ڈاکٹر منان بشیر وانی، ایک عجیب وغریب کشمیری نوجوان کا حیران کن تذکرہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

واصف بٹ………
دل اب بھی اس گمان سے خود کو بہلا رہا ہے کہ وہ کہیں دور، دشمن کی نظر سے محفوظ و مامون ہیں. وہ شخص ہی ایسا تھا کہ ان کے کوچ کر جانے کی خبر کا عین الیقین ہو چکنے کے باوجود بھی قلب کی اتھاہ گہرائیوں سے ان کی سلامتی کے لیے دعائیں بےاختیار نکل رہی ہیں.

وہ شخص شوق کا عنوان تھا. سچ جانو ان کی مفارقت نے اس شوق میں کئی گنا اضافہ ہی کیا ہے. وہ شادابیٌ دل اور تفریحِ نظر کا سامان تھا. ظلم کی سیاہ شب میں بھٹکے دلفگاروں اور رنجیدہ خاطروں کے درد کا وہ درماں بننے لگا تھا. وہ مجبوروں کے درد سے معمور دلوں میں مدفون کچھ حسین خوابوں کی تعبیر نو تھا. وہ امیدوں اور آرزوؤں کا مرکز و محور بنتا جارہا تھا. وہ فرد کے دائرے سے خراماں خراماں نکل کر ایک تحریک کا روپ دھارتا جارہا تھا. وہ اک متاعِ بےپایاں اور مظلوموں اور مقہوروں کی ایک مشترکہ جاگیر کی حیثیت سے موسوم ہوا جارہا تھا. وہ سیاہ شب میں اپنی مشعلِ قلم جلائے افسردہ قلب جگمگانے آیا تھا. وہ دورِ خزاں میں بہارِ لازوال کی ایک خوش کن نوید تھا. وہ بجھی اور ویران و پریشان بزم میں چراغاں کرنے آیا تھا. وہ ٹوٹی طنابیں اپنے سریلے نغموں سے جوڑنے آیا تھا.

افسوس کہ انجم کے جھرمٹ میں یہ ٹمٹماتا ستارہ ابھرنے سے پہلے ہی غروب ہو گیا. 4 جنوری سے 11 اکتوبر تک کا سفرِ مسعود مصائب و مشکلات سے بھرپور وادئ لولاب میں مرگ و حیات سبھی اسرار و رموز اپنے ساتھ سمیٹے اپنے اختتام کو پہنچا.

وہ خوبصورت اور خوش اندام نوجوان اپنے وطن کے ہر باسی کو عزیز تھا. کیوں نہ ہوتے کہ وہ علیگڑھ میں اپنی ڈاکٹریٹ چھوڑ کر اپنی مادر وطن کو بھارتی طوق و سلاسل سے چھٹکارا دلانے ہر چیز ترک کر کے اپنا حصہ ڈالنے آئے تھے. وہ ‘شاید’ اپنے حصے کا کام کر گئے. ‘شاید’ اس لیے کہ یہاں ہر ایک کی حسرت ہے کہ وہ اور بھی بہت کچھ کرتے اگر محیی و ممیت کی طرف سے انہیں چند اور ساعتیں عطا ہوتیں.

وہ عجیب و غریب نوجوان تھا. ان کے خون میں آگ کی سی حرارت تھی. ان کا دل جذبہ صادق سے معمور تھا. ان کے کلام میں بھلا کی تاثیر تھی. ان کے نطق میں غضب کی طاقت تھی. وہ دشمن کی سازشوں اور اس کے مقامی سہولت کاروں کی منافقت کا پردہ خوبصورتی سے چاک کرتے ہوئے ان کے اندرون ہمارے سامنے رکھتے ہوئے بہت سوؤں کی نیندیں حرام کر بیٹھا تھا. وہ بہت بظاہر ‘غیر جانبدار’ نظر آنے والوں کی آنکھوں میں چشم زدن کھٹکنے لگا تھا. ان کی تحریریں ان کے شریر دل و دماغ کو چبھنے لگیں تھیں. اس بےچینی میں وہ کروٹیں بدلتے دیکھے گئے. لیکن ان کی نادر عقل و دانش کے سامنے ان کی زبانیں گنگ ہو گئیں تھیں. ان کے قلم کی سیاہی خشک پڑ گئی تھی. خاموشی اتنی دراز ہوگئی کہ اس مرد حر کی شہادت کے ساتھ ہی ان کے قلم رطب و یابس اور زبانیں پاگلیات بکنا شروع ہوگئیں.

وہ جرات و ہمت کا ایک بھر پور خزینہ تھا. وہ فکر و عمل سے ایک آزاد روح تھی. تبھی تو اتنے بڑے اور طاقتور اسٹیٹ سے لڑائی مول لی. اس غیر معمولی شجاعت و غیرت کی مظہر ان کی یہ سطریں ہیں جو آبِ زر سے لکھے جانے کی قابل ہیں. ~
“جب قابض غیر مہذب اور وحشی ہو، اسکا اجتماعی ضمیر خوں آشام ہو، اسکی اخلاقیات دھوکہ اور فریب ہو،اسکی ذہنیت غالبانہ، توسیع پسندانہ ہو اور وہ بندوق کی نالی سے سوچتا ہو تو ایسے میں پرامن مذاکرات حل نہیں ہو سکتا. ضروری ہے کہ اسکا گھمنڈ اور غرور توڑا اور کچلا جائے.”

میری ان سے کوئی خاص شناسائی نہیں تھی. ہاں البتہ یہ رشتہ ضرور تھا کہ وہ بھی میری طرح ایک وسیع و عریض زنداں کا ایک اسیرِ بےتقصیر تھا. محصوری کی کڑی اس ساری محبت کی بنیاد تھی. اس ناتے کو چھوڑ کر سوشل میڈیا پر اکثر ان کی تحریریں آنکھوں سے ٹکرا کر قلب کی تاروں سے لمس کرتیں. ان کی خودکلامیاں ان کی دانائی اور بینائی کی آئینہ دار ہوتی تھیں. ان کی ہمکلامیاں حالات و واقعات کا صحیح فہم لیے انسان کو سوچ و بچار پہ مجبور کر دیتیں. برصغیر کے مسلمانوں کی حالت زار بالخصوص اور مسلمانان عالم کی زبوں حالی بالعموم اکثر ان کے دردمند قلم کو حرکت دینے پر مجبور کرکے اظہارِ غم کا موقعہ ڈھونڈ لیتا. قصہٌ سازشِ اغیار کا ذکر کرتے ہوئے شکوہٌ یارِ طرحدار کو بھی فراموش نہیں ہونے دیتے. تقریر و تحریر کی صلاحیت سے لیس آہنی کلیجہ رکھنے والا ایک ہردم متحرک نوجوان تھا.

انہیں ظلم کے چھاوں کی زندگی راس نہیں آئی. انہیں راہِ مفر نہیں سوجھی. انہیں آدابِ غلامی کا پابند ہونا نہیں بھایا. میدان کا رخ کرنے والے سرفروشوں پہ طنز و مذاق کی بارشیں کرنے والے بظاہر آزادی پسند مگر حقیقتاً غلامی پہ قانع لوگوں کی پبھتیوں کا جواب محاذ سنبھالنے کے بعد اپنے پہلے خط میں یوں دلنشیں انداز میں دیتے ہیں. ~
“مزاحمت مزاحمت ہوتی ہے. یہ کبھی پرامن اور پرتشدد نہیں ہو سکتی. دراصل تشدد یہ نہیں ہے کہ ہم نے بندوق(بھارتی) تسلط یا قبضہ کے خلاف اٹھائی ہے، بلکہ تشدد ١٢ لاکھ بھارتی فوج کی کشمیر میں موجودگی ہے. تشدد فوجی چھاؤنیوں، بنکروں، چوکیوں کی یہاں موجودگی ہے، اور قبضہ بذات خود بڑا تشدد ہے. اسلیے قبضہ و تسلط کی وکالت کرنے والوں کو “تشدد” اور “مدافعت” میں فرق کو سمجھ لینا چاہیے.”

اس راہی نے اس راہ کا انتخاب کر کے اپنے خوں پا سے اسے عظیم تر اور کریم تر کردیا. ان نشانوں کی لٹے قافلے کے لیے تیرگیٌ شب میں منزل تک پہنچنے کے لیے چراغوں کی حیثیت ہے. ان کے لوٹ کر جانے نے جو غم دیا ہے یہی غم ان شاء اللہ سحر کا یقین بنے گا. آزادی کا عشق و جنون دل میں سمائے اسلام کی رہبری کے سایے تلے انہوں نے اپنے اختیار میں ہر طاقت کو استعمال میں لا کر بازی لگالی. حالات ناموافق تھے لیکن یہ دل و جان کی متاع بیچ آئے. میدان وفا میں لہو کے آخری قطرے اس امید پر بہائے کہ چند خارِ مغیلاں ہی سہی مگر سیراب تو ہونگے. ان کے ہجر سے گویا چمن پر برق سی گرگئی لیکن کمال یہ کہ رونقِ خاکِ وطن دوبالا ہوتی محسوس ہو رہی ہے.
الوداع کمانڈر!

………………………………….
نوٹ اول : مصنف واصف بٹ مقبوضہ کشمیر میں گریجویشن کے طالب علم ہیں. وطن کی آزادی کا خواب دل میں سجائے دردِ سرفروشانِ رہ آزادی کبھی کبھار انہیں سیاہی کو کاغذ پہ بکھیرنے پر مجبور کرتا ہے.

نوٹ دوم :تحریر سے منسلک تصویر شہید ڈاکٹر منان بشیر وانی کی ہے جو حال ہی میں مقبوضہ کشمیر میں جام شہادت نوش کر گئے.


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں