انداز رکھتا تھا۔ دو بستروں والا ایک کمرہ میسر آ گیا، مگر ایک بستر کا اضافی کرایہ ادا کرنا پڑا۔ خیال آیا، کاش کوئی ہمسفر ساتھ ہوتا تو یہ بوجھ ہلکا ہو جاتا، اور میں بچت شدہ رقم سے ایران کے مزید شہروں کی گلیاں ناپ لیتا۔ تنہا سفر کا ایک نقصان یہ بھی تھا کہ ہر قدم قیمت مانگتا تھا۔

کمرے میں داخل ہوا تو ماحول خاصہ عام سا تھا۔ بستروں پر بچھی چادریں صاف ستھری تھیں، مگر ان میں ایرانی سرف کی مخصوص مہک بسی ہوئی تھی۔ وہی مہک جو نجانے کیوں ایران کے ہر دوسرے مسافر خانے میں محسوس ہوتی ہے۔ البتہ، ایک چیز نے مجھے چونکا دیا۔کونے میں پڑی ایک جائے نماز اور اس کے ساتھ رکھی ہوئی ایک چھوٹی سی مٹی کی ٹکیہ۔
میں نے جائے نماز کو دیکھا، اس کی گہری سبز رنگت میں عجیب سی اپنائیت تھی۔ مگر اس کے پہلو میں رکھی وہ مٹی کی گول چکنی سجدہ گاہ میرے لیے ایک اجنبی شے تھی۔ اس پر نہایت نفاست سے ایک مسجد کا گنبد اور اس کے ساتھ دو مینار کندہ تھے، اور گنبد کے عین اوپر عربی میں لکھا تھا: ’یا مہدی ادرکنی‘— اے مہدی، مجھے پالے۔ نیچے ایک اور تحریر ثبت تھی: ’تربتِ کربلاء‘—کربلا کی مقدس مٹی۔

یہ شیعہ عقیدے کی وہ خاص روایت تھی جسے میں نے پہلی بار اتنے قریب سے دیکھا۔ شیعہ فقہ میں سجدہ گاہ کا استعمال مستحب سمجھا جاتا ہے، اور اسی سبب وہ امام حسینؑ کے مقتل کی مٹی سے بنی ٹکیہ پر سجدہ کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک، سجدہ زمین کی ان چیزوں پر ہونا چاہیے جو کھانے، پہننے یا کسی اور مفاد میں استعمال نہ ہوتی ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ میں نے پاکستان میں، ایرانی ثقافتی مراکز میں، بعض شیعہ افراد کو درخت کے پتوں پر بھی سجدہ کرتے دیکھا تھا۔

مرورِ زمانہ کے ساتھ، یہ مٹی کی سجدہ گاہ شیعہ پہچان کا ایک اہم حصہ بن گئی۔ پہلے پہل شاید مقتل کی خاک کو ہتھیلیوں میں رکھ کر سجدہ کیا جاتا ہوگا، پھر کسی نے اسے ٹکیہ کی شکل دی، اور آہستہ آہستہ یہ ان کی عبادت کی ایک نمایاں علامت بن گئی۔

میں نے جائے نماز کا استعمال تو کیا، مگر سجدہ گاہ کو ہاتھ میں لے کر صرف دیکھا، اس کے نرم، چکنے لمس کو محسوس کیا، اور ایک لمحے کے لیے سوچا، یہی وہ مٹی ہے جس نے کربلا کے ریگزاروں میں تاریخ کے سب سے کربناک سجدے کو اپنی گود میں سمو لیا تھا۔

ایران میں مسافر خانوں کا تصور ہی الگ ہے۔ یہاں بڑے شہروں کے بلند و بالا ہوٹل نہیں، جہاں استقبالیہ پر کھڑے سوٹڈ بوٹڈ حضرات مصنوعی مسکراہٹ لیے آپ کے کاغذات چیک کریں۔ یہاں تو بس مہمان پذیر ہوتے ہیں۔ سادہ، خاموش، اور اپنے در و دیوار میں جانے کتنے مسافروں کے خواب اور تھکن سموئے ہوئے۔ یہاں قیام یوں محسوس ہوتا ہے جیسے کسی بچھڑے رشتے کے ہاں رات بسر ہو رہی ہو، جہاں کوئی آپ کے لیے دروازہ کھولے، اور کہے، آ جائیے، جگہ تو تنگ ہے مگر دل کشادہ ہے!

کرمان کا مہمان پذیر کچھ بہتر تھا، لیکن شمال کی طرف بڑھیں تو تبریز اور شیراز میں یہ مہمان سرا اور بھی دلچسپ ہو جاتے ہیں۔ یہاں لوگوں نے اپنے گھروں کو ہی ہوسٹل بنا رکھا ہے۔ ایک حصے میں خود رہتے ہیں، دوسرا حصہ اجنبیوں کے لیے وقف کر دیتے ہیں۔ اور کیسا اجنبیت کا وقف؟ یہ تو بس اپنے پن کی ایک صورت ہے۔ وہ مہمان جو چند لمحے پہلے دروازے پر کھڑے تھے، اب چائے کی پیالی ہاتھ میں لیے اہلِ خانہ کے ساتھ دنیا جہاں کی باتیں کر رہے ہیں۔

یہاں کا قیام بس ایک رات کا نہیں ہوتا، ایک تجربے کا ہوتا ہے۔ مشترکہ باورچی خانہ، جہاں کوئی خراسانی سیخ کباب تل رہا ہے، کوئی فارسی میں ناشتہ بنانے کی ترکیب بتا رہا ہے، اور کہیں سے تازہ نان کی مہک آ رہی ہے۔ کھانے کے دوران گفتگو کا ایسا تسلسل جُڑ جاتا ہے کہ لگتا ہے جیسے یہ تمام اجنبی برسوں سے ایک دوسرے کے ہم سفر ہیں، جیسے ان کے درمیان صرف ایک رات کی رفاقت نہیں بلکہ پرانی یادوں کے پل بن رہے ہوں۔

اور اب، وقت کی تیز رفتاری میں یہ روایت بھی جدیدیت کا جامہ پہن چکی ہے۔ اب یہ سب کچھ محض قسمت پر نہیں چھوڑا جاتا، بلکہ آن لائن بکنگ کی سہولت نے ان گھروں کے دروازے ہر اجنبی کے لیے کھول دیے ہیں۔ ایک کلک کریں، اور کسی ایرانی خاندان کے آنگن میں قدم رکھ دیں۔جہاں چائے کے ساتھ کہانیاں بھی پیش کی جاتی ہیں، جہاں بستر کے ساتھ اپنائیت بھی دی جاتی ہے، اور جہاں مسافر، محض ایک رات کے لیے نہیں بلکہ یادوں میں ہمیشہ کے لیے ٹھہر جاتا ہے۔

میں کرمان کی مٹی پر جھکتا ہوں… اس مٹی میں کچھ خاص ہے۔ یہ ریت ویسی نہیں جیسی یزد کے صحراؤں میں بکھرتی ہے، نہ ہی وہ گرد ہے جو شیراز کی ہواؤں میں رقص کرتی ہے۔ یہ مٹی سنبھالتی ہے وہ نقشِ پا جنہیں تاریخ نے کلمۂ شہادت کے لہجے میں محفوظ رکھا ہے۔ سنہ 23 ہجری، ایک سال جو ہجری تقویم میں محض ایک عدد ہے، لیکن کرمان کی زمین پر وہ پہلی آہٹ تھی… جس میں اسلام نے پہلی بار سلام کہا تھا۔

کہتے ہیں کہ عبداللہ بن عبداللہ بن عتبان اور سہیل بن عدی کی قیادت میں مسلمانوں کا پہلا قافلہ جب کرمان کی طرف بڑھا تو وہ محض ایک لشکر نہیں تھا۔ وہ یقین کا سیلاب تھا جو پہاڑوں کی دیواروں کو چیرتا ہوا آگے بڑھتا تھا۔ کچھ لوگ تو المدائنی کے حوالے سے دعویٰ کرتے ہیں کہ عبداللہ بن بدیل بن ورقاء خزاعی نے حضرت عمرؓ کی طرف سے حکم پا کر اس بکھری ہوئی سرزمین کو فتح کے حرف میں ڈھالا۔ اور بلاذری؟ وہ تو صاف لکھتا ہے کہ جب عبداللہ بن عامر، وہی جو بعد میں فارس کے بہت سے قلعے جھکا چکا تھا، خلیفہ کے اشارے پر کوچ کرتا ہے تو کرمان بھی تقدیر کے اس جلالی طوفان میں بہہ جاتا ہے۔

یہ وہ لمحہ تھا جب کرمان کی ہواؤں میں پہلی بار اذان کی نغمگی گونجی تھی، جب یہاں کی چٹانی دیواروں پر ’اللہ اکبر‘کا سایہ پڑا تھا، جب اہلِ کرمان نے پہلی بار اسلام کی روشنی کو قریب سے دیکھا — اور جب یہ شہر محض ایک جغرافیہ نہیں، ایک عقیدہ بن گیا۔

کرمان کی گلیوں میں چلتے ہوئے جب تاریخ کی گرد میں لتھڑی ہوئی دیواروں کو چھوا، تو وقت نے مجھے ایک اور صدی میں دھکیل دیا۔ ایک صدی جو قاجاروں کی تلوار سے پہلے زندوں کی امید سے روشن تھی۔

زند خاندان… جیسے تاریخ کے کسی کم گو شاعر کا ادھورا شعر۔

زَند سلطنت کی بنیاد کریم خان زند نے 1751ء میں رکھی۔ وہ کوئی روایتی فاتح نہیں تھا۔ نہ سونے کا تاج چاہا، نہ تخت کی چمک اس کی آنکھوں میں اتری۔ وہ اپنے آپ کو ’وکیل الرعایا‘یعنی عوام کا نمائندہ کہتا تھا۔ ایک سپاہی، ایک عام انسان، جو نادر شاہ افشار کے قتل کے بعد پیدا ہونے والے خلا کو پُر کرنے کے لیے اٹھا تھا۔

نادر شاہ کا قتل جیسے ایران کی تاریخ کا دروازہ دھماکے سے کھول گیا۔ افشار خاندان بکھر چکا تھا، اور ایران افشاریہ کی پسپائی کے بعد انتشار کا شکار تھا۔ یہی وہ لمحہ تھا جب کریم خان زند نے قدم رکھا۔ نہ خون کا پیاسا، نہ تاج کا بھوکا۔ اس نے شیراز کو دارالحکومت بنایا، تخت نہیں بنایا، انصاف کا چراغ جلایا۔

زَند خاندان کی حکومت تقریباً 46 برس قائم رہی—1751ء سے 1794ء تک۔
ان برسوں میں، ایران میں ایک بار پھر تعمیر شروع ہوئی، بازار بنے، باغات لگے، عوام کو سکون ملا۔ مگر… تاریخ کا المیہ یہی ہے کہ وہ دیرپا انصاف سے زیادہ، فوری طاقت کو یاد رکھتی ہے۔

کریم خان کی وفات کے بعد زند خاندان کی کشتی ڈولنے لگی۔ جانشین نااہل نکلے، اندرونی خانہ جنگیاں شروع ہوئیں، اور تب… تب افق پر ایک سیاہ بادل نمودار ہوا :آقا محمد خان قاجار۔

زند سلطنت کو اس کی تمام تر نرمی اور انسانیت کے باوجود آخرکار قاجاروں کی برہنہ تلوار کے سامنے جھکنا پڑا۔ لطفعلی خان زند، جو اس خاندان کی آخری امید تھا، کرمان میں قاجاری قہر کا شکار ہوا۔

زند خاندان ایک ایسا خواب تھا جو نادر شاہ کی موت کے بعد آیا — ایک مختصر، مگر حسین خواب۔ مگر بیداری قاجاروں کی شکل میں آئی، اور خواب چکناچور ہو گیا۔

رات کے آخری پہر جب کرمان کے پہاڑوں کی چھاتی پر چاندنی اترتی ہے، تو میں اکثر سوچتا ہوں — کیا اس چاندنی نے کبھی وہ رات بھی دیکھی تھی؟ وہ رات، جو شاید کرمان کی تاریخ کی سب سے تاریک رات تھی؟ میں نے کرمان کے در و دیوار پر ہاتھ پھیرا، جیسے کسی پرانے زخم کی ٹھنڈک کو محسوس کرنا چاہتا ہو، اور تب ماضی نے میرے قدموں تلے مٹی کی صورت سرگوشی کی — ’یہاں آقا محمد خان قاجار آیا تھا۔‘

وہ سال 1794ء تھا، لیکن کرمان کی گھڑیوں نے اس سال کی ساعتوں کو روک دیا تھا — خون میں لتھڑا ایک ایسا سال، جس کا ہر دن ایک ماتم تھا۔ آقا محمد خان قاجار، جو قہر کی ایک مکمل تعریف تھا، زند سلطنت کے بچ رہنے والے آخری چراغ، لطفعلی خان زند کو بجھانے کے لیے کرمان کی دیواروں پر دستک دے رہا تھا۔ مگر یہ دستک محبت یا مصالحت کی نہیں تھی، یہ وہ دستک تھی جو دروازے نہیں، پورے شہر کو گرا دیتی ہے۔
کرمان نے اس وقت مزاحمت کی، شاید امید تھی کہ قدرت کوئی معجزہ نازل کرے گی۔ مگر معجزے تاریخ میں ہمیشہ تاخیر سے اترتے ہیں۔ قاجاری لشکر اندر آیا، اور پھر… وقت رک گیا۔

میں نے ایک پرانے بزرگ سے پوچھا جس نے اس تاریک اور خونریز رات کے بارے میں روایات سینہ بہ سینہ سن رکھی تھیں، ’بابا، وہ رات کیسی تھی؟‘
وہ خاموش رہا… اس کے چہرے پر سکوت کی ایک پرچھائیں پھیل گئی، جیسے اس کے آباؤ اجداد کے دکھ آنکھوں کے راستے پھر سے بہنے لگے ہوں۔ پھر وہ آہستہ سے بولا،

‘رات؟ بیٹا، وہ تو رات نہ تھی، وہ تو قیامت کا پہلا منظر تھا۔’
روایت ہے کہ ہزاروں شہری قتل کیے گئے، بچوں کو غلام بنایا گیا، عورتوں کو ہانکا گیا، اور وہ سب کچھ ہوا جسے بیان کرتے ہوئے قلم بھی کانپتا ہے۔ حتیٰ کہ آقا محمد خان نے کرمان کے مردوں کی آنکھیں نکال کر ان کا ایک مینار تعمیر کروایا۔ تاریخ اس مینار کو ’برج چشم‌ها‘(آنکھوں کا مینار) کہتی ہے۔ لطفعلی خان زند کو اندھا کیا گیا — اور پھر قتل۔

یہ سب سن کر میں کرمان کی گلیوں میں دیر تک بھٹکتا رہا۔ دیواروں سے لپٹ کر ان کا ماتم سنتا رہا۔ شاید یہ دیواریں آج بھی چیخ رہی ہیں — خاموش، بےصدا، مگر پھر بھی واضح۔

مجھے لگا جیسے کرمان کی زمین اب بھی سرخ ہے۔ شاید وہ خون اب بھی سوکھا نہیں۔ اور چاندنی…؟ ہاں، وہ آج بھی اترتی ہے… لیکن وہ رات، وہ رات نہیں بھولی۔

نوٹ: بادبان ڈاٹ کام پر شائع شدہ کسی بھی بلاگ، تبصرے یا کالم میں ظاہر کی گئی رائے مصنف یا مصنفہ کی ذاتی رائے ہوتی ہے، جس سے متفق ہونا بادبان ڈاٹ کام کے لیے قطعاﹰ ضروری نہیں ہے۔

تبصرہ کریں

آپ کا ای میل ایڈریس شائع نہیں کیا جائے گا۔ ضروری خانوں کو * سے نشان زد کیا گیا ہے