سید ابوالاعلیٰ مودودی ، بانی جماعت اسلامی

سید ابوالاعلیٰ مودودی کی فکر شدت پسندی کو جنم دیتی ہے؟

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

امت مسلمہ کی نشاۃ ثانیہ کے لئے صدیوں سے جدوجہدجاری ہے ۔ اس جہد و کاوش کی نوعیت علمی و فکری بھی ہے ، سماجی و تہذیبی بھی اور سیاسی و تمدنی بھی ۔ ہر دور کے صاحبانِ علم و فکر اپنی اپنی صلاحیتوں اور فہم و دانش کے مطابق اس جدوجہدمیں حصہ لیتے رہے ہیں ۔

اکابرِ امّت کی لمبی فہرست ہے جن کی کاوشوں اور قربانیوں کے دمکتے نقوش جریدۂ عالم کے صفحات پر ثبت ہیں۔بیسویں صدی کے قافلہ سالاروں میں متعددنام سامنے آتے ہیں مگر جن شخصیات نے امت کی بیدرای میں بہت نمایاں کردار ادا کیا اور علمی و فکری اور تعلیمی دائروں میں نہایت وسیع اثرات مرتب کئے ، ان میں ہمیں مولانا سیدابوالاعلٰی مودودیؒ نمایاں نظر آتے ہیں جو کہ اپنے دور کی معتبر آواز تھی۔

1931ء میں مولانا سیدمودودی نے رسالہ’ ترجمان القرآن‘ خریدا ۔ بعدازاں یہی رسالہ مولانا کے افکار و نظریات کی اشاعت کے ساتھ ساتھ ان کی شہرت کاذریعہ بنا۔1936 ء تک یہ رسالہ خالص علمی ومذہبی نوعیت کا تھا۔

’ حکومت الٰہیہ‘ یا ’نظامِ اسلامی کی اقامت‘ کے حوالے سے ابھی تک اس رسالے کے صفحات ناآشنا تھے ۔ مسلمانوں کے مذہبی افکار و اعمال پر تنقید کے ساتھ ساتھ مغربی افکار و نظریات اور تہذیبِ فرنگی کے تاریک پہلوؤں پر مولانا متکلمانہ تنقیدکرتے تھے اور اسلامی تہذیب کے محاسن کی تائید و حمایت کاپہلو غالب تھا ۔

یہ رسالہ غیر منقسم ہندوستان میں بلا امتیاز مسلک و عقیدہ اہلِ علم کی ایک بڑی تعدادکو متاثر کئے بنا نہ رہ سکا ۔ مولانامودودی ایک منجھے ہوئے انشاء پرداز تھے ۔ اُن کے قلم کا جادُو اقبالؔ اور کلامؔ کو بھی اپنا اسیر کر گیا ۔ اُن کے اچھوتے اسلوبِ نگارش اور دل کش منطقی طرزِ استدلال کا بھی اس جذب و التفات میں بڑا حصہ تھا۔

اسلامی نظامِ حیات کے بارے میں مولانامودودی کی تحریروں ، ان کے استدلال ، ان کے علمِ کلام اور ان کے سائنٹفک اسلوبِ نگارش نے مشرق ہی نہیں بلکہ مغرب کی نئی نسل پر دوسروں سے زیادہ وسیع اور گہرے اثرات مرتب کئے ہیں۔اپنی کتابوں کے ذریعے فکری سطح پر انھوں نے بعض کلیدی نوعیت کے نکات کو واضح کیا۔

اسلامی ریاست کی ضرورت کے متعلق مولانا کا استدلال یہ ہے کہ قرآن مجید نے زندگی گزارنے کا جو اسلامی تصور دیا ہے ، وہ یہ ہے کہ انسان کو اپنی پوری زندگی اللہ کی رضا اور منشاکے حصول کے لئے صرف کر دینی چاہئے ۔ قرآن صرف اخلاقیات کے اصول ہی بیان نہیں کرتا بلکہ زندگی کے دیگر شعبوں کے لئے بھی ہدایات دیتا ہے ۔

وہ بعض جرائم کی سزائیں بھی تجویز کرتا ہے اور مالیاتی معاملات کے اصول بھی طے کر دیتا ہے ۔ جب تک کوئی ریاست ان کو نافذکرنے کے لئے موجود نہ ہو ، یہ سارے اصول اور ضابطے عمل میں نہیں لائے جاسکتے اور اسی سے اسلامی ریاست کی ضرورت سامنے آتی ہے۔ مولانا نے سورۃ النساء کی اٰیت59 سے اسلامی ریاست کے اصول اخذ کئے۔

سیدمودودی کا ایک بڑا کارنامہ اسلامی ریاست کے قیام کے لئے رائے عامہ کی ہمواری اور اس کی فکری و فلسفیانہ بنیادوں کی تشریح و توضیح ہے ۔ مولانا نے پورے عزم و ایقان کے ساتھ قدیم کے حوالے سے ہر احساسِ کہتری اور جدید کے بارے میں ہر مرعوبیت سے بالاتر ہوکر ، اسلامی ریاست کے تصور ، اس کے فلسفے ، نظامِ کار اور اصولِ حکمرانی کی شرح و بسط کے ساتھ وضاحت کی ہے ۔ اس عمل میں قدم قدم پر اُن کے تفقہ فی الدّین ، سیاسی و اجتہادی بصیرت ، عصری آگہی اور جدید اسلوب میں اُن کا انتہائی موثر اندازبیان ، استدلال اور متکلمانہ لب ولہجہ نمایاں ہے ۔ یہ اُن کا وہ کارنامہ ہے جس میں گزشتہ تقریبََا تین صدیوں سے عرب و عجم میں کوئی ان کا ثانی نہیں۔

عہدحاضر میں اسلامی ریاست کی تشکیل کاعمل اور اس کا مخصوص منہج یا طریقہ کار وہ موضوع ہے ، جس کی تفہیم و عملی تفسیر میں مولانامودودی کو دوسرے مفکرین پر سبقت اور امتیازحاصل ہے ۔ ریاست کی تنظیم کیسے ہو ، اس کی تشکیل و طریقہ کار اور منہج کیسا ہو کہ اس میں عصری ضرورتوں کی تکمیل بھی ہو سکے اور قرآن و سنت کی بنیادی تعلیمات اور رہنما اقدار اور خلافتِ راشدہ کے تاریخی تعامل سے سرِمو انحراف بھی نہ ہو ، اس موضوع پر علماء میں سے صرف مولانا مودودی نے دلچسپی لی ۔

اسلامی حکومت کے قیام کی صحیح ترتیب مولانا کے نزدیک یہ ہی کہ پہلے ایک تمدنی‘ اجتماعی اور اخلاقی انقلاب پیدا کیا جائے کیونکہ اسلام کے احکام و قوانین صرف اوپر سے ہی مسلط نہیں کئے جاسکتے بلکہ اندر سے اُن کے اتباع کادلی جذبہ پیدا کیا جانا ضروری ہے ۔ ( اسلامی ریاست،ص 56)

اسلامی حکومت کسی معجزے کی صورت میں صادر نہیں ہوتی ۔ اس کے پیدا ہونے کے لئے ناگزیر ہے کہ ابتدا میں ایک ایسی تحریک اٹھے جس کی بنیاد میں وہ نظریہ حیات ، وہ مقصدِزندگی ، وہ معیارِ اخلاق ، وہ سیرت و کردار ہو جو اسلام کے مزاج سے مناسبت رکھتا ہو ۔ اس کے لیڈر اور کارکن صرف وہی لوگ ہوں ، جو اس خاص طرز کی انسانیت کے سانچے میں ڈھلنے کے لئے مستعد ہوں ۔

پھر وہ اپنی جدوجہد سے سوسائٹی میں اُسی ذہنیت اور اُسی اخلاقی روح کو پھیلانے کی کوشش کریں ۔ پھر اسی بنیاد پر تعلیم و تربیت کا ایک نیا نظام اٹھے ، جو اُس مخصوص ٹائپ کے آدمی تیار کرے ، جو دنیا کے ناخدا شناس آئمہ فکر کے مقابلے میں اپنی عقلی و ذہنی قیادت کاسکّہ بٹھا دیں اور ہر بھٹی میں تَپ کر ہر آزمائش میں سرخرو ہو کر اپنے قول و فعل سے ، اپنی انفرادی و اجتماعی کردار سے اسلام کی شہادت دیں تاکہ صالح عناصر اُن کی طرف کھینچتے چلے آئیں اور پست ذہنیت اور پست سیرت افراد دبتے چلے جائیں اور عوام کی ذہنیت میں ایک انقلاب رونما ہو جائے اور وہ نظامِ زندگی عملََا قائم ہو جائے جس کے لئے زمین تیار ہو چکی ہے ۔ اسلامی حکومت کے قیام کایہی تدریجی طریقہ ہی فطری طریقہ ہے اور یہ انقلاب اُسی صورت میں رونما ہوگا ، جب ایک عمومی تحریک قرآنی نظریات و تصورات اور محمدی سیرت و کردار کی بنیاد پر اٹھے اور اجتماعی زندگی کی ساری ذہنی ، اخلاقی ،نفسیاتی اور تہذیبی بنیادوں کو طاقت ور جدوجہد سے بدل ڈالے۔ (ایضََا،ص695)

سیدمودودی اس زمانے کی پیداوار ہیں جب چہار طرف مغربی افکار ، سائینس و ٹیکنالوجی کادبدبہ تھا ۔ مشرق زیرِ عتاب بھی تھا اور مرعوب بھی ۔ عوام و خواص معذرتانہ رویہ اختیار کئے ہوئے تھے ۔ اس ماحول میں مولانا سید ابو الاعلٰی مودودی جیسابطلِ جلیل مشرق کی گود سے اٹھتا ہے اور مغرب کی آنکھ میں آنکھ ڈال کر اُن کے فسادِ فکر و نظر کی قلعی دلائل و براہین سے کھولتا ہے ۔ مولانا کا یہ سب سے بڑا کارنامہ ہے ۔’حکومتِ الٰہیہ‘ کا نظریہ سید مودودی کی سیاسی فکر کا ہمیشہ مرکزی نکتہ رہا ہے ۔ فکرِسیاسی میں یہ استقلال ، پامردی اور استحکام وہ عمل ہے ، جو فکر و عمل کی تاریخ میں سیدمودودی کو بہت ممتاز بنا دیتا ہے:

”دین اللہ بھی صرف اُسی چیز کانام نہیں ہے جو مسجدوں اور نماز روزے تک محدود ہو بلکہ اس سے مُراد بھی اُس پوری شریعت کی پابندی ہے ، جو اللہ کی رضا سے ماخوذ اور اس کی حاکمیت پر مبنی ہو اور اجتماعی زندگی کے تمام پہلوؤں کو اپنی گرفت میں لے لے۔“(ایضََا،ص 68)

مولانامودودیؒ کے ساتھ لیکن ایک المیہ یہ ہوا ہے کہ اُن کے بعدان کی فکر کو کچھ عناصر نے غلط فہمی کی بنا پر’ شدّت پسندی ‘ کا بیانیہ بنا ڈالا ۔ عہد ِحاضر میں دنیا کے بیشتر ممالک میں جنگ کا سماں بندھا ہوا ہے ۔ کلیسا کے پیرو ہوں یا تسبیح کے ’محافظ‘ ، کہیں نہ کہیں ، کسی نہ کسی طریقے سے دہشت گردی کو ختم کرنے کی آڑ میں خود بھی شدّت پسندی کی صف میں کھڑے نظر آتے ہیں اور’دانشور طبقہ‘ و تجزیہ نگاروں کا ایک گروہ اس کے تانے بانے مولانا سیدمودودی کی فکر و نظر کے ساتھ نُتھی کرنے پر مُصر ہے ۔

حالانکہ مولاناؒ کی فکر ، طریقہ کار واضح ہے ۔ انہوں نے دعوتِ دین یا اسلامی حکومت کے قیام کے لئے زیرِ زمین سرگرمیوں ، خفیہ کاروائیوں ، مسلح جدوجہد اور غیر آئینی طریقِ کار کو ہمیشہ تنقید کا نشانہ بنایا ۔ اس طرح کے تمام طریقوں کو وہ حکمت عملی کے خلاف ، ناروا اور غیر موزوں تصورکرتے تھے ۔ مولاناؒ کی بعض تحریروں کو سیاق و سباق سے کاٹ کرخائنوں نے فائدہ اٹھانے کی کوشش بھی کی۔

نومبر1969 ء میں اسلامی جمعیت طلبہ پاکستان کے اجتماع میں ایک سوال کے جواب میں مولانا نے نونہالوں کو نصیحت کرتے ہوئے کہا:

”ہماراکام خفیہ تحریک چلانا نہیں بلکہ کھلم کھلا اپنے نظریات کو پھیلانا ہے ۔۔۔ خفیہ تحریک اس طریقے سے چلتی ہے کہ اگر کسی شخص کے بارے میں یہ شبہہ بھی ہو جائے کہ وہ پارٹی کا وفادار نہیں ہے تو اسے بلا تکلف قتل کر دیا جاتا ہے اور یہ قتل وغارت گری اس تحریک کاعام مزاج بن جاتا ہے ۔۔۔۔ خفیہ طریقے سے کوئی مسلح انقلاب برپا کرنا اسلام کے مزاج کے بھی خلاف ہے اور انجام کے لحاظ سے خطرناک بھی۔“( تصریحات،ص149۔150 )

اسی ضمن میں مولانا مودودی نے اپنی تحریروں اور بیانات میں یہ نکتہ بھی غیر مبہم انداز میں واضح کیا ہے کہ جدید جمہوری ریاستوں میں نفاذ شریعت کی جدوجہد کا صرف وہی راستہ جائز ہے جو آئین و قانون کی حدود کے اندر ہو، جبکہ غیر آئینی طریقوں سے انقلاب برپا کرنے کی کوشش نہ شرعاً درست ہوگی اور نہ حکمت عملی کی رو سے ۔ اس حوالے سے مولانا کی بعض تصریحات کو یہاں نقل کرنا مناسب ہوگا۔

مولانا سے سوال کیا گیا کہ ” کیا موجودہ صورت حال میں آئینی ذرائع سے انقلاب لانا مشکل نہیں ہو گیا ؟ “ اس کے جواب میں فرمایا:
”۔۔۔میرا مشورہ ہمیشہ یہی رہا ہے کہ خواہ آپ کو بھوکا رہنا پڑے، گولیاں کھانی پڑیں ، مگر صبر کے ساتھ ، تحمل کے ساتھ ، کھلم کھلا علانیہ طور پر اپنی اصلاحی تحریک کو قانون ، ضابطے اور اخلاقی حدود کے اندر چلاتے رہیے ۔ خود حضور صلی اللہ علیہ وسلم کا طریق کار بھی علانیہ اور کھلم کھلا تبلیغ کا طریقہ تھا ۔۔۔

آپ سے میری درخواست ہے کہ آپ اپنی اخلاقی ساکھ کو کبھی نقصان نہ پہنچنے دیں اور غیر آئینی طریقوں کے بارے میں سوچنے والوں کی قطعاً حوصلہ افزائی نہ کریں۔ حالات جیسے کچھ بھی ہیں، ہمیں ان حالات کو درست کرنا ہے ۔ غلط طریقوں سے حالات درست نہیں ہوتے بلکہ اور بگڑ جاتے ہیں۔“ (تصریحات، ص 191-192)

مزید فرماتے ہیں:
”بکثرت لوگ اس الجھن میں پڑ گئے ہیں کہ آیا جمہوری طریقوں سے یہاں کوئی تبدیلی لائی جا سکتی ہے یا نہیں اور ایک اچھی خاصی تعداد یہ سمجھنے لگی ہے کہ ایسے حالات میں غیر جمہوری طریقے اختیار کرنے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہے ۔ یہ بجائے خود ہمار ے حکمرانوں کی بہت بڑی نادانی ہے کہ انھوں نے لوگوں کو اس طرح سوچنے پر مجبور کر دیا ہے ، لیکن ہم اس پوری صورت حال کو دیکھتے ہوئے اور اس کی پیدا کردہ تمام صعوبتیں برداشت کرتے ہوئے بھی اپنی اس رائے پر قائم ہیں کہ اسلامی نظام جسے برپا کرنے کے لیے ہم اٹھے ہیں ، جمہوری طریقوں کے سوا کسی دوسری صورت سے برپا نہیں ہو سکتا۔۔۔“ (ایضاً، ص 263۔264)

مولانا سے سوال ہوا کہ اسلامی انقلاب فوری طور پر کیسے آئے گا؟ جواب میں آپ نے فرمایا:

”میں اصولاً قانون شکنی اور غیر آئینی طریق کار اور زیر زمین کام کا سخت مخالف ہوں ۔ میری یہ رائے کسی سے خوف یا کسی وقتی مصلحت کی بنا پر نہیں ہے ، بلکہ میں سالہا سال کے مطالعے سے اس نتیجے پر پہنچا ہوں کہ قانون کا احترام مہذب معاشرے کے وجود کے لیے ناگزیر ہے اور کوئی تحریک اگر اس احترام کو ایک دفعہ ضائع کر دے تو پھر خود اس کے لیے بھی لوگوں کو قانون کا پابند بنانا سخت دشوار بلکہ محال ہو جاتا ہے۔

اسی طرح زیر زمین کام اپنے اندر وہ قباحتیں رکھتا ہے جن کی وجہ سے اس طریقے پر کام کرنے والے آخر کار خود ان لوگوں سے بھی بڑھ کر معاشرے کے لیے مصیبت بن جاتے ہیں جن کو ہٹانے کے لیے وہ یہ طریقے اختیار کرتے ہیں۔ انھی وجوہ سے میرا عقیدہ یہ ہے کہ قانون شکنی اور خفیہ کام قطعی غلط ہے ۔

میں نے ہمیشہ جو کچھ کیا ہے، علانیہ کیا ہے اور آئین وقانون کے حدود کے اندر رہ کر کیا ہے، حتیٰ کہ جن قوانین کا میں شدید مخالف ہوں، ان کو بھی میں نے آئینی و جمہوری طریقوں سے بدلوانے کی کوشش کی ہے مگر کبھی ان کی خلاف ورزی نہیں کی ہے ۔۔۔۔ یہی عقیدہ جماعت اسلامی کا بھی ہے۔

اس کے دستور کی دفعہ 5 میں اس امر کی صراحت موجود ہے کہ ہم ایسے ذرائع اور طریقے کبھی استعمال نہیں کریں گے جو صداقت و دیانت کے خلاف ہوں یا جن سے فساد فی الارض رونما ہو ۔ ہم جو کچھ کریں گے، جمہوری اور آئینی طریقوں سے کریں گے اور خفیہ طریقوں سے نہیں بلکہ کھلم کھلا اور علانیہ کریں گے۔“ (ایضََا۔ص274)

مولاناعمارخان ناصر اس شدت پسندی کے بیانئے کاتجزیہ کرتے ہوئے لکھتے ہیں:

”یہ بات اس تناظر میں خاص اہمیت کی حامل ہے کہ اسلامی ریاست کے قیام کی اہمیت و ضرورت کو اجاگر کرنے اور اس کے لیے عملی جدوجہد کو منظم کرنے کے حوالے سے مولانا مودودی کا شمار دور حاضر کے ممتاز ترین مسلم مفکرین اور قائدین میں ہوتا ہے ، تاہم مولانا کے زاویہ نظر میں نظری اور فلسفیانہ بحث و مباحثہ اور عملی اجتہادی ضروریات اور تقاضوں کے مابین فرق کا بھرپور ادراک دکھائی دیتا ہے۔۔۔

مولانا مودودی نے عدم تشدد اور جمہوری اصولوں کی پاس داری کو اپنی تحریک کا بنیادی پتھر قرار دیا۔ اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ مولانا کی پیش کردہ تعبیرات اور افکار کے مختلف پہلوؤں سے اختلاف کے تمام تر امکانات کے باوجود دور جدید میں دینی جدوجہد کے لیے ایک متوازن حکمت عملی کے اصول اور خط وخال واضح کرنے کے حوالے سے مولانا کی یہ خدمت بے حد غیر معمولی ہے اور درحقیقت اسی میں ان کی فکری عظمت کا راز پوشیدہ ہے۔“(دلیل ڈاٹ کام)

مولانامودودی بیسویں صدی میں برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اللہ کاایک احسان تھے ۔ اُن کے قلم نے مغرب زدہ ، دین سے بیزار لوگوں کی کایا پلٹ دی ۔ انہوں نے اپنے نقطۂ نظر کو قرآن مجید کے تفصیلی دلائل کی بنیاد پر مرتب کیا تھا۔اپنے نقطۂ نظر کو معقول طریقے پر ثابت کرنے کی ان میں اتنی غیرمعمولی قابلیت تھی کہ مولانا ابو الحسن علی ندویؒ نے انہیں بیسویں صدی کاسب سے بڑا متکلم اسلام قرار دیا تھا ۔

مولانامودودی نے ایک طرف ’تنقیحات‘ لکھ کر مغربی فکر کے بڑھتے ہوئے اثرات پر زبردست چوٹ لگائی ، تو دوسری طرف ’ کمیونزم ‘ کے مقابلے کے لئے اہل ِ اسلام کو گویا اُس دور میں ایک بیانیہ دیا ۔ آدھی دنیا میں پھیل جانے والا ’کمیونزم‘ مذہب کے انکار کی بنیاد پر زندگی کا ایک ’نظریہ‘ اور ’نظام‘ دے رہا تھا ، جو بہت متاثر کُن تھا ۔ اس کے جواب میں اسلام کو اسی انداز سے پیش کرکے مولانامودودیؒ نے بہرحال لوگوں کی ایک بڑی تعداد کو ’ کمیونزم ‘ کی آغوش میں جانے سے بچایا اور اُس وقت اسلام کادفاع کیا جب کہ فکری میدان میں اس کادفاع کرنے والا اور کوئی نہ تھا ۔

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، سکالر ، ریاست جموں و کشمیر
مصنف : ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، سکالر ، ریاست جموں و کشمیر

مولاناکے کام کی ایک خصوصیت یہ تھی کہ ان کا کام اتنی محکم بنیادوں پر کھڑا تھا کہ اس پر کسی قسم کی گرفت کرنا بہت مشکل تھا ۔ ابویحیٰ ، مشہور مصلح و ناولسٹ ، کے بقول مولانامودودی کی تحریر پڑھ کر اسلام پر اعتماد پیدا ہوتا ہے ۔ سرِدست اس وقت امتِ مسلمہ پر اگر کسی شخص کی ’ فکری بادشاہی‘ قائم ہے تو وہ مولانا سید ابو الاعلٰی مودودیؒ ہی کے نظریے کی’ حکومت ‘ ہے ۔ لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ مولانا آخر کار بشر تھے ۔ اُن کی فکری ، علمی عظمت کے باوجود وہ اختلاف سے مستثنٰی نہیں ۔ لیکن اُن کی فکر کو تشدّد ، انتہا پسندی اور دہشت گردی سے جوڑ دینا علم و فکر کی تذلیل ہے ۔ انتہاپسندی و شدت پسندی کے جتنے وہ مخالف تھے ، وہ ان کی تحریر و تقریر میں واضح ہے ۔

٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں