ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر، سکالر

گنوادی ہم نے جو اسلاف سے میراث پائی تھی

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیاز عبدالقادر ، بارہمولہ
[email protected]

یونان ، مصر ، ہند و چین کے تمام علوم آٹھویں صدی عیسوی تک عربی میں منتقل ہو چکے تھے۔ مسلمانوں نے ان علوم کا صرف ترجمہ ہی نہیں کیا بلکہ انہیں سمجھنے کے بعد قابل فہم بھی بنایا اور ان مبادیات پر ارتقاء علوم کی منازل طے کیں۔

تاریخ انسانی میں مسلمانوں سے قبل کسی کو بنی نوع انسان کے علوم کے تمام جواہر کسی ایک خزانے میں منتقل کرنے کا افتخار حاصل نہ ہو سکا تھا۔ مغرب کی سرحدوں پر ان علوم کے دو مراکز تھے ؛ ایک قرطبہ ، دوسرا پلرمو ( سسلی )۔ ان دونوں مراکز سے علوم کی مشامِ جانفزا مغرب میں بھی پہنچنے لگی۔ اس دور کا مغرب عالم اسلام پر رشک کرتا تھا۔

عالم اسلام صنعت و تجارت اور حرب و ضرب میں ہی ممتاز نہ تھا ، بلکہ فلسفہ ، سائنس ، طب و قانون ہر میدان میں یکتا تھا۔ مغربی ذہن جب اپنی غفلت سے بیدار ہونے لگے تو اس میں اسلامی فطانت اور علوم کی طلب پیدا ہوئی۔ مشاہیر اسلام کی کُتب کا ترجمہ کیا گیا اور انہیں مغرب میں سبقاً سبقاً پڑھایا جانے لگا۔

فلپ۔کے۔حتی ؔلکھتے ہیں:
”طلیطلہ کے ایک آرچ بشپ ریمندؔ نے ایک دار الترجمہ قائم کیا جو عربی سے لاطینی میں تراجم کے فرائض انجام دیتا تھا۔۔۔۔اس ادارے کا سربراہ ایک اطالوی جراردآف کریمونا (Gerard of Cremona)تھا، جس نے خوکم از کم اکہتّر (۱۷) نادر کُتب کا ترجمہ کیا۔ اس کی مترجمہ کُتب کی فہرست میں بطلیموسؔ کی کتاب Almagist،ابن حنینؔ کا”ترجمہ جالینوس“الخوارزمیؔ کی ”الجبر و المقابلہ“ الکندی ؔ کی تصانیف ، ابن سینا کی ” القانون “ اور الزّواہری ؔ کی ”جراحی اور تشریح الاعضاء“ پر مبنی کتب شریک ہیں ۔

پندرہویں صدی عیسوی تک ’ القانون ‘ کی پندرہ بار لاطینی زبان میں اشاعت ہو چکی تھی۔ اسی طرح الزّہراوی کی کتب کے بے شمار نسخے لاطینی میں بار بار چھپے ۔ ان دونوں کُتب کو صدیوں تک یورپ کی درس گاہوں میں حرف آخر کی حیثیت حاصل رہی“۔(Islam and the west. Pg.72)

تیرہویں صدی میں مائیکل اسکاٹؔ نے ابن رشدؔ کی تصانیف کو لاطینی میں منتقل کیا اور اس طرح مغرب کو ارسطوؔ کے فلسفے سے متعارف کرایا ۔ انگریز فلسفی راجر بیکنؔ نے بصریات میں جو کارنامے انجام دیے اُن کی بنیادیں ابن الہیثم ؔ کے نظریات پر تھیں ۔

ابن العربیؔ جنہوں نے ’ اشراقی‘ مکتبِ فکر کی بنیاد رکھی ، کی تصانیف کا بھی ترجمہ کیا گیا ۔ ایک اور مترجم رابرٹ ؔتھا جس نے الخوارزمیؔ کی ’ الجبرا ‘ کے علم کو لاطینی میں منتقل کیا۔ موجودہ ہند سے جنہیں ہم انگریزی تصور کرتے ہیں، حقیقتاً عربی تھے اور یورپ آج بھی انہیں (Arabic Numerals) کہتاہے۔ مغرب نے اسپین کے مسلمانوں سے صنعت و حرفت میں بہت کچھ سیکھا ۔ ان میں پارچہ بافی ، سلک سازی ، رنگ ریزی ، شیشہ گری ، ظروف سازی ، فن تعمیر ، فن تزئین خاص طور پر قابل ذکر ہیں۔

ابن رشدؔ کی فکر کے جواب میں امام غزالیؔ نے’ فلسفہ فنا ‘پیش کیا۔ جس کے جواب الجواب میں ابن رشدؔ نے ’فناء الفناء‘تحریر کی ۔ یہ دونوں کتابیں حسبِ ذیل ناموں سے لاطینی میں منتقل ہوئیں ، غزالیؒ کی کتاب Destructio Philosophorum اور ابن رشدؔ کی کتاب Destructio Destructionesفلسفہ ، طب ، ریاضی اور سائنس کی کتب کے علاوہ ادبیات کے بھی بے شمار ترجمے ہوئے ۔ جن میں کلیلہ ودمنہ ، سندباد کے سفر ، کتاب الاغانی ، الف لیلتہ ، حنینؔ کے جمع کردہ اقوالِ فلاسفہ ، سعدی کی گلستان و بوستان ، کلام حافظؔ و خیامؔ خاص طور پر قابل ذکر ہیں ۔

تیرہویں صدی کے اواخر میں ایک عرب مصنف کی کتاب ’ معراج ‘ کا ترجمہ الفانسوؔ دھم کے لئے ہسپانوی زبان میں کیا گیا۔ وہاں سے یہ کتاب لاطینی ، فرانسیسی اور دیگر زبانوں میں ترجمہ کی گئی۔ عیسائیوں کی نظر میں یہ کتاب مسلمانوں کا ایک ایسا مقدّس صحیفہ تھا جسے خود پیغمبر اسلام ﷺ نے تحریر فرمایا تھا۔

۸۱۹۱ء؁ میں آسن پولاسئیسؔ (Asin Polacius)نے اپنی تحقیق کی بناپر یہ دعویٰ کرکے علمی حلقوں میں تہلکہ مچادیا کہ دانتےؔ کی تصنیف ’ڈیوائن کامیڈی‘ (Divine Commedia) اسی کتاب ’معراج‘کا چربہ تھی۔ (جاویدنامہ (شرح)۔ص ۶۵ از پروفیسر یوسف سلیم چشتی )

اس طرح ہم دیکھتے ہیں کہ مغرب نے عالم اسلام سے ہر شعبہ علم و فکر کی بنیادیں مستعار لیں اور اس پر موجودہ تہذیب کی تعمیر کی۔ یہ کیفیت محض علوم تک محدود نہیں بلکہ صنعت و حرفت ، تجارت و زراعت ، آرٹ اور لٹریچر ہر شعبے کو محیط کیے ہوئے ہے ۔ وہ الفاظ جو آج بھی یورپ کی مختلف زبانوں میں پائے جاتے ہیں۔ اس امر کی غمازی کرتے ہیں کہ مطالب کے ساتھ ساتھ ان کے الفاظ بھی اپنائے گئے ہیں۔

مثال کے طور پرجنگ کے الفاظ ایڈمرل ( امیرالبحر ) ، آرسنل ( دار الصنعہ ) میگزین ( مخزن ) ، شوگر ( شکّر ) ، ریبک ( رباب ) ، لوت ( العود ) ، ازیور ( ازہر ) ۔ فرانسیسی لفظ اوول ( حوالہ ) ، چک ( ثقہ ، سک ) وغیرہ۔ یہ سب عالم اسلام کے احسانات کی نشاندہی کرتے ہیں۔ مغرب نے کلیسا کے دباؤ میں اسلامی روح کو قبول کرنے سے ہمیشہ گریز کیا ۔ اس نے اسلام سے صرف مادی اثرات قبول کیے ۔

یہی مادّی اثرات تھے جو بے روح علم بن کر مغرب کے ہاتھوں میں پہنچے ، جسے انہوں نے عیسائی فضا میں پروان چڑھایا ۔ وہ تناور درخت جس میں اسلامی روح نظر نہیں آتی ، مسلمانوں کا لگایا ہوا پودا ہے ، جو خود عالم اسلام میں نشوونما نہ پاسکا اور ناموافق حالات میں ٹھٹھر کر رہ گیا ۔

ایڈورڈسعیدؔ کے مطابق:
”انگریزی تعلیم کے زیر اثر ہمارا علمی اثاثہ حقیر بن گیا ہے اور ان اثاثوں کے معاملہ میں ہمارا رویہ معاندانہ ہوگیا۔ مغربیوں کے یہاں مشرقیوں کے لئے جو کچھ بھی ہے وہ اس خیال پر مبنی ہے کہ ہر حال میں مشرق ، مغرب کے مقابلے ایک ایسی صورت ہے جسے ترقی پذیر ہونا ہے اور یہ ترقی پذیری دراصل مغربی راستے سے ہی ممکن ہے۔ ذہن کی یہ بالادستی مشرقی مطالعات پر حدود قائم کر دیتی ہے….“ (بحوالہ’مابعد جدیدیت اوروہاب اشرفی کاتنقیدی رویہ‘۔ص ۱۱۲ از ڈاکٹر شہناز خاتون)
مغربی نو آبادیاتی نظام کو مستحکم کرنے کی خاطر برطانوی تعلیمی نظام نے دانشوروں ، تعلیم یافتہ نوجوانوں کی ایک ایسی کھیپ تیار کی جو عالم اسلام میں مغرب کاری کا ہراول دستہ ثابت ہوئی ۔ یہ نظام تعلیم مسلمانوں میں نئی سوچ ، نئی فکر و تحقیق پیدا کرنے میں کامیاب ضرور ہوا مگر مسلمانوں کی تہذیبی وراثت ، ان کے افکار و عقائد اور رجحانات تاریخ سے ہم آہنگ نہ ہونے کی وجہ سے فکری انتشار اور بیشتر اوقات تہذیبی تصادم پر منتج ہوا۔

روایتی علماء نے اس پورے نظام کی زبردست مخالفت کی اور اسے اسلام کے خلاف سازش سے تعبیر کیا۔ اقبالؒ نے ہندوستان میں اس کی بھرپور مخالفت کی ؎

اور یہ اہل کلیساکا نظام تعلیم

ایک سازش ہے فقط دین ومروت کے خلاف

اکبرالٰہ آبادی نے تعلیم نسواں پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا ؎

لڑکیاں پڑھ رہی ہیں انگریزی

ڈھونڈ لی قوم نے فلاح کی راہ

سیدمودودیؒ نے جدیددرس گاہوں کو قتل گاہ قرار دیا ؛ جہاں مسلمان طلباء کی فکر ، تہذیب اور عقیدہ کا خون کیا جاتا ہے ۔ مولانا قاسم نانوتویؒ اور ان کے ہم عصر دیگر علماء نے اس نظام تعلیم کے خلاف اقدامی کاروائیاں کیں اور اپنے نظام تعلیم اور فکر و عقیدہ کے تحفظ کے لئے مدارس قائم کیے۔

ہندوستان میں سرسیداحمدخانؒ ، مصر میں رفاعہ طہطاوی ، تیونس میں خیر الدین پاشا نے جدیدنظام تعلیم کی حمایت کی اور اس کے مثبت اور تعمیری پہلوؤں سے استفادہ کرنے پر زور دیا۔ ہنٹرؔ اپنی کتاب “The Indian Musalmans” میں اس حقیقت کوتسلیم کرتاہے کہ:

”عوامی تعلیم کا ہمارا نظام روایات کا مخالف ، مذہب کے تقاضوں کے غیر مناسب حال اور ان سے متنفر اور مسلمانوں کی تہذیب سے متصادم ہے ۔ اس لئے اس میں کوئی تعجب نہ ہونا چاہیے کہ مسلمان بحیثیت مجموعی ایک ایسے نظام سے الگ تھلگ رہے جو ان کے تعصبات کو رعایت دینے کے لئے آمادہ نہ تھا ، جس نے اُن ضروریات کو ملحوظ نہ رکھا، جنہیں مسلمان اپنے لئے ناگزیر تصور کرتے تھے اور جو لازمی طور سے اُن کے مفادات و حاصلات کا مخالف اور ان کی سماجی روایات و اقدار سے یکسر مختلف تھا “۔

٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں