ایک طاقتور ہمسایہ ملک سعودی عرب کی قطر کو جزیرہ بنا دینے کی دھمکی، پوری طرح سے معاشی ناکہ بندی کے ساتھ ساتھ فضائی حدود پر بھی مکمل پابندی کے باوجود قطر کمزور کیوں نہیں پڑا؟ اور سعودی عرب کی کوئی بھی حکمت عملی قطر کو جھکا کیوں نہیں پائی؟
اس دوران قطر نے نہ صرف اس دباؤ کا مقابلہ کیا بلکہ اس نے اپنا انسانی حقوق کا ریکارڈ بھی بہتر کیا۔ 25 لاکھ کی آبادی والے اس چھوٹے سے ملک نے تیل پیدا کرنے والے ممالک کی تنظیم اوپیک سے نکلنے کا اعلان کر کے سعودی عرب کو بیک فُٹ پر کھڑا کر دیا ہے۔ قطر کے خلاف سعودی عرب کی سربراہی میں آدھے درجن ملک ہیں پھر بھی یہ اتحاد قطر کو جھکانے میں ناکام رہا۔ فوربز کے مطابق قطر کے زر مبادلہ کے ذخائر 2.9 ارب ڈالر سے 17 ارب ڈالر تک پہنچ گئے ہیں۔
قطر ایک چھوٹا سا ملک ہے جس کی 25 لاکھ آبادی میں سے نوے فیصد تارکین وطن ہیں۔ یہ وہ ملک ہے جس پر اس کے ہمسایہ اور طاقتور ملک سعودی عرب اور اس کے اتحادی ممالک نے، جن میں بحرین، مصر اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، اقتصادی اور سفارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں۔18 ماہ گزر جانے کے بعد بھی فی الحال کسی حل کی کوئی امید نظر نہیں آ رہی۔ پیر کو قطر نے اوپیک سے الگ ہونے کا اعلان کیا تھا اور اب کہا جا رہا ہے کہ شاید وہ خلیجی ممالک میں تعاون کی تنظیم گلف کوآپریشن کونسل (جی سی سی) سے بھی الگ ہو سکتا ہے۔
خلیجی ممالک پر نظر رکھنے والے تجزیہ کاروں کے مطابق قطر اگر ایسا کرتا ہے تو اس کو قابو کرنے کی تمام کوششوں میں لگے سعودی عرب کو نہ صرف الجھن ہوگی بلکہ اس سے وہ خاصا پریشان بھی ہوگا۔ جی سی سی ممالک میں قطر پر اقتصادی پابندیاں لگانے والے دو ممالک، سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات بڑے پلیئر ہیں۔ جی سی سی اب تک قطر کے مسئلے کو حل کرنے میں ناکام رہی ہے۔
سعودی قطر تعلقات کیوں ٹوٹے؟
کئی مبصرین کا خیال ہے کہ 2017 میں سعودی عرب سمیت چھ ممالک کے ساتھ، جن میں مصر، بحرین، یمن، لیبیا اور متحدہ عرب امارات شامل ہیں، قطر کے سفارتی تعلقات ٹوٹنے کے پیچھے علاقائی اور تاریخی وجوہات تھیں۔
دراصل قطر 55 سال تک برطانوی حکمرانی کے بعد 1971 میں آزاد ملک کے طور پر سامنے آیا۔ اس سے پہلے وہ متحدہ عرب امارات کا حصہ بننے سے انکار کر چکا تھا۔ اس کے بعد سے ہی قطر پر سخت گیر گروہوں کی حمایت کے الزامات لگتے رہے جن سے وہ انکار کرتا رہا۔ یہاں 19 ویں صدی سے ہی الثانی خاندان کی حکمرانی ہے۔ امیر شیخ تمیم بن حماد الثانی نے 2013 میں اپنے والد شیخ حماد بن خلیفہ الثانی کے عہدہ چھوڑنے کے بعد اقتدار سنبھالا تھا۔
خلیجی ممالک کے ساتھ کشیدگی
قطر اور دیگر خلیجی ممالک کے درمیان کشیدگی کا آغاز تب ہوا جب مصر میں صدر محمد مرسی کو فوج نے 2013 میں عہدے سے ہٹا دیا تھا۔ سعودی سرکاری میڈیا میں کئی بار مصر کے اخوان المسلمون کے لیے قطر کی مبینہ حمایت کے بارے میں تشویش کی خبریں آتی رہی ہیں۔ مارچ 2014 میں سعودی عرب، بحرین اور متحدہ عرب امارات نے قطر پر ان کے اندرونی معاملات میں دخل اندازی کا الزام لگاتے ہوئے اپنی سفیر واپس بلا لیے تھے۔ مصر نے اس سے پہلے الجزیرہ پر انتہا پسندی کو فروغ دینے اور جعلی خبریں بنانے کا الزام لگایا تھا۔
قطر: تیل، گیس کی طاقت
ایران اور روس کے بعد قطر قدرتی گیس پیدا کرنے والا دنیا کا تیسرا بڑا ملک ہے۔ اس کے ساتھ ہی اس کے پاس پیٹرولیم کے بھی وسیع ذخائر ہیں۔ بےشک سعودی عرب نے قطر پر اقتصادی اور سفارتی پابندیاں لگا رکھی ہیں لیکن اس کے باوجود عرب ممالک میں اس کی طاقت بےشمار ہے۔
تیل اور گیس سے ملنے والی بیشمار رقم سے قطر دنیا بھر میں سرمایہ کاری کرتا ہے۔ نیو یارک کی ایمپائر سٹیٹ بلڈنگ، لندن کے سب سے اونچے ٹاور دی شارڈ، اوبر اور لندن کے ڈیپارٹمنٹ سٹور ہیرڈس میں قطر کے سلطان کی بڑی حصہ داری ہے۔
اس کے علاوہ دنیا کی کئی بڑی کمپنیوں میں قطر کی حصہ داری ہے۔
سفارتی مضبوطی
اگر بین الاقوامی سطح پر قطر کی سفارتی طاقت کی بات کی جائے تو سوڈان کے دارفور میں ہونے والی امن کی کوششوں میں اس نے ثالث کا کردار ادا کیا تھا اور فلسطینی گروہوں کے درمیان بیچ بچاؤ بھی کرتا رہا ہے۔ افغان حکام اور طالبان کے درمیان امن مزاکرات میں بھی قطر ثالث کے طور پر شامل رہا ہے۔ الجزیرہ بھی قطر کا ہی ٹی وی نیٹورک ہے جس نے عرب دنیا میں خبریں پہنچانے کے طریقے کو کافی تبدیل کیا۔ اس کی وجہ سے دنیا بھر میں اس نے اپنی ایک جگہ بنائی۔ قطر ائیر ویز کو آج دنیا کی بہترین ائیر لائنز میں شمار کیا جاتا ہے اور 2022 کا فٹبال عالمی کپ قطر میں ہی منعقد ہوگا۔ وہ عرب دنیا کا ایسا پہلا ملک ہے جو اس ٹورنامنٹ کی میزبانی کر رہا ہے۔ حالانکہ اس کی تیاری میں غیر ملکی مزدوروں کے ساتھ ہونے والے نامناسب سلوک کی خبریں بھی میڈیا پر آتی رہتی ہیں۔
اقتصادی مضبوطی
سعودی عرب کی پابندیوں کے ایک ماہ بعد قطر کے وزیر خزانہ علی شریف ال ایمادی نے کہا تھا کہ ان کے ملک کی خوشحالی اور دولت پڑوسیوں کو راس نہیں آتی۔ قطر کی خوش حالی کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ ورلڈ بینک کے مطابق قطر فی شخص جی ڈی پی کے لحاظ سے دنیا میں پہلے نمبر پر ہے۔ کئی ماہرین کا کہنا ہے کہ قطر ان پابندیوں کی وجہ سے اور مضبوط ہوا ہے، کیونکہ اس نے اپنی پوری توجہ بین الاقوامی سرمایہ کاری پر لگائی ہے۔
سعودی عرب کو امریکہ کی حمایت
دوسری جانب استنبول میں مقیم سعودی قونصل خانے میں 2 اکتوبر کو صحافی جمال خاشقجی کے قتل کے بعد سعودی عرب پر نہ صرف بین الاقوامی سطح پر تنقید کی جا رہی ہے بلکہ ہر پلیٹ فارم پر اس کا ساتھ دینے والی ٹرمپ انتظامیہ پر بھی اندرونی دباؤ بڑھتا جا رہا ہے۔
حالانکہ اس سب کے باوجود صدر ٹرمپ نے اپنے بیان میں ایران کے خلاف امریکی لڑائی میں سعودی عرب کو اہم اتحادی مانا ہے۔ اس کی وجہ سعودی عرب میں دنیا کے مجموعی تیل کے ذخائر کا 18 فیصد موجود ہونا، امریکہ میں بڑی سرمایہ کاری اور اس کا امریکہ ہتھیاروں کا بڑا خریدار ہونا ہے۔ سعودی عرب مشرق وسطیٰ کے کسی بھی ملک سے زیادہ ہتھیار خریدتا ہے۔ وہ دنیا میں فروخت ہونے والے کل ہتھیاروں کے تقریباً دسویں حصے کا خریدار ہے۔ خاشقجی کے قتل کے بعد سے پچھلے کچھ دنوں میں امریکی صدر ٹرمپ پر ولی عہد محمد بن سلمان سے دوریاں پیدا کرنے کا دباؤ ضرور ہے لیکن یہ واضح ہے کہ ان کا سعودی عرب سے پیار سعودی کے کروڑوں ڈالر کی سرمایہ کاری کی وجہ سے ہے۔
ٹرمپ انتظانیہ کا ردعمل اس صورت حال کو مزید بگاڑ سکتا ہے۔ مبصرین کو خدشہ ہے کہ کہیں قطر-سعودی کشیدگی قطر- امریکہ کشیدگی میں تبدیل نہ ہو جائے۔ اگر ایسا ہوتا ہے تو قطر میں 10 ہزار امریکی فوجیوں والی فوجی بیس کا کیا ہوگا؟
اتنا ہی نہیں امریکہ کے کہنے پر جن اسلامی گروہوں کے ساتھ قطر ثالثی کرتا رہا ہے ان کا کیا ہوگا؟ ساتھ ہی اس خطے کے دیگر ممالک کو بھی اس سے یہ پیغام ملے گا کہ اگر سعودی عرب کا مقابلہ کیا تو ان کے ساتھ قطر جیسا سلوک ہوگا۔
(بشکریہ بی بی سی)