گولہ گنڈا

بچے ، بچپن اور عید الاضحیٰ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

عید الاضحیٰ کے دن صبح سویرے ہمارے گھر میں بڑی گہما گہمی ہوتی۔ سب بچے بڑے، مرد اور عورتیں تیار ہو کر مسجد جاتے۔ نماز عید ادا کرنے کے فوراً بعد ابو جان ، چھوٹے بڑے تینوں بھائی اور رشتے کے ایک چچا مل کر خود ہی قربانی کرتے۔ سب سے پہلے امی جان کا بکرا ذبح ہوتا جس کی گردن پر امی جان خود چھری پھیرتیں اور اسے حلال کرتی تھیں۔ پھر امی جان پیچھے ہٹ جاتیں اور باقی کام مرد سنبھال لیتے۔

ابو جان نہایت نفیس مزاج کے حامل تھے ۔ قربانی کرتے ہوئے اور گوشت بناتے ہوئے بھی اسی نفاست کا خیال رکھتے اور نہایت عمدہ طریقے سے قربانی کا کام مکمل کرتے اور کرواتے۔ ہر جانور کا علیحدہ وزن کرکے اسے تین برابر حصوں میں علیحدہ علیحدہ رکھتے اور پہلے سے تیار شدہ فہرست کے مطابق جلد از جلد قربانی کے گوشت کے مناسب مقدار کے شاپر بنوا کر ان کی تقسیم کرواتے ۔ عام طور پر یہ گوشت اتنی مقدار میں ہوتا کہ اس سے ایک وقت کی ہانڈی پک جاتی۔ گھر میں کثیر تعداد میں خود مانگنے آنے والوں کو بھی حصہ دیتے۔

ہمارے امی ابو قربانی کرنے کے بعد سارا گوشت سٹور کرلینا اور اپنے فریج اور فریزر گوشت سے بھر لینا غیر اسلامی کام اور غلط سمجھتے تھے۔ لہٰذا اس کی تقسیم جلدی کرنے کو اہمیت دیتے تھے۔

گھر میں صبح سے کھانے پینے اور خاطر مدارت کا جو دور چلتا تو وہ رات تک جاری رہتا۔ کبھی بھائیوں کے دوست آجاتے تو کبھی بہنوں کی سہیلیاں۔ کبھی قرآن کلاسز کی طالبات ملاقات کے لیے آجاتیں۔ کبھی کبھی محلے کی خواتین بھی ملنے کے لیے آجاتیں لیکن ایسا کم کم ہوتا کیونکہ پہلے دن مردوں اور خواتین کو قربانی کرنے اور گوشت سنبھالنے کی فکر ہوتی۔ ہم بچہ پارٹی محلے میں کبھی اپنی چھوٹی چھوٹی ہم عمر سہیلیوں اور کبھی بہن بھائیوں کے ہمراہ جانور ذبح ہوتے دیکھنے اور کبھی ویسے ہی گھومنے پھرنے چلے جاتے۔

بچہ پارٹی کا عید منانے کا انداز اپنا علیحدہ ہوتا تھا۔ بڑوں سے تھوڑی بہت عیدی بٹورنے کے بعد قربانی کا کچھ کام کرواتے بلکہ زیادہ چھوٹے بچوں کو ماں باپ خود ہی گوشت سے دور رکھتے کہ کہیں نئے کپڑے خون سے خراب نہ کر بیٹھیں یا ذبح شدہ جانور کی سری ، پائے یا کھال دیکھ کر ڈر نہ جائیں ۔ پھر ہم بچے موقع ملنے پر بہن بھائیوں یا اپنی ہم جولیوں کے ہمراہ قریبی دکانوں یا میلوں میں پہنچ جاتے۔

اکثر مائیں بچوں سے عیدی لے لیتی تھیں اور انہیں اس میں سے صرف کچھ پیسے دیتی تھیں۔ جسے بچے کافی مائنڈ کرتے تھے اور اپنی عیدی کا پورا پورا حساب کتاب رکھتے تھے لیکن ماؤں سے اپنی عیدی واپس نہیں لے سکتے تھے۔

محلے میں عید پر خصوصی رونق ہوتی ، ایک طرف جھولے والے اپنے جھولے لگائے ہوتے، تو دوسری طرف گولے گنڈے والے آوازیں لگاتے۔ پاپڑ، پکوڑے سموسے ،فروٹ چاٹ، اور دہی بھلے والے اپنی بہار دکھا رہے ہوتے۔ گول گپے، چنا چاٹ، آئس کریم اور قلفیوں والے بھی یہیں کہیں موجود ہوتے۔ بعض پھیری والے بھی گھوم پھر کر آوازیں لگا کر اپنے آئٹمز فروخت کر رہے ہوتے۔

اس کے علاوہ چشمہ ، گھڑی ، رومال ، عطر و خوشبوئیں ، ہار بندے ، چوڑیاں ، مختلف کھلونے وغیرہ یہ سب تو ہر دور کے بچے بچیاں خریدتے ہیں البتہ وقت اور دور کے لحاظ سے بچوں کی ترجیحات بھی بدلتی رہتی ہیں۔

دکانوں پر بڑی عید ہونے کے باوجود دن کے پہلے پہر میں کہیں کہیں برگر بک رہے ہوتے تو کہیں نان ٹکی ، کہیں گرما گرم آلو والے اور بیسن والے نان بک رہے ہوتے اور ان کی خوشبو بچوں کی توجہ اپنی جانب مبذول کروا لیتی۔ گھروں میں مختلف پکوان پکنے کے باوجود بچے بڑی رغبت سے دکانوں سے مختلف من پسند اشیاء خرید کر کھاتے رہتے۔

حالانکہ ماں باپ دونوں کی نصیحت ہوتی تھی کہ "بازار سے گند مند خرید کر کھانے کے بجائے گھر سے قربانی کا تازہ اور بہترین گوشت کھانا ہے۔” لیکن بچے پھر بھی کچھ نہ کچھ خرید کر کھاتے رہتے۔

                                *****

محلے کے بہت سے گھروں میں گائے کی قربانی کی جاتی تھی ۔ جب کسی گائے کی قربانی کا وقت آتا تو ہم سب "جائے وقوعہ” کی طرف بھاگم بھاگ پہنچتے۔ کیونکہ ہم نے پہلے سے معلومات اکٹھی کی ہوتی تھیں کہ "فلاں گھر کی گائے اتنے بجے ذبح ہونی ہے۔”

گائے کی اجتماعی قربانی میں ہمارے لیے بڑی فینٹسی تھی اور یہ ہمارے لیے بڑی کشش کا باعث ہوتی تھی۔ بکرا ذبح ہوتے دیکھنا عام بات تھی مگر گائے کی قربانی کے وقت وہاں موجود ہونا اور اسے ذبح ہوتے دیکھنا ہمیں بڑا پسند تھا۔ شاید اس کی وجہ یہ تھی کہ گائے یا بیل ذبح ہوتے وقت کافی مزاحمت کرتے تھے جسے بچے "تماشا کرنا” کہتے تھے۔

حتی کہ اگر ہم عید کے دن کسی وقت سو بھی جاتے تو ہمیں خواب میں بھی گائے ذبح ہونے کے مناظر ہی دکھائی دیتے رہتے اور ہم سونے سے پہلے گلی محلے میں ذبح ہونے والی کسی گائے کے متعلق تاکید کرکے سوتے تھے کہ "کوئی گائے ذبح ہوتے وقت ہمیں یاد سے اٹھا دے”
اور پھر جب ہمیں گہری نیند سے بمشکل بیدار کرکے بتایا جاتا توہم بمشکل اٹھ کر بیٹھتے ، مندی مندی آنکھیں ملتے ہوئے بھاگم بھاگ جائے وقوعہ پر پہنچتے اور اس موقع سے محروم نہ رہتے ۔

کبھی گائے کے ذبیحہ کے اس اجتماعی منظر سے محروم رہ جاتے تو دل کو بڑا قلق ہوتا اور ہم محرومی کی کیفیت میں رہتے۔ ہماری طرح قربانی دیکھنے کے شوقین دوسرے بچوں کی بھی کمی نہیں ہوتی تھی۔خصوصاً جہاں کہیں بڑا جانور ذبح ہوتا، وہاں بچے مجمع لگا لیتے اور پوری توجہ اور دلچسپی سے یہ منظر دیکھتے۔

گائے ذبح ہوتے وقت دو تین قصاب اور کئی لوگ مل کر گائے کو کنٹرول کرتے،ایک قصاب تکبیر پڑھ کر اسے حلال کرتا، پھر اس کی کھال اتاری جاتی ، اس کا گوشت بنایا جاتا، گوشت کے سات حصے بنائے جاتے اور متعلقہ گھروں میں پہنچائے جاتے ۔

اگر پورے علاقے میں کہیں اونٹ ذبح ہوتا تو مردوں کے علاوہ عورتوں اور بچوں کی کثیر تعداد بھی چھتوں پر چڑھ کر دیکھ رہی ہوتی۔

ایک دفعہ ایک اونٹ گردن پر نیزے کا زخم لگنے کے باوجود بھرپور قوت و طاقت سے رسیاں تڑوا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گیا تو بڑی بھگدڑ مچی۔ اونٹ بھاگتے بھاگتے کچھ دور نکل گیا، اور اس کے ساتھ ساتھ اس کی گردن سے نکلنے والے خون کے فوارے کی لکیریں اور چھینٹے بھی اڑتے گئے ۔ مسلسل بہتے خون اور کمزوری کی وجہ سے اونٹ بہت وحشت ناک اور خطرناک ہو گیا تھا اور بڑی خوفناک آوازیں نکال رہا تھا۔ بڑی مشکل سے قصائیوں اور لوگوں نے مل ملا کر اسے قابو کیا اور اسے نحر ( ذبح ) کیا۔ بلاشبہ یہ بھی بچپن کے واقعات میں سے ایک یادگار واقعہ ہے ۔

گائے، بکرے، چھترے، دنبے وغیرہ قربان ہوتے دیکھ کر ہم دل میں اداس بھی ضرور ہوتے لیکن یہ محبت ہمارے جذبہ قربانی کو مزید مضبوط بنادیتی کہ "یہ جانور ہم مسلمانوں نے اللہ تعالیٰ کی رضا حاصل کرنے کے لیے قربان کیے ہیں۔”یہ بات ہمیں ماں باپ نے اچھی طرح سمجھائی ہوتی تھی۔

عید کی شام کو قربانی سے فراغت کے بعد بچے بڑے اپنے من پسند گوشت کے پکوان پکوانا اور کھانا چاہتے۔ لوگ بازار سے قیمہ بنواتے اور سری پائے جلوا کر اوپر سے سارے بال وغیرہ صاف کروا لیتے ۔ جگہ جگہ سری پائے جلانے والے موجود ہوتے جن کی خدمات سے لوگ استفادہ کرتے اور بر وقت سری پائے تیار کروا کر اسے محفوظ کرلیتے۔

گھروں میں پلاؤ، بریانی، کباب، نمکین گوشت، روسٹ، ٹکاٹک، اور دیگر مختلف پکوانوں کی خوشبوئیں پھیلی ہوتیں۔ کہیں باربی کیو کا سیشن شروع ہو جاتا اور سیخ کباب اور تکوں کی زبردست خوشبو چار سو پھیل جاتی۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں