تین سرخ دل سرخ پس منظر کے ساتھ

حیاء ہی پہچان ہے ہماری

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

اسوہ بتول ، القصیم ، سعودی عرب

14 فروری کی آمد آمد ہے۔ ہر طرف ویلنٹائن ڈے کی تیاری دھوم دھام سے ہو رہی ہے۔ کہیں بازاروں میں دکانیں سرخ غباروں سے سج رہی ہیں، کہیں یونیورسٹی میں لڑکے لڑکیاں ایک دوسرے کو گلاب بانٹ رہے ہیں یہ دن کافر تو مناتے ہی ہیں ، نہ جانے اب مسلمان کیوں منانے لگے ! وہ مسلمان جن کے کردار کسی زمانے میں بلند ترین ہوتے تھے، اب پستی کی طرف جا رہے ہیں۔

ہمیں ہمارے رب نے جس بلند مرتبے پر فائز کیا تھا اور جو عظیم مقصد دے کر ہمیں بھیجا تھا، وہ ہمیں ہمارا رب یوں بتاتا ہے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:
” تم دنیا میں وہ بہترین گروہ ہو جسے انسانوں کی ہدایت و اصلاح کے لیے میدان میں لایا گیا ہے۔تم نیکی کا حکم دیتے ہو ، برائی سے روکتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو۔” (سورہ آل عمران: 110)

کچھ لوگ ویلنٹائن ڈے اپنی بیگم کے ساتھ مناتے ہیں اور کہتے ہیں کہ اس میں کوئی حرج نہیں۔ اسی طرح کبھی وہ کرسمس اور ہالووین (Halloween) بھی منا لیا کرتے ہیں لیکن آپ یہ بھی تو دیکھیے کہ یہ عیسائیوں کے تہوار ہیں، مسلمانوں کے نہیں۔ کیا آپ نے کبھی عیسائیوں کو رمضان کے روزے رکھتے ہوئے یا عید الاضحی پر قربانی کرتے ہوئے دیکھا ہے؟ اگر عیسائی مسلم تہوار نہیں مناتے تو ایک مسلمان میں تو اتنی غیرت ہونی چاہیے کہ وہ ان غیر مسلم رسوم و رواج کو ‘ناں’ کہہ سکے۔

مذکورہ بالا آیت پڑھ کر ہمیں پتہ چلتا ہے کہ ہم تو اِس زمانے کے سارے لوگوں کی پیشوائی کے لیے پیدا کیے گئے تھے، تاکہ انھیں بھی ہم اپنے ساتھ نیکی کی راہ پر چلا سکیں۔ اس لیے نہیں پیدا کیے گئے تھے کہ ہم غلط رسوم و رواج کی تقلید کریں۔ ہم قیامت کے دن انہی کے ساتھ اٹھائے جائیں گے جن کے طریقے پر ہم دنیا میں چلے ہوں گے۔

حضرت ابن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا :’’ جس نے کسی قوم سے مشابہت اختیار کی تو وہ انہی میں سے ہوا ۔‘‘ (سنن ابو داؤد: 4031)

یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ ہم طور طریقے ، رسوم و رواج ، فیشن ٹرینڈز اور اپنا آئیڈیل بھی غیر مسلموں کو بنائیں لیکن ہم چاہیں کہ ہمارا انجام صدیقین ، شہداء اور صالحین میں سے ہو ۔ ہم نے نہ خود ویلنٹائن ڈے منانا ہے اور اگر ہمارے اردگرد کوئی مسلمان منا رہا ہو، تو اسے اچھے الفاظ میں منع کرنا بھی ہمارا فرض ہے۔ ہم نے یہ نہیں سوچنا کہ ہم کسی کی زندگی میں کیوں مداخلت کریں۔

ابن عباس سے روایت ہے ۔ ہمارے پیارے نبی نے فرمایا:
"وہ ہم میں سے نہیں جو ہمارے بڑوں کی عزت نہ کرے اور ہمارے چھوٹوں پر رحم نہ کرے اور نیکی کا حکم نہ دے اور برائی سے نہ روکے۔” (مسند احمد:9544)

پھر آج کل کی نوجوان نسل کہتی ہے کہ کیا بورنگ معاشرہ ہے۔ ذرا کھلا اور ماڈرن معاشرہ ہونا چاہیے کیونکہ اب زمانہ بدل گیا ہے ۔ ہر کسی کو جائز و ناجائز کام کرنے کی آزادی ہونی چاہیے۔ لیکن ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"جو لوگ چاہتے ہیں کہ ایمان لانے والوں کے گروہ میں فحاشی پھیلے وہ دنیا اور آخرت میں دردناک سزا کے مستحق ہیں۔” (سورہ النور: 19)

یہ بات تو ہر مسلمان جانتا ہے کہ ویلنٹائن ڈے منانا سراسر بے حیائی ہے ۔ اور کسی طرح بھی اس کی ترویج کرنا اور سراہنا بھی بے حیائی میں ہی شمار ہوگا۔ ارشاد نبوی ہے:

"بے حیائی جس چیز میں ہوتی ہے اس سے عیب دار بنا دیتی ہے اور حیاء جس چیز ہوتی ہے، اسے زینت بخشتی ہے۔”(مسند احمد:9225)

یہ بھی فرمایا: "حیاء اور ایمان ہمیشہ اکھٹے رہتے ہیں۔ جب ان میں سے کوئی ایک اٹھا لیا جائے تو دوسرا خود بخود اٹھ جاتا ہے۔”(مشکوة)

اگر ہم اپنے ایمان کو عزیز رکھتے ہیں تو ضرور ہم اپنے اندر موجود حیاء کی حفاظت کریں گے۔
کتاب الٰہی ہمیں سکھاتی ہے کہ نا محرم سے کیسے برتاؤ کرنا چاہیے۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے:

"اے نبیؐ ، مومن مردوں سے کہو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں، یہ اُن کے لیے زیادہ پاکیزہ طریقہ ہے، جو کچھ وہ کرتے ہیں اللہ اُس سے باخبر رہتا ہے۔” (سورہ النور: 30)

"اور اے نبیؐ ، مومن عورتوں سے کہہ دو کہ اپنی نظریں بچا کر رکھیں، اور اپنی شرمگاہوں کی حفاظت کریں۔”(سورہ النور: 31)

قرآن میں نظر کی حفاظت کے فوراً بعد شرمگاہ کی حفاظت کا حکم دیا گیا گویا پاکدامنی کی پہلی شرط نظر کی حفاظت ہے۔ ہمیں قرآن نے نامحرموں سے غیر ضروری گفتگو کرنے سے بھی منع کیا ہے لیکن اگر مجبوراً بات کرنی پڑے تو اس کے بھی آداب بتائے گئے ہیں۔ اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں:

"اگر تم اللہ سے ڈرنے والی ہو تو دبی زبان سے بات نہ کیا کرو کہ دل کی خرابی کا مُبتلا کوئی شخص لالچ میں پڑ جائے ، بلکہ صاف سیدھی بات کرو ‘‘(سورہ الاحزاب:32)

اس سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ اسلام میں غیر محرموں سے چھپی آشنائی کرنے کی کوئی گنجائش نہیں ہے۔ دوسرے الفاظ میں مسلمانوں کے لئے ویلنٹائن ڈے منانا کسی طرح بھی جائز نہیں۔ مسلمانوں کو حیاء کا مظہر ہونا چاہیے۔ مسلمانوں کے اخلاق و کردار ،گفتگو ، اٹھنے بیٹھنے ، اوڑھنے ، غرض ہر چیز میں حیاء نظر آنی چاہیے۔ اس لیے کیونکہ ارشاد نبوی ہے۔
"ہر دین کا کوئی امتیازی وصف(صفت) ہوتا ہے اور اسلام کا امتیازی وصف حیاء ہے۔”

اب اگر اسلام کا امتیازی وصف مسلمانوں میں ہی نہیں پایا جائے گا، تو پھر کس میں پایا جائے گا؟
اور میں اپنی پیاری بہنوں سے کہتی ہوں کہ ہر ایرے غیرے کو یہ حق نہیں ہے کہ وہ آپ کی خوبصورتی دیکھے۔ آپ کی خوبصورتی اور زینت صرف خاص لوگوں کے لیے ہے اور وہ ہیں آپ کے محرم رشتے۔ یوں ہر کسی کے سامنے اپنی خوبصورتی کا اظہار کر کے آپ اپنی خوبصورتی کو بے وقعت کر رہی ہیں۔

یوں آپ کے چہرے کی معصومیت آہستہ آہستہ ختم ہو جائے گی۔ خود کو سنبھالیے ! ہوش کے ناخن لیجیے ! کسی کو اجازت نہ دیجیے کہ وہ آپ کے جذبات کے ساتھ کھیلے ۔ نامحرموں کے سامنے زینت کے اظہار کی ممانعت کے حوالے سے اور پردے کے متعلق اللہ تعالیٰ نے قرآن میں ارشاد فرمایا:

"وہ (مومن عورتیں) اپنا بناوٴ سنگھار نہ ظاہر کریں مگر اِن لوگوں کے سامنے : شوہر، باپ، شوہروں کے باپ ، اپنے بیٹے، شوہروں کے بیٹے ، بھائی ، بھائیوں کے بیٹے ، بہنوں کے بیٹے ، اپنے میل جول کی عورتیں ، اپنے مملوک ، وہ زیرِ دست مرد جو کسی اور قسم کی غرض نہ رکھتے ہوں ، اور وہ بچے جو عورتوں کی پوشیدہ باتوں سے ابھی واقف نہ ہوئے ہوں” (سورہ النور: 31)

اس آیت سے ہمیں پتا چلتا ہے کہ عورتیں نامحرموں کے لیے بناؤ سنگھار نہیں کر سکتیں یعنی تیار نہیں ہو سکتیں اور میک اپ بھی نہیں کر سکتیں ۔رسول اللّٰہ نے فرمایا:
"تمہاری بدترین عوتیں وہ ہیں جو ( نامحرموں کے سامنے ) زیب و زینت اختیار کرنے والی اور تکبر کرنے والی ہوں ،یہی عورتیں منافق ہیں۔” (سلسلہ صحیحہ: 1952)

ویلنٹائن ڈے کے حوالے سے کچھ والدین بھی قصوروار ہوتے ہیں کیونکہ وہ اپنے بچوں کو بچہ سمجھ کر انہیں ڈھیل دیے جاتے ہیں۔ تو آپ بھی سن لیجیے کہ کل کو قیامت کے دن یہی بچے آپ کا گریبان پکڑ کر پوچھیں گے کہ جب میں نامحرموں سے دوستی کر کے جہنم کی راہ پر جارہا تھا تو آپ نے مجھے کیوں نہ روکا؟ آپ نے مجھے کیوں نہ بھلائی کا حکم دیا؟ کیوں نہ مجھے صحیح اور غلط میں تمیز سکھائی؟ تو آپ اس دن کیا جواب دیں گے؟ اس دن آپ اپنے ہی بچوں کے مجرم ہوں گے۔ خود کو اس دن کی پشیمانی سے بچانے کے لیے آپ اپنے بچوں کو کم عمری سے ہی حیاء کی تعلیم دیں۔ حیادار، ساتر لباس پہنائیں۔ حیادار گفتگو کرنا سکھائیں۔ ارشاد باری تعالیٰ ہے۔
"اے ایمان والو، اپنے آپ کو اور اپنے اہل و عیال کو آگ سے بچاؤ۔” (سورہ التحریم: 6)

قرآن میں تمام پیغمبروں اور خصوصاً حضرت یوسف کی حیا کی مثال ہمیں ملتی ہے۔ حضرت یوسف نے مشکل ترین مرحلے پر بھی اپنی حیا کا دامن تھامے رکھا اور خواتین مصر کے جالوں سے بچنے کے لیے زندان میں جانے کو ترجیح دی۔ ایسا کرنے کا نتیجہ یہ نکلا کہ حضرت یوسف کے بلند اور مضبوط پاکیزہ اخلاق کا علم مصر کہ ہر خاص و عام کو ہوگیا ۔

اللہ تعالٰی نے قرآن میں جنّتی عورتوں کی سب سے نمایاں صفت حیاء بتائی ہے، اب اگر ہم جنت کے حصول میں سنجیدہ ہیں ، تو کیا ہم اپنے اندر یہ صفت پیدا کرنے کی کوشش نہیں کریں گے؟

دراصل حیاء کو اختیار کرنے سے ہی انسان ایمان کی حلاوت کو محسوس کر پاتا ہے۔ حیا انسان کے وقار میں اضافہ کرتا ہے اور انسان کو سکون بخشتا ہے۔ حیاء انفرادی اور قومی اخلاق کا پاسبان ہے۔ تو پھر کیا حیا سراپا خیر نہیں ہے؟ ہے، کیوں نہیں۔

اس لیے آئیے ! سب مل کر یہ کام کرتے ہیں۔ بے حیائی کو روکنے اور حیاء کو فروغ دینے کا کام۔ حیاء ہماری پہچان ہے جو کھو چکی ہے۔ آئیے ! اس پہچان کو دوبارہ اپنے نام کریں۔

یہ کام ہے صبح و شام کرنا ، حیاء کے کلچر کو عام کرنا
قلم سے یہ انتظام کرنا ، حیاء کے کلچر کو عام کرنا


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں