اردو ناول ہری یوپیا ، اور ناول نگار ڈاکٹر حنا جمشید

ہری یوپیا … امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

بدامنی، آلودگی اور شور شرابے سے بھری اس دنیا سے تنگ آئے ہوئے لوگ بے شمار ہیں ۔ ان کا دل چاہتا ہے کہ اچانک ایک ایسی دنیا کا دروازہ کھلے جہاں نفاست ہو ، حسن انتظام ہو ، محبت ہو، سکون ہو … اور وہ اس خوبصورت دنیا میں داخل ہو جائیں۔ ’ ہری یوپیا ‘ ایسی ہی ایک خوبصورت دنیا ہے۔

وہاں جانے کے لئے آپ کو حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی پیدائش سے قریباً چھ ہزار سال پہلے کے دَور میں جانا ہوگا ۔ آج کے پاکستانی شہر ساہیوال سے قریباً 24 کلومیٹر دُور ۔ اس وقت یہ خوبصورت دنیا ساڑھے تین سو ایکڑ سے کچھ زائد رقبہ پر پھیلی ہوئی تھی۔ آج کی دنیا میں اسے ایک ’ بڑا گاؤں‘ ہی کہا جا سکتا ہے تاہم وہ ایک مکمل تہذیب تھی۔

بے شمار لوگ ایسی دنیاؤں میں زندگی گزارنا چاہتے ہیں کہ وہ دنیائیں خودغرضی، نفرت اور ہلاکت خیزی سے پاک ، صاف و شفاف تھیں۔ تب تحمل اور برداشت تھی، ایک دوسرے کے ساتھ اٹھنے بیٹھنے، ہنسنے کھیلنے کا کلچر تھا۔

اس دنیا کے لوگوں کے پاس ایک دوسرے کے خلاف سوچنے اور لڑنے بھڑنے کا وقت نہیں تھا، بس ! وہ سورج چڑھتے تعمیر و ترقی اور خوش حالی کے لئے کام شروع کرتے تھے، سورج ڈوبنے تک ان کی دنیا یونہی رنگ رنگیلی رہتی تھی۔

اس کے نتیجے میں سرسوتی اور ایرا وتی کے دریا بھی ہنستے گاتے بہتے چلے جاتے تھے، ہر سو ہریالی کی چادر بچھی رہتی تھی، جنگلوں میں مور ناچتے تھے۔ معبد ، پروہت ، مقدس گیت، سنگیت، خاک اڑاتے رتھ، شیش ناگ اور مقامی مٹی میں گندھے ہوئے کردار۔

وقت ملے تو اس تہذیب کے آثار دیکھنے ضرور جائیے گا ۔ مسئلہ صرف یہ ہے کہ ساہیوال سے چوبیس کلومیٹر دوری پر صرف آثار ہی ملیں گے البتہ یہ پوری تہذیب زندہ و تابندہ ملے گی’ ہری یوپیا ‘ ناول کی صورت میں، جس کی مصنفہ محترمہ حنا جمشید ہیں۔

وہ محقق ، نقاد ، مترجم ،کالم نگار ، افسانہ نگار اور ناول نگار بھی ہیں۔ انھوں نے اردو ادب کی تعلیم حاصل کی ، پی ایچ ڈی کی ، پھر وہ تحقیق کے میدان میں اترگئیں ۔ ایک ماہر آثار قدیمہ کی طرح ہزاروں سال پرانی تہذیب کا کھوج لگایا ، اور پھر اس تہذیب کو زندہ و تابندہ کر دیا ۔

ساڑھے آٹھ ہزار سال پہلے کی یہ دنیا ، پختہ مٹی اور پکی ہوئی سرخ اینٹوں سے تعمیر شدہ ، دور فاصلے سے یوں معلوم ہوتا تھا جیسے وہاں کئی ٹیلے ہیں اور ہر ٹیلے کی الگ حفاظتی دیوار ۔ ٹیلوں کے اس مجموعے کے اردگرد ایک الگ دیوار تھی جس میں ایک شاندار بلند قامت مرکزی دروازہ تھا ، جس کی ہیبت دیکھنے والوں کو گنگ کر دیتی تھی۔ ایراوتی کی ندی کے کنارے ، ایک چھوٹی سی بستی سے شروع ہونے والی کہانی اسی پرشکوہ مرکزی دروازے کے ذریعے ’ ہری یوپیا ‘ میں داخل ہوتی ہے، وہاں زندگی کے مختلف رنگ بکھیرتی ہے جنھیں دیکھ کر حیرت ہوتی ہے۔ مصنفہ لکھتی ہیں :

’’سچ تو یہ ہے کہ ہری یوپیا میرا وہ خواب ہے، جو ہڑپا کے کھنڈرات میں، اپنی جاگتی آنکھوں سے میں نے بارہا دیکھا اور محسوس کیا ہے۔

آپ اسے عصر حاضر میں امن و آشتی کو ترستے انسان کا خواب بھی کہہ سکتے ہیں، جو ماضی میں بارہا فنا سے نبردآزما ہوا مگر اپنی جرات ، ہمت اور اٹوٹ حوصلے سے مٹ جانے والی تہذیب کے سینہ نما مدفن پر ایک نئی تہذیب بسا کر اپنے ثبات کا ببانگ دہل اعلان کرتا رہا ‘‘۔

آج ڈاکٹر حنا جمشید یہ خوبصورت خواب آج کے انسانوں کو دکھاتی ہیں اور انھیں لے کر ایک خوبصورت دنیا میں اتر جاتی ہیں۔ اس کہانی کا مطالعہ میرے لئے ایک نیا اور خوبصورت تجربہ ثابت ہوا ۔ آپ بھی ضرور پڑھیے گا۔ ’ بک کارنر ‘ نے اسے نہایت خوبصورت سرورق کے ساتھ ، شاندار انداز اور مجلد صورت میں پیش کیا۔ قیمت ، 1250 روپے۔ ناشر : بک کارنر ، جہلم ، رابطہ : 03215440882


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں