محمد اعجاز تنویر

میثاق معیشت ، وقت کی اہم ترین ضرورت

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد اعجاز تنویر
صدر ، پاکستان بزنس فورم ، لاہور

پاکستان میں اس بات پرحکومت اور حزب اختلاف ، دونوں کا اتفاق ہے کہ ملکی معیشت انتہائی مشکلات کی شکار ہے ، اگرچہ دونوں گروہ ان مشکلات کا سبب مختلف بتاتے ہیں۔

ملکی معیشت کے بارے میں یہ احساس کئی عشروں پرانا ہے ۔ اس کا ثبوت یہ ہے کہ ہر آنے والی حکومت پہلا بیان یہی جاری کرتی ہے کہ ملکی خزانہ خالی ہے ۔ موجودہ وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف نے جب وزارت عظمیٰ کا حلف اٹھایا تو پہلا بیان یہی جاری کیا کہ ملکی معیشت تباہ حال ہے ، یہ ایک چیلنج ہے جس سے انھیں نمٹنا ہے ۔ ان سے پہلے وزیراعظم عمران خان نے اپنی پیش رو مسلم لیگ ن کی حکومت کی چھوڑی ہوئی معیشت کے بارے میں بھی کچھ ایسے ہی بیانات دیے تھے۔

سیاسی گروہوں کے بیانات میں ممکن ہے کچھ پراپیگنڈا بھی ہو ، تاہم حقیقت وہی ہوتی ہے جو قوم محسوس کرتی ہے ۔ اور حقیقت یہ ہے کہ پاکستان کا ہر شہری اس وقت شدید مشکل صورت حال کا سامنا کر رہا ہے اور پریشان ہے ۔ حال ہی میں رائے عامہ کا جائزہ لینے والے ایک ادارے ’ پلس کنسلٹنٹ ‘ نے ایک جائزہ رپورٹ جاری کی ہے جس کے مطابق 70 فیصد پاکستانی اخراجات پورے نہ ہونے کی دہائی دے رہے ہیں۔

یوں تو ملک میں ہر شعبہ زندگی سے تعلق رکھنے والے لوگ اپنے ذاتی تجربات کی بنیاد پر معیشت کے بہتر یا بدتر ہونے کا خیال ظاہر کرسکتے ہیں تاہم تاجر طبقہ زیادہ اچھے انداز میں بتاسکتا ہے کیونکہ وہ روزانہ کی بنیاد پر تجربات سے گزرتا ہے ، ہر روز اسے اشاریے ملتے ہیں کہ اس وقت معیشت کس حال میں ہے۔

ان دنوں پاکستان کا تاجر طبقہ بھی ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھا ہے کیونکہ کسٹمر کی قوت خرید کم ہوچکی ہے ۔ صرف تاجر طبقہ ہی نہیں دیگر شعبوں کے ماہرین بھی موجودہ دور کو پاکستان کا مشکل ترین معاشی دور قرار دے رہے ہیں ۔ بعض ماہرین خدشہ ظاہر کر رہے ہیں کہ سری لنکا کے دیوالیہ ہونے کے بعد اگلی باری پاکستان کی ہوسکتی ہے ۔ اللہ کرے کہ ایسا ہر گز نہ ہو ، کسی بھی طور پر نہ ہو۔

میں بھی بنیادی طور پر تاجر پیشہ ہوں ، ملکی معیشت کی نبض مسلسل میری انگلیوں تلے ہوتی ہے۔ میں اپنے تئیں محسوس کرتا ہوں کہ پاکستان قائم ہوئے پون صدی بیت چکی ہے ۔ کچھ کام ہمیں قیام پاکستان کے فوری بعد کرنے تھے ، بدقسمتی سے وہ اب تک نہیں کرسکے۔

یہی وجہ ہے کہ پاکستانی قوم ایک بدترین معاشی گرداب میں پھنسی ہوئی ہے۔ میرا خیال ہے کہ اب ہمیں ایک درست معاشی پالیسی اختیار کرتے ہوئے اپنی سمت درست کرلینی چاہیے اور تیز تر سفر کے ذریعے اس مشکل دور سے نکلنا چاہیے ۔ ہمیں ایسی معاشی حکمت عملی تیار کرنا ہے جسے بنانے اور اس کے مطابق چلنے میں پاکستان کے تمام طبقات شامل ہوں ۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کے بغیر معاشی بحران سے نکلنا ممکن نہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ اس وقت پاکستان میں ایک مکمل اور جامع ’ میثاق معیشت ‘کی ضرورت ہے۔ اس کی اہمیت کو خود وزیراعظم میاں محمد شہباز شریف تین برس قبل واضح طور پر بیان کرچکے ہیں ۔ آج بھی ماہرین معیشت اس پر زور دے رہے ہیں۔ اس ضمن میں ، میری نظر میں چند نکات جو ’ میثاق معیشت ‘ کی بنیاد بننے چاہئیں۔

ایک ایسا میثاق معیشت جس کے نتیجے میں پاکستان میں ٹیکس گزار بزنس مین کو قومی ہیرو کا درجہ حاصل ہو۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کی ہے ، وہاں آج بھی ٹیکس گزار کاروباری افراد کو سر آنکھوں پر بٹھایا جاتا ہے ، انھیں خصوصی سہولیات حاصل ہوتی ہیں۔

ہم سمجھتے ہیں کہ ہمیں اب بلواسطہ ٹیکسیشن کے بجائے براہ راست ٹیکسیشن کی راہ اختیار کرنی چاہیے۔ یہی ملک و قوم کی ترقی کی ضمانت دے سکتی ہے ۔ پھر ہمارے ہاں ٹیکس نیٹ کو بڑھانے کی ضرورت ہے۔ ہمارے پالیسی ساز اس کے برعکس اپنا سارا زور ٹیکس کی شرح بڑھانے پر صرف کرتے ہیں ۔

اسی طرح ایف بی آر میں اصلاحات بھی وقت کی اہم ترین ضرورت ہے تاکہ یہ ادارہ بزنس فرینڈلی بنے۔ ہمارے ہاں کاروباری طبقے کے بارے میں غلط پراپیگنڈا کیا جاتا ہے کہ وہ ٹیکس دینے سے گریزاں رہتا ہے حالانکہ یہ سرے سے ہی ایک غلط تاثر ہے ۔ کاروباری طبقہ پورے جوش و خروش سے ٹیکس دینے کو تیار ہے لیکن وہ فکس ٹیکسیشن چاہتا ہے۔

ملکی معیشت کی بہتری بلکہ مضبوطی کے لئے ضروری ہے کہ سیلز ٹیکس کو سنگل ڈیجیٹ کیا جائے۔ ہمارا مطالبہ ہے کہ کاروبار میں تنازعات کی صورت میں نیب کے بجائے ایف بی آر تصفیے کے لئے اپناکردار ادا کرے۔ اس کی ایک صورت یہ بھی ہوسکتی ہے کہ تیز رفتاری سے کام کرنے والی ڈیجیٹل بزنس کورٹس بنائی جائیں۔

اسی طرح اب زرعی آمدن پر بھی ٹیکس عائد کرنا ناگزیر ہوچکا ہے۔ ہمیں کچھ دیگر جرات مندانہ اقدامات بھی کرنے ہوں گے۔ مثلاً امپورٹ بیس ٹریڈ پالیسی کے بجائے لوکل پروڈکشن بیس انڈسٹریل پالیسی کے تحت آگے بڑھنا ہوگا۔ ہمیں انڈسٹریل را میٹریل کی لوکل پروڈکشن کی طرف دھیان دینا ہوگا۔ اس کے لئے ایک اور اہم کام ضروری ہے کہ حکومت انڈسٹریل قرضہ جات پر مارک اپ کم سے کم کرتی چلی جائے۔
ہمیں اپنے میثاق معیشت میں سمگلنگ جیسے ناسور کے خاتمے پر بھرپور توجہ دینا ہوگی کیونکہ یہ لوکل انڈسٹری کے لئے زہر قاتل ہے۔

اس کے علاوہ
٭ پاکستان کسٹم کی استعداد کار بڑھانے کے لئے برق رفتار کام کی ضرورت ہے۔
٭ پرائیویٹ پبلک پارٹنرشپ کا راستہ اختیار کرکے ترقی کی طرف تیز رفتار سفر طے کرسکتے ہیں۔

اب ہمیں اس مخمصے سے نکلنا چاہیے کہ پی آئی اے ، سٹیل ملز ، ریلوے جیسی کارپوریشنز کی بحالی کی جائے یا پھر نجکاری۔ کوئی ایک آپشن اختیار کرنے کے لئے قومی یکسوئی حاصل کرنی چاہیے۔

٭ ہمیں اپنے زیر التوا قومی پراجیکٹس کی تکمیل کے لئے نہایت پرجوش انداز میں کمر ہمت باندھ لینی چاہیے۔
٭ سی پیک ہمارا قومی مستقبل ہے، اس کی تعمیر کے لئے شبانہ روز محنت کرنی ہوگی۔
٭ سی پیک انٹرنیشنل زونز کی تکمیل بھی جنگی بنیادوں پر کی جانی چاہیے۔

٭ ہمیں ہر لمحہ یہ بات اپنے پیش نظر رکھنا ہوگی کہ ایک خودمختار ہی سٹیٹ بنک آف پاکستان مضبوط معاشی پاکستان کی ضمانت ہے۔

٭ ہمیں ہر لمحہ ، ہر قدم اٹھاتے ہوئے پیش نظر رہنا چاہیے کہ خودکفالت ہی میں خودداری ہے ۔ اس ضمن میں ترکی کی مثال پر غور کیا جاسکتا ہے ۔ وہاں کے موجودہ حکمران رجب طیب ایردوان کے اقتدار میں آنے سے قبل ترکی دیوالیہ ہوچکا تھا لیکن آج ترکی ہر اعتبار سے خود کفیل ہے ، نتیجتاً وہ دنیا میں ہر شعبے میں قائدانہ کردار ادا کرنے کی پوزیشن میں ہے ۔ اور ہمیں یہ بھی یاد رکھنا چاہیے کہ خودکفالت کے لئے مضبوط معیشت اور مضبوط معیشت کے لیے معاشی پالیسی کا تسلسل ضروری ہے ۔ اسی میں ہماری قوم کی بقا مضمر ہے۔

٭ہم سمجھتے ہیں کہ حکومتیں اپنے اقتدار کے آخری سال میں اگلے عام انتخابات میں کامیابی کے لئے ترقیاتی فنڈز کا بے جا اور بے دریغ استعمال کرتی ہیں، اس کے نتیجے میں ملکی معیشت کو نقصان پہنچتا ہے۔ لہذا اس روش کو میثاق معیشت کے ذریعے ختم ہونا چاہئیے۔

میثاق معیشت دراصل پوری قوم کا ایک عہد ہونا چاہئیے جس کے مطابق نہ صرف وہ اپنا طرز زندگی بدلیں ، بالخصوص حکومتیں اپنا طرزحکمرانی تبدیل کریں تاکہ ہم معاشی مشکلات سے نکل کر خوشحالی اور ترقی کی منزل حاصل کرسکیں۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں