حیدر گوٹھ کا بخشن ، اردو ناول کا سرورق

حیدر گوٹھ کا بخشن ( اردو ناول )

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

عبید اللہ عابد

محمد حفیظ خان محقق، مورخ اور نقاد ہیں۔ ناول نگار، افسانہ نگار اور ڈراما نگار بھی ہیں۔ مختلف قومی اخبارات میں کالم بھی لکھتے رہے اور باقاعدہ صحافت بھی کی۔ بنیادی طور پر وکیل تھے، پھر ریڈیو پاکستان سے بطور پروڈیوسر منسلک ہوئے۔

ساتھ ہی مختلف تعلیمی اداروں میں قانون کی تعلیم دینے لگے۔ بعدازاں وفاقی اور صوبائی سول سروس کا حصّہ رہے۔ سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک کے مناصب پر بھی فائز رہے۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ ان کی شخصیت کس قدر ہمہ جہت ہے۔

جس فرد نے زندگی کے بہت سے شعبے دیکھے ہوں، وہاں زندگی گزاری ہو، مشاہدہ کیا ہو، وہ جب لکھنے پر آتا ہے تو خوب لکھتا ہے۔ محمد حفیظ خان بھی ایسے ہی لوگوں میں شمار ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ ان کے ناول ہوں یا کہانیوں کے مجموعے، قاری کو اپنی دُنیا میں گُم کر لیتے ہیں۔ ”حیدر گوٹھ کا بخشن“ مصنف کا پانچواں ناول ہے۔

ہر معاشرے میں مختلف دنیائیں ہوتی ہیں، یہ ناول بھی ایسی ہی دو دنیاؤں کا مشاہدہ کراتا ہے۔ دو کہانیاں ایک دوسرے کے ساتھ ساتھ چلتی ہیں۔

ایک کہانی ایک ریٹائرڈ بیوروکریٹ کی ہوتی ہے جسے ریٹائرمنٹ کے بعد اپنی ہی بیوی، بچوں کی طرف سے عجیب و غریب رویے کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

انسان کو دنیا کے سب لوگوں کی طرف سے خود غرضی کا خدشہ ہو سکتا ہے لیکن ان لوگوں کی طرف سے نہیں، جن پر وہ اپنا سب کچھ نچھاور کر چکا ہوتا ہے۔ یہ ایک ایسا المیہ ہے جو معاشروں کو کھدیڑ کر رکھ دیتا ہے۔

دوسری کہانی یکے بعد دیگرے پیش آنے والے مختلف واقعات کا مجموعہ ہے، یہ کہانی ہمارے عدالتی نظام پر چڑھے پردے ہٹاتی ہے۔ چونکہ مصنف وکیل بھی رہے اور پھر سول جج سے ڈسٹرکٹ اینڈ سیشن جج تک سینکڑوں بلکہ ہزاروں مقدمات سنے، اس لئے وہ بخوبی بیان کرسکتے ہیں کہ ہمارے ہاں وکلا کا طبقہ کیا کچھ کرتا ہے اور جج حضرات کس قسم کا ”انصاف“ کرتے ہیں اور کیسے کرتے ہیں؟

May be an image of 2 people and text
حیدر گوٹھ کا بخشن (ناول)،قیمت: 1250 روپے،ناشر: بک کارنر جہلم

ججز کیسے پریشر گروپس کے زیر اثر آتے ہیں؟ بدمعاش، وکلا اور پولیس، تینوں گروہوں نے عدالتوں کے اردگرد جال بُنا ہوتا ہے، یہ مفادات کے کھیل میں ایک دوسرے کا کیسے ساتھ دیتے ہیں لیکن بعض اوقات مفادات کیسے انھیں ایک دوسرے کے مقابل کھڑا کر دیتے ہیں؟ ناول سے بخوبی پتہ چلتا ہے کہ وکلا کی ہڑتالوں کے پس پردہ اصل محرکات کیا ہوتے ہیں؟

ناول کا ایک اقتباس ملاحظہ فرمائیے جو آپ پر ظاہر کرے گا کہ کہانی کس قدر زوردار ہے: ”اسی چڑیا کو پھڑکا کر تو اس نے علاقے کی دو بلاؤں ملک یاور بختاور اور نادر خان کو آپس میں یوں اُلجھائے رکھنا تھا کہ نہ صرف حکومت اور اپوزیشن دونوں سے کاروباری معاملات فِٹ رہتے بلکہ اُن کے مال کو بھی کچھ اس طرح نکہ لگاتا کہ جیسے پانی چور زمیندار نہر میں سائفن لگا کر واری کے بغیر کھیت کے کھیت سیراب کر لیتا ہے۔

لیکن یہ کیا ہوا کہ اب اللہ ڈِنو عبید جیسا بااثر شخص بھی رباب کے لئے میدان میں آ گیا اور آیا بھی تو اس انداز میں کہ پرانی یاری دوستی کے سبھی طور طریقے، ادب آداب ایک طرف کرکے کھلی دھمکیاں دیتا ہوا ماں بہن ایک کرنے پر آ گیا۔ آخر کون ہے یہ رُباب جس کا ہونا اور نہ ہونا اتنا اہم بنتا جا رہا ہے۔

کہاں کہاں تک رسائی ہے اس کی؟ کیا اس کی طلب کے پس منظر میں اس کے جنسی تعامل میں بے مثال ہنر مندی اور عملیت میں اولیت کا دخل ہے یا کچھ اور سبب ہے جو اب تک کھلا نہیں۔“

ناول بیوروکریسی کے عشرت کدوں سے پردے اٹھاتا ہے، انھیں آباد رکھنے والوں کو بے نقاب کرتا ہے۔ یہ کہنا غلط نہ ہو گا کہ یہ ناول پڑھنے والے کے چودہ طبق روشن کر دیتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں